سارہ وزیر: مہندی کے ذریعے کینسر سے لڑتے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والی آرٹسٹ

کریم الاسلام - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


مہندی، آرٹ، کینسر
یہ انڈس ہسپتال کراچی کا کینسر وارڈ ہے۔ یہاں 100 کے قریب بچوں کی کیمو تھراپی ہو رہی ہے۔ اِن مریضوں میں ہر عمر کے لڑکے لڑکیاں شامل ہیں جن میں سے کئی تو دور دراز کا سفر کر کے یہاں علاج کرانے آئے ہیں۔

بچوں کے ساتھ اُن کا خیال رکھنے کے لیے ماں باپ بھی موجود ہیں۔ وارڈ کا نرسوں اور ڈاکٹروں پر مشتمل عملہ پوری تندہی سے بچوں کے علاج میں مصروف ہے۔

لیکن اِس منظر میں ایسا کیا نیا ہے؟ روز ہی یہاں کینسر کا شکار بچے والدین کے ساتھ کیمو تھراپی کرانے آتے ہیں۔

مگر آج کا دن کچھ خاص ہے۔۔۔۔

کندھے پر بڑا سا بیگ ڈالے ہاتھ میں مہندی کی کونز تھامے ایک نوجوان لڑکی ہسپتال کے بستروں پر لیٹے اِن بچوں کو ایسے ہنسائے جا رہی ہے جیسے یہ کبھی بیمار ہی نہ ہوئے ہوں۔ ہنساتے ہنساتے وہ بچوں کے چہروں، ہاتھوں اور سر پر مہندی سے خوبصورت ڈیزائن بھی بناتی جا رہی ہے۔

یہ کراچی کی مشہور مہندی آرٹسٹ سارہ وزیر ہیں جو کینسر سے لڑنے والے بچوں کے سروں پر ’مہندی کے تاج‘ پہناتی ہیں۔

مہندی کے تاج

مہندی، آرٹ، کینسر

مہندی کے استعمال کی تاریخ صدیوں پرانی اور کئی نامور تہذیبوں کا حصہ رہی ہے۔ برِصغیر میں بھی یہ اپنی تاثیر اور آرائشی استعمال کے لیے پسند کی جاتی رہی ہے۔

لیکن اب مہندی یا حِنا کا رُجحان مغرب میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران کئی مغربی فنکاروں اور گلوکاروں نے مہندی کا استعمال شروع کیا۔ عورتوں کے علاوہ ’حِنا ٹیٹوز‘ مردوں میں بھی مقبول ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کی ایک سماجی تنظیم ’حِنا ہیلز‘ یا ’مہندی کے ذریعے علاج‘ نے سارہ وزیر سے رابطہ کیا اور ’حنا کراؤنز‘ یا مہندی کے تاج کا تصّور پاکستان میں روشناس کرایا۔

سارہ وزیر بتاتی ہیں کہ کینسر کے علاج کے دوران کیمو تھراپی سے مریض کے سر کے بال جَھڑ جاتے ہیں۔ لہذا ’مہندی کے تاج‘ کے ذریعے مردوں، عورتوں اور بچوں کے سروں پر خوبصورت ڈیزائن بنا دیے جاتے ہیں۔

اِس طرح مریض خود اعتمادی محسوس کرنے لگتا ہے اور زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے کیونکہ پاکستان میں سماجی رویوں کے ڈر سے اکثر مرد اور عورتیں سر کے بالوں سے محروم ہو جانے کی بات کو چُھپاتے ہیں لہذا سارہ نے ’مہندی کے تاجوں‘ کا کام بچوں سے شروع کیا۔

مہندی آرٹ

مہندی، آرٹ، کینسر

سارہ وزیر یاد کرتی ہیں کہ اُن کی والدہ شادیوں میں مہندی لگانے جایا کرتی تھیں۔ اُنھیں دیکھ دیکھ کر سارہ کو بھی اِس کام میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔

’جب میں امّی کے ساتھ شادیوں میں جایا کرتی تھی تو میں نے بھی مہندی لگانے کی پریکٹس شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ میں نے اپنا ایک منفرد سٹائل بنا لیا۔ میں نے مہندی کی اصل بنیاد کو برقرار رکھتے ہوئے روایتی ڈیزائن کو جدید انداز میں ڈھالا۔‘

سارہ بتاتی ہیں کہ ’میرا سب سے مقبول کام ’لَو سٹوری ڈیزائن‘ ہے جس میں مہندی کے ڈیزائن کے ذریعے دولہا دلہن کی زندگی کی کہانی بتائی جاتی ہے۔ یہ ایک نیا ٹرینڈ ہے اور لوگوں کو بہت پسند بھی آ رہا ہے۔‘

’مہندی لگانے والیاں‘

مہندی، آرٹ، کینسر

سارہ وزیر کے بقول مہندی لگانا ایک مکمل فن ہے جس میں ٹیلنٹ اور تکنیک کا استعمال بہت اہم ہے۔

’یہ ایک مشکل آرٹ ہے جس میں بہت وقت صرف ہوتا ہے۔ ایک دُلہن کو تیار کرنے میں پورا پورا دن لگ جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ میں اپنی مہندی بھی خود بناتی ہوں جو مکمل طور پر قدرتی اجزا سے تیار کی جاتی ہے۔ بازار میں فروخت ہونے والی مہندی کونز میں کیمیکل استعمال ہوتا ہے جو صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔‘

سارہ وزیر تسلیم کرتی ہیں کہ اب پاکستان میں بھی آہستہ آہستہ اِس فن کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’کیونکہ مہندی کا فن ہمارے ہاں صدیوں سے رائج تھا لہذا اب سے کچھ عرصہ پہلے تک اِسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی تھی بلکہ ’مہندی والیوں‘ کا لفظ بھی توہین آمیز انداز میں استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب معاملہ مختلف ہے۔‘

ہسپتال میں مہندی

’مہندی کے تاج‘ کا تصّور لے کر سارہ وزیر نے پاکستان میں بچوں کے کینسر کے چند بڑے ہسپتالوں میں سے ایک ’انڈس ہسپتال‘ کا رُخ کیا۔ اب وہ باقاعدگی سے وہاں جاتی ہیں، زیرِ علاج بچوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں اور اُن کے لیے مہندی کے مختلف ڈیزائن بناتی ہیں۔

سارہ بتاتی ہیں کہ ’ابتدا میں تو مجھے والدین کی طرف سے کافی سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ میں کون ہوں کیا کرتی ہوں اور کینسر ہسپتال میں آ کر بچوں کے سر پر مہندی کیوں لگانا چاہتی ہوں۔ پھر میں نے اُنھیں اِس آئیڈیا کے بارے میں بتایا اور تصویریں دکھائیں۔‘

’جب میں نے پہلی بچی کے سر پر مہندی کا تاج بنایا تو اُس کی خوشی دیکھنے والی تھی۔ وہ پورے وارڈ میں دوڑ رہی تھی اور سب کو اپنا ‘تاج’ دکھا رہی تھی۔‘

مہندی، آرٹ، کینسر

مہندی سے خود اعتمادی

سارہ وزیر کے نزدیک ’حِنا آرٹ‘ ایک تھراپی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جس طرح کوئی دُلہن ہاتھوں پر مہندی لگا کر خود کو خوبصورت تصّور کرنے لگتی ہے بالکل اُسی طرح کینسر سے جنگ لڑنے والا بچہ ’مہندی کا تاج‘ پہن کر اپنے آپ کو خود اعتماد اور طاقتور سمجھنے لگتا ہے۔

’جب یہ بچے دیکھتے ہیں کہ کوئی باہر کا شخص آ کر اُن کے پاس وقت گزار رہا ہے اور مشکل وقت میں اُن کا دکھ درد بانٹ رہا ہے تو وہ خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔ جذبات میں یہ تبدیلی میں مہندی لگانے کے دوران بھی محسوس کرتی ہوں۔ جو بچہ ہسپتال کے بستر پر منھ بسورے لیٹا ہوتا ہے وہ مہندی لگوانے کے بعد کھلکھلاتے ہوئے اُٹھ بیٹھتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کینسر اور سیکس: ‘مجھے مدد مانگتے ہوئے شرم آتی تھی‘

کیا مردوں کو بھی چھاتی کا کینسر لاحق ہو سکتا ہے؟

’میرا خیال تھا کہ چھاتی کے کینسر کے لیے میری عمر بہت کم ہے‘

’مساج کرنے والی خاتون نے جلد کے خطرناک کینسر سے میری جان بچائی‘

سارہ بتاتی ہیں کہ ’میں جس بچے کو مہندی لگاتی ہوں کوشش کرتی ہوں کہ اُس کے ساتھ ایک ذاتی تعلق بھی قائم کروں۔ مثلاً میں پوچھتی ہوں کہ اُسے کون سا کارٹون کریکٹر یا سُپر ہیرو پسند ہے۔ پھر میں وہ اُس کے چہرے، ہاتھ یا سر پر بناتی ہوں۔ اِس طرح وہ اُس ڈیزائن سے ایک اپنایت محسوس کرنے لگتا ہے۔‘

مہندی، آرٹ، کینسر

مہندی علاج میں مددگار

انڈس ہسپتال میں بچوں کے کینسر کے ماہر ڈاکٹر سید احمر حامد جدید تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ذہنی طور پر مضبوط مریض بیماری سے زیادہ بہتر طریقے سے لڑنے کے قابل ہوتا ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی بچہ کینسر کا شکار ہے لیکن اُس کی ذہنی اور جذباتی صحت بہتر ہے تو وہ بیماری کو شکست دینے کی بہتر پوزیشن میں ہو گا۔

ڈاکٹر سید احمر حامد کہتے ہیں کہ ’کینسر کی تکلیف اور علاج خاص طور پر کیمو تھراپی کے مضر اثرات اپنی جگہ لیکن اُس کے ساتھ ساتھ گھر والوں اور دوستوں سے دور ہسپتال کے انجان ماحول میں زیرِ علاج رہنا بھی بچوں کے لیے جذباتی لحاظ سے ایک مشکل تجربہ ہوتا ہے۔‘

’ایسے میں جب کوئی آرٹسٹ آ کر اِن بچوں کے ساتھ اپنا آرٹ شیئر کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو نارمل محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اُن میں مثبت خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں اور وہ زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں جس سے اُن کے بہتر علاج میں مدد ملتی ہے۔ ساتھ ساتھ والدین کو بھی حوصلہ ملتا ہے کہ اُن کا بچہ صحتیابی کی طرف گامزن ہے۔‘

ہسپتال دوسرا گھر

نو سال کے محمد بن خالد کو دو برس پہلے بلڈ کینسر تشخیص ہوا تھا جب وہ کلاس ون میں پڑھ رہے تھے۔ محمد کی والدہ مہوش خالد بتاتی ہیں کہ جب پہلی بار اُنھوں نے سُنا کہ اُن کے بیٹے کو کینسر ہے تو اُن کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ دن اُن کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔

’پھر جب محمد نے پہلی بار ہسپتال میں کینسر کے مریض بچوں کو دیکھا جن کے چہرے کے بال کیمو تھراپی کی وجہ سے جَھڑ چکے تھے تو وہ گھبرا گیا اور بے تحاشہ رونے لگا لیکن انڈس ہسپتال کے عملے نے میرے بیٹے کا بہت خیال رکھا اور اُن کی گھبراہٹ اور پریشانی کافی حد تک کم کی۔‘

مہوش خالد سمجھتی ہیں کہ سارہ وزیر جیسے آرٹسٹوں کے ہسپتال آنے اور اُن کے بیٹے اور دیگر مریضوں کے ساتھ وقت گزارنے سے بچوں کو بہت ہمت ملتی ہے۔ اِس طرح یہ بچے خوش رہتے ہیں اور پوری قوت سے بیماری سے لڑتے ہیں۔

’اُن کا دل بہلا رہتا ہے اور وہ وقتی طور پر اپنی تکلیف بھول جاتے ہیں۔ جب بچہ خوش رہنے لگتا ہے تو ہم والدین بھی مطمئن ہو جاتے ہیں اور علاج آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔ محمد اب ہسپتال سے گھر منتقل ہو چکے ہیں لیکن اُن کا علاج اب بھی جاری ہے۔ میرا بیٹا اکثر ہسپتال کے وقت کو یاد کرتا ہے کیونکہ انڈس ہسپتال ایک طرح سے اُس کا دوسرا گھر بن گیا تھا۔ اُس کی سماجی پروگراموں کے لیے آنے والے آرٹسٹوں، سٹاف اور وہاں داخل بچوں سے دوستی ہو گئی تھی۔‘

مہندی، آرٹ، کینسر

زندگی کا نیا زاویہ

اُدھر سارہ وزیر کا ماننا ہے کہ کینسر کا شکار بچوں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ اُنھیں زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

’ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ صحت جیسی نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ اِن بچوں کے ساتھ وقت گزار کر اور اُن کے چہرے پر مُسکراہٹ لا کر جو اطمینان اور زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر شکر گزار ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ میں بیان نہیں کر سکتی۔‘

‘کینسر کے خلاف جنگ ایک بہت مشکل اور تکلیف دہ سفر ہے۔ ہسپتالوں میں داخل کینسر سے لڑنے والے اِن بچوں میں سے کچھ شاید زندگی کی جنگ ہار جائیں لیکن اگر میرے ذریعے اُن کی یہ تکلیف کچھ وقت کے لیے ہی سہی لیکن کم ہو سکتی ہے تو میں سمجھتی ہوں میں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments