پی ڈی ایم کا مہنگائی مارچ اور بلاول کا لانگ مارچ


پی ڈی ایم، آپ کو یاد ہو گا پچھلی سردیوں میں بہت زور و شور سے عوام کو حکومت کے خلاف نکالنے اور لانگ مارچ کرنے میں مشغول تھی۔ پورے ملک میں جلسے جلوس کارنر میٹنگز اور احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے۔ پھر اچانک ایک جلسے کے دوران مریم بی بی نے آر یا پار کا نعرہ لگایا اور اسلام آباد جا کر اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان کیا۔ لیکن پیپلز پارٹی اور اے این پی حکومت سے یک طرفہ استعفیٰ دینے کے مسئلے پر پی ڈی ایم سے الگ ہو گئیں۔ پی ڈی ایم کو غصہ آیا ان سے پوچھ گچھ کے لئے نوٹسز جاری کیے، اپنی میڈیا مینیجرز کے ذریعے پیپلز پارٹی اور ساتھ اے این پی کو ولن بنا کر تحریک کو نقصان پہنچانے اور الگ ہونے کے مجرم کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔

پیپلز پارٹی اور اے این پی پاکستان کی دو ایسی پارٹیاں ہیں، جن کا ماضی، جن کی قربانیاں اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جن کے ’خصوصی تعلقات‘ کسی اور پارٹی جیسے نہیں۔ دونوں کے لیڈرز اور ورکر جیلوں میں ڈالے جاتے رہیں اور قتل ہوتے آئے ہیں۔ جبکہ نواز شریف اور ان کے نزدیکی ساتھیوں کے ساتھ حالیہ سلوک کی استثنا کے علاوہ پی ڈی ایم سمیت کسی اور پارٹی کے ساتھ کبھی ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کے برخلاف پی ڈی ایم کی باقی پارٹیاں (پی میپ کو چھوڑ کر) اکثر و بیشتر اسٹبلشمنٹ کے دست و بازو بنے رہے۔ بے نظیر کے خلاف ہر حربہ استعمال کرنے والی نون لیگ اور مشرف کی حکمرانی کو قانونی جواز دینے والی ایم ایم کے بڑے پارٹنر مولانا صاحب سب کو یاد ہو گا۔ جبکہ مشرف کے دور میں ہزاروں اے این پی کے ورکرز اور سیاسی رہنما قتل کیے گئے اور بینظیر بھی اسی دور میں جان سے گئی۔

پیپلز پارٹی کو کبھی بھی حکومت گڈ ول میں نہیں ملی بلکہ اس نے ہمیشہ ٹاپ کی لیڈرشپ کی قربانی دی ہے تب کہیں جاکر حکومت ملی۔ اس لئے بینظیر کی شہادت کے بعد جب آصف علی زرداری کو حکومت کرنے دیا گیا تو انہوں نے سیاسی تدبر سے کام لے کر اٹھارہویں ترمیم کی منظوری میں پوری جان لڑائی۔ آئین سے غیر سیاسی طاقتوں کی ایماء پر کی گئیں اکثر ترامیم ختم کرنے کے ساتھ ساتھ صوبوں کو مالی طور پر خود مختار بنانے کے لئے کنکرنٹ لسٹ بھی ختم کی۔ جس سے نہ صرف یہ کہ صوبوں کو مالی خودمختاری ملی بلکہ اسٹبلشمنٹ کی مالیاتی امور پر گرفت ختم کردی۔

سوچا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کے الگ ہونے کی بنیادی وجہ بھی یہی اٹھارہویں ترمیم تھی۔ جن کو اپنے سیاسی تدبر کی بنیاد پر اندازہ تھا کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی صورت میں اسٹبلشمنٹ فوری طور پر یک طرفہ اٹھارہویں ترمیم ختم کردے گی اور جتنی بھی ناراض سہی نون لیگ بڑے صوبے کی پارٹی ہے، اس لیے اسٹبلشمنٹ اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کی صورت میں اسے کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کر لیگی کیونکہ اسٹبلشمنٹ کا ترجیحی پاکستان بھی پنجاب تک محدود ہے۔ اور نون لیگ سے اس کی زیادہ ناراضگی بھی اس بات پر ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جانے کی بجائے چھوٹے صوبوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ نون لیگ نے استعفوں کی آپشن پیش کر کے اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے پر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ دعائے خیر کی تھی، لیکن اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے سے پنجاب کی اتنی دلچسپی ہے نہ مفادات، جتنے باقی تین صوبوں کے ہیں۔ اس لئے یہ عین ممکن ہے کہ پارلیمنٹ سے استعفے پیش کرنے کی صورت میں اسے واپسی کی اجازت مل جاتی اور بارگین میں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی کھوئی ہوئی طاقت، جو زرداری نے ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ کے نعرے کے تحت ان سے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے چھینی ہے۔ رہی بات پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان صاحب کی، تو ان پر شروع دن سے بلاول اور اے این پی کا اعتماد نہیں تھا۔ بلاول نے پی ڈی ایم کی تشکیل کے شروع میں کہا تھا کہ پی ڈی ایم کی چیئرپرسن شپ وقت کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کے مختلف ممبر جماعتوں میں روٹیٹ ہونی چاہیے۔ پھر کچھ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کی نظر میں مولانا کبھی بھی اینٹی اسٹبلشمنٹ کردار کے حامل سیاست دان نہیں رہے۔ اس لئے تو آج تک مولانا سمیت مولانا کی پارٹی کا کوئی لیڈر نہ تو عمران حکومت نے کبھی گرفتار کیا اور نہ میاں نواز شریف کی انگلینڈ نکلنے کے علاوہ ان کی سربراہی میں قائم پی ڈی ایم کی خالی شور شرابے کی پالیسی کے علاوہ کوئی ٹھوس کارکردگی نظر آئی۔ یہ بھی افواہیں ہیں کہ میاں صاحب کو نکالنے کے صدقے پی ٹی آئی کو پانچ سال تک حکومت کرنے اور شور شرابے کے علاوہ کچھ نہ کرنے کی یقین دہانی بھی ہوئی تھی۔

اب پی ڈی ایم کی لانگ مارچ سے پہلے اچانک پیپلز پارٹی کی لانگ مارچ کا اعلان پھر پی ڈی ایم کے مجوزہ لانگ مارچ پر سوال اٹھا رہی ہے۔ کیونکہ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے وقت پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ پھر رمضان ہے جو مولویوں کی کمائی کا سیزن ہے اور پھر گرمیاں۔ پھر پی ڈی ایم کا مجوزہ لانگ مارچ حکومت گرانے کے کے لئے نہیں بلکہ مہنگائی کے خلاف ہے۔ لگتا ہے حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے کی خاطر تین چار مہینے کا وقت اور عوام کو لولی پاپ دیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو جو بات مزید مشکوک بنا رہی ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے سال کی طرح اس دفعہ پی ڈی ایم کی ملک بھر میں سیاسی یا احتجاجی سرگرمیاں، دھمکی آمیز بیانات یا کوئی ڈیڈ لائن کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ البتہ پختونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پرانی پسندیدہ پارٹی کو کھل کر کھیلنے کا میدان مہیا کیا، الیکشن کمیشن نے حکومتی پارٹی کے خفیہ فارن اکاؤنٹس آشکار کیے جبکہ سب کے چہیتے اور فوجی بوٹ فیم واؤڈا کی نا اہلی کے نہ ختم ہونے والی کیس میں فیصلہ محفوظ کر دیا گیا۔

دلچسپ امر پیپلز پارٹی کی طرف سے لانگ مارچ کا اعلان ہے۔ کیا اسے کوئی سگنل ملا ہے؟ کیا وہ ایک دفعہ پھر نون لیگ کے کسی چال کو ناکام بنانے کے لئے اعلان کرنے پر مجبور ہوئی ہے یا حکومت کی کمزوری کو سمجھتے ہوئے کوئی یقینی وار کرنا چاہتی ہے؟ کیونکہ پنجاب میں کچھ پرندے پرواز کر کے اس کے چھتری پر حال ہی میں بیٹھ گئے ہیں اور باقی بیٹھنا چاہتے ہیں؟

تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ ہر مارشل لاء کے بعد حکومت پیپلز پارٹی کو ملی ہے اور ملک کو مشکلات سے وہی نکال لائی ہے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments