ان دیکھے پہ ایمان


آج کل ہی کی طرح کے سردیوں کے دن تھے ‘ والد صاحب کے دفتر میں اتفاقاً جانا ہوا ‘ تمام احباب بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ عملے کے ایک بندے نے آ کر شکایت کی کہ کوئی باباجی ہیں وہ باہر ہم سے الجھ رہے ہیں اوران کے لئے صورتحال سنبھالنی مشکل ہو رہی اور درخواست کی کہ باہر آ کر حالات کا جائزہ لیں اور معاملہ ٹھیک کریں۔ باہر نکل کے دیکھا تو زندگی کی نوّے بہاریں دیکھ لینے کے بعد وہ حضرت اس خزاں کے موسم میں پریشان دکھائی دیئے۔ عمر کا نمبر آڑے آیا ورنہ بازو چڑھا لینے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

گھیر گھار کے انہیں اندر لائے ‘ اسی اثناء میں والد صاحب نے اپنے خصوصی ‘ایلچی’ کو آنکھ کا کوئی اشارہ کیا اور تھوڑی ہی دیر میں اس نے ان بزرگوار کے لئے بہترین ٹرے میں سارا سازوساماں مہیا کر دیا۔ اللہ جانے وہ بابا جی کب سے اس جیسے پروٹوکول کے متمنی تھے ‘ اور شاید چائے کو الگ الگ پیش کرنا یا کپ کے نیچے چائے سڑکنے والی ‘پرچ’ ان کوبھا گئی کہ ان کا غصہ بالکل صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور پھر نہایت شانت لب و لہجے میں جو گفتگو شروع ہوئی تو شام ڈھلنے تک جاری رہی۔

یہ پہلی ملاقات تھی اپنے ڈیپارٹمنٹ کے واحد دستیاب پی ایچ ڈی ڈاکٹر سے۔ اس ملاقات کا اثر ڈاکٹر صاحب کی آخری سانس تک قائم رہا۔ وہ اکثر و بیشتر میرے والد کے پاس پائے جاتے۔ ان کے بچوں اور ملازموں تک کو پتا چل گیا کہ جب بابا جی کا مزاج بگڑ جائے تو انہیں کہاں لے جانا ہے۔

ایسی ہی کسی محفل میں ڈاکٹر صاحب نے رازداری سے گوش گزار کیا کہ ان کے لئے دعا کی جائے کہ بس تھوڑے سے پیسے کہیں سے اور آ جائیں تو ان کا بینک بیلنس نویں ہندسے کو پہنچ جائے گا۔ والد صاحب نے ان کو مشورہ دیا کہ یہ تو اچھی بات ہے’ آپ کوشش کر کے اللہ کی راہ میں بھی ضرور خرچ کریں کیونکہ اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور آخرت میں بڑے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ان بابا جی کا جواب میرے لئے بہت ہی حیرت کا باعث ہوا جب وہ اپنے مخصوص بیمارانہ انداز میں کہنے لگے کہ ‘ آج تک کسی نے واپس آ کے اس کے بارے تو بتایا نہیں ‘۔

ان کے جواب سے قطع نظر اس بات کی تاب بعد میں سمجھ آئی کہ ہمارا زیادہ تر عمل تو غیب پہ ایمان ہی پہ منحصر ہے۔ دوسروں کی مدد کا کہا گیا اور اس کے بدلے آپ اور آپ کی آنے والوں نسلوں کے ساتھ مدد کے وعدے کے ثمرات کی بشارت بعد میں دی گئی۔ پہلے ایک کے خرچ کی ترغیب دی گئی اوربدلے میں ان دیکھے کئی گنا کی خوشخبری بعد کے لئے رکھی گئی۔ شب و روز محنت کر کے بیج بونے کی شرط پہلے رکھی گئی اور ایک بیج میں کئی کئی خوشے اور ایک خوشے میں کئی کئی دانوں کی نوید بعد میں دکھائی گئی۔ کسی کے لئے حصہ پہلے چھڑوایا اور حق کی بشارت کسی اور دن کے لئے اٹھا رکھی۔

صدقِ دل سے نیّت ‘ بہترین عمل ‘ صبر کے ساتھ کی جانے والی محنت اور تقسیم بانٹنے کی عادت ہی کامیابی کی منزل کے سنگِ میل ہیں۔ اچھا صلہ ‘ محنت کا ثمر’ صبر کا پھل اور رب کے وعدے کی نوید جیسی خوشی بعد ہی میں ملے گی۔ یعنی ایک ان دیکھے خوشگوار مستقبل کے لئے آج محنت کرنا شرط ہے۔ یہ غیبی ‘چاکا’ رکھا ہی اسی لئے گیا ہے کہ محنت سے جی چرانے والے اس میں داخل ہی نہ ہوں۔

ان دیکھے کے لئے محنت و مشقت ‘ مشکل امر ہے۔ انجام کی پرواہ کئے بغیر ہی جتے رہنا جان جوکھم کا کام ہے۔ محنتِ شاقہ پہ قائم رہنے اور خود کی حوصلہ افزائی کے لئے دانائے راز کا بیان کردہ یہ مقولہ ممدومعاون ثابت ہو گا کہ بہت سا ان دیکھا ہمارے ایمان کا حصّہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments