آرتھر ایش نے اپنی بیماری کا کیسے سامنا کیا؟


آرتھر ایش، ایک امریکی سیاہ فام،  ٹینس کا مشہور کھلاڑی تھا- یہ 1947 کو امریکہ میں پیدا ہوا- اس کو بچپن سے ہی ٹینس کھیلنے کا شوق تھا لیکن اس زمانے میں گورے اور کالے کی تفریق نے آرتھر کو اتنے مواقع نہیں دیئے- سیاہ فام لوگوں کے ٹینس کھیلنے کے کورٹس بھی الگ ہوتے تھے  لیکن آرتھر نے اپنی محنت سے بہت جلد ٹینس کی دنیا میں اپنا مقام بنا لیا-

آرتھر ایش نے تین گرینڈ سلیم ٹائٹل جیتے جس میں آسٹریلین اوپن، یو ایس اوپن اور ومبلڈن شامل ہیں- اب تک کوئی سیاہ فام ومبلڈن ٹائٹل نہیں جیت سکا ہے لہذا آرتھر ایش کے پاس اب تک یہ ورلڈ ریکارڈ ہے-

آرتھر نے نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھائی،  بچوں کی ٹینس کے لئے اکیڈمی،  اسپتال، کلینکس اور دیگر کئی انسانیت کی فلاح کے لئے کام کئے- آرتھر ایش فاونڈیشن ابھی بھی ایک بڑا فلاحی ادارہ ہے جو امریکہ میں کام کر رہا ہے-

آرتھر ایش 1983 میں دل کے عارضہ میں مبتلا ہو گیا- اس کی بائی پاس سرجری کے بعد آرتھر کو خون کی بوتلیں لگائی گئیں- اس کی جان تو بچ گئی لیکن ان ہی خون کی بوتلوں کے درمیان آرتھر کو ایڈز کی مہلک بیماری لگ گئی-

آرتھر ایش نے بہت لمبے عرصے تک اس بیماری کو چھپایا کیوں کے اس زمانے میں ایڈز کے شکار مریض کو لوگ کچھ عجیب نظروں سے دیکھتے تھے لیکن جب اخبارات میں آرتھر کی بیماری کی باتیں ہونے لگی تو آرتھر نے ایک پریس کانفرنس کر کے اپنی بیماری کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا-

آرتھر  دس سال تک ایڈز سے لڑتا ہوا بالآخر 1993 میں خالق حقیقی سے جا ملا-  آرتھر کی عمر صرف 46 سال تھی- آرتھر کو اپنی بیماری کے دوران  ہزاروں خطوط موصول ہوئے لیکن آرتھر نے صرف ایک خط کا جواب دیا جس میں اس کے ایک چاہنے والے نے آرتھر سے پوچھا کہ ” خدا نے اس خوفناک بیماری کے لئے تمھیں ہی کیوں چنا؟ “

Arthur-Ashe-Wimbledon-1975

آرتھر نے جواب میں لکھا ” دنیا میں پانچ کروڑ بچے ٹینس کھیلنا شروع کرتے ہیں جس میں سے صرف 50 لاکھ ٹینس کھیل پاتے ہیں- ان پچاس لاکھ میں سے صرف 5 لاکھ پروفیشنل ٹینس کھیلتے ہیں اور خالی 50 ہزار سرکٹ میں آتے ہیں- ان پچاس ہزار میں سے صرف پانچ ہزار گرینڈ سلیم تک پہنچتے ہیں- ان پانچ ہزار میں سے صرف پچاس ومبلڈن تک پہنچتے ہیں- چار سیمی فائنل میں،  دو فائنل میں اور صرف ایک کھلاڑی یہ ومبلڈن کا فائنل جیتتا ہے- جب میں نے ٹرافی آٹھاتے وقت اپنے خدا سے یہ نہیں پوچھا میں ہی کیوں تو اب جب کہ میں تکلیف میں ہوں اپنے خدا سے کیسے گلہ کروں کہ اے خدا میں ہی کیوں “

آرتھر مزید لکھتا ہے ” کبھی کبھی آپ  اپنی زندگی سے  مطمئن  نہیں ہوتے لیکن دوسروں کے لیے آپ کی زندگی ایک خواب ہوتی ہے اور وہ آپ کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں- ایک بچہ کھیتوں میں چلتے ہوئے اوپر سے گزرنے والے جہاز کو دیکھتے ہوئے سوچتا ہے کہ وہ کب اس میں بیٹھے گا اور جہاز اڑائے گا لیکن جہاز میں بیٹھا ہوا پائلٹ یہ سوچتا ہے کہ کب وہ زمین پر اترے گا اور اپنے بیوی بچوں سے ملے گا-

Arthur Ashe 1965

” آپ اپنی زندگی بھرپور طریقے سے جئیں- اگر دولت ہی خوشیوں کی خریدار ہوتی تو سڑک پر سارے امیر ڈانس کر رہے ہوتے لیکن صرف غریب بچے ہی سڑکوں پر ناچتے گاتے ہیں- اگر طاقت ہی تحفظ دیتی تو امیروں کو اپنی حفاظت کے لئے پولیس،  گارڈز اور چوکیدار نہیں رکھنے پڑتے- لہذا جو سادہ زندگی گزارتے ہیں وہی سکون کی نیند سوتے ہیں-

” اگر خوب صورتی اور نام ہی اچھی ازدواجی زندگی کی ضمانت ہوتی تو دنیا میں سیلیبریٹیز کی شادیاں سب سے کامیاب ہوتیں- حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے- خوش رہیں،  سادہ زندگی گزاریں اور ایک دوسرے سے پیار کریں”

یاد رہے ! آرتھر ایش کو ہزاروں خطوط موصول ہوئے تھے  اور اس نے صرف ایک خط کا جواب دیا  جس میں پوچھا گیا تھا کہ ” اس خوفناک بیماری کے لئے خدا نے تم ہی کو کیوں چنا؟ “

اگر کبھی آپ کو اپنی زندگی اجیرن لگنے لگے تو آرتھر ایش کا یہ خط دہرا لیجیے گا-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments