اردو شاعری میں بھینس کا انڈا


صاحبِ مطالعہ ہونے کا دعویٰ تو درکنار تہمت بھی مجھے گوارا نہیں۔ بلکہ اس بات سے چڑ ہوتی ہے کہ کوئی محض کتابی کیڑا ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد پر کسی کے درست یا نادرست ہونے کا فیصلہ صادر کرے۔ پڑھے لکھے لوگوں میں یہ عیب بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ مذہبی علما ہر بات کے جواب میں عربی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں اور نئے زمانے کے تعلیم یافتہ انگریزی۔ اکثر ہوا ہے کہ کسی سوال کے جواب میں صاحب نے پوچھا، فلاں کو پڑھا ہے؟ عرض کیا، نہیں۔ فرمایا، تو پڑھو نا۔ مطالعے کے حق میں اس سے زیادہ افسوس ناک بات کیا ہو سکتی ہے کہ پڑھنے والے لاجواب ہو کر پڑھنے کا مشورہ دیں!

یہ تمہید اس لیے ضروری معلوم ہوئی کہ ہمارے ہاں حوالے کی روایت ضرورت سے زیادہ عام ہو گئی ہے۔ لوگ معمولی معمولی باتوں پر حوالے طلب کرتے ہیں یا خود طومار باندھ دیتے ہیں۔ جبکہ معاملہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کی اکثر صداقتوں کے فہم کے لیے انسان کی عقل اور خلوص کافی ہیں۔ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ بڑے بڑے ناموں کی تسبیحیں آپ کو ان کا پجاری تو بنا سکتی ہیں، حق کا پرستار نہیں بنا سکتیں۔ اس مضمون میں غالبؔ کی اردو شاعری کا جائزہ لینے کا قصد ہے۔ دکھ یہ ہے کہ بڑے بڑے حوالے میرے مدعا کے خلاف ہیں۔ مگر سکھ یہ ہے کہ عقلِ سلیم اور جذبۂ علم ان معروضات کی تائید کریں گے۔ انشاء اللہ!

میں نے بچپن سے نکل کر جو پہلی باقاعدہ ادبی کتاب خریدی وہ دیوانِ غالبؔ تھی۔ ایک مدت اسے اردو ادب کا ایک الہامی صحیفہ سمجھ کر پڑھا کیا یہاں تک کہ تقریباً ساری حفظ ہو گئی۔ پندرہ بیس برس کا عرصہ گزرا۔ مطالعہ بڑھا۔ ذہن کو قدرے پختگی حاصل ہوئی تو احساس ہوا کہ جسے اردو شاعری کی معراج سمجھتا رہا اس میں اردو اور شاعری دونوں کہیں کہیں کے سوا موجود نہیں۔

لطیفہ یہ ہے کہ اردو کا سب سے بڑا شاعر ہونے کا دعویٰ میرے علم کے مطابق غالبؔ نے کبھی نہیں کیا۔ وہ گمراہ ضرور تھے مگر اتنے نہیں۔ جن لوگوں نے یہ خلعت بعد میں ان پر منڈھ دی وہ البتہ کور ذوقی اور کوتاہ نظری کی اس معراج پر تھے جہاں سے بھینس کا انڈا بھی نہ صرف نظر آتا ہے بلکہ گنبدِ افلاک نظر آتا ہے۔ یعنی انھوں نے یہ غور نہیں کیا اور آج تک نہیں کیا کہ جس شاعر کا کلام بغیر شرح کے عوام کی سمجھ ہی میں نہ آئے وہ بڑا شاعر تو درکنار شاعر بھی کیونکر کہلا سکتا ہے؟ اگر نکتہ آفرینی اور دقتِ خیال ایسا ہی مطلق پیمانہ ہیں تو مثال کے طور پر ہیگل کے فلسفے کی اردو تفسیر لکھ کر انھیں بھی اردو کا سب سے بڑا ادیب قرار دیا جا سکتا ہے۔ اردو بولنے والوں کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آتے، وہ بھی نہیں آتے۔ رعب ان کا بھی پڑتا ہے، ان کا بھی پڑتا ہے۔

تاریخِ ادب میں شاید ہی کوئی ایسا ادیب ادیبِ اعظم قرار دیا گیا ہو جو اپنے مخاطبین کی سمجھ سے باہر ہو۔ ادب فہم لوگ عموماً ایسے کوڑھ مغز نہیں ہوتے۔ ہمارا مسئلہ البتہ یہ ہے کہ غلام ابنِ غلام چلے آتے ہیں۔ بجنوری جیسے لوگوں نے سعدیؔ و حافظؔ اور میرؔ و سوداؔ کی روایت سے منہ موڑ کر اپنی انگریزی تعلیم کے تحت غالبؔ کو ان کی متفلسفانہ نکتہ سنجیوں کی روشنی میں دیکھا اور ان کی عظمت کے ڈنکے پیٹ دیے۔ جن لوگوں تک بجنوری کی آواز پہنچی وہ بھی خیر سے انگریزی عہد کے تعلیم یافتہ تھے۔ مشرقی روایت کو سمجھنے والے لوگ یا کم رہ گئے تھے یا یگانہؔ کی طرح لائقِ اعتنا نہ سمجھے گئے۔ ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ آج میرزا اسد اللہ خاں غالبؔ ہمارے سب سے بڑے شاعر ہیں اگرچہ سمجھ میں بڑے بڑوں کی نہیں آتے۔ بجنوری نے غالبؔ کے کلام کو اس معیار پر جانچا جو سرے سے ہماری شاعری کا معیار ہی نہ تھا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کند چھری کا قصیدہ صرف اس لیے لکھ دیا جائے کہ اس سے انسانیت کو زک پہنچنے کا اندیشہ نہایت کم ہے۔

پنجابیوں کو دیکھیے۔ کیا وہ بلھے شاہ، سلطان باہو، وارث شاہ، میاں محمد بخش کے کلام کو شرحیں پڑھ کر سمجھتے ہیں؟ خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا کی شاعری پختونوں کو کون سے شارحین سمجھاتے ہیں؟ سندھیوں کو سچل سرمست اور عبدالطیف بھٹائی کون پڑھاتا ہے؟ ایرانی سعدیؔ، حافظؔ، رومیؔ، عطارؔ وغیرہ کو سمجھنے کے لیے کون سی کتابیں پڑھتے ہیں؟ عربوں میں امرؤ القیس، ابو نواس اور متنبی وغیرہ کے کلام کی کتنی شروح تصنیف کی گئی ہیں؟ انگریزی میں شیکسپئیر، ملٹن، کیٹس اور ورڈزورتھ کی شاعری پڑھنے کے لیے ادب کے شوقین کن مفسرین سے رجوع کرتے ہیں؟ خود اردو میں کیا غالبؔ کے سوا کوئی ہے جس کے کلام سے لطف اٹھانے کے لیے شروح و تفاسیر دیکھنی پڑیں؟

یعنی حد ہے۔ دنیائے ادب میں ایک یہی حضرت ہیں جن کی عظمت سراسر اس بات پر منحصر ہے کہ جو بات یہ کر رہے ہیں وہ کوئی سمجھ نہ جائے۔ اگر شاعری اسے کہتے ہیں تو باقی سب جھک مارتے رہے ہیں اور مار رہے ہیں۔ اگر اسے نہیں کہتے تو یقیناً غالبؔ جھکی تھے۔ اور پرلے درجے کے!

لوگ پاکستان کے قومی ترانے پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اردو زبان میں نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اردو کے ایک اوسط قاری کے لیے ممکن نہیں کہ وہ قومی ترانہ کا مفہوم نہ سمجھ سکے۔ مگر کیا ستم ظریفی ہے کہ غالبؔ کو لوگ اردو شاعر کہتے ہیں جبکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے زور مار کر بھی ان کا کلام نہیں سمجھ سکتے۔ یعنی غالبؔ کی فارسی بھی اردو ہے اور حفیظؔ جالندھری کی اردو بھی فارسی ہے۔ دھت تیرے کی!

تاہم حقیقت یہ ہے کہ مرزائے موصوف نے اپنے اردو دیوان میں جو زبان استعمال کی ہے وہ فارسی بھی نہیں۔ یہ زبان بولنے والا مائی کا لال ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ اسپرانتو بولنے والے لاکھوں مل جائیں گے مگر دیوانِ غالبؔ کی زبان بولنے والا ایک بھی نہ ملے گا۔ نہ ہندوستان میں نہ ایران میں نہ کہیں اور۔ اور تو اور غالبؔ خود بھی اس زبان میں گفتگو کرتے تو سچ مچ گلی کے لونڈوں سے پتھر کھاتے۔ میرؔ سے رودکیؔ تک اور فرزدق سے باہو تک لوگ اس زبان میں شعر کہتے آئے ہیں جس میں وہ کلام کرتے تھے۔ غالبؔ نے اس زبان میں دادِ سخن دی ہے جو جنات بھی نہیں بولتے!

غالبؔ کے شاگردِ رشید مولانا الطاف حسین حالیؔ یادگارِ غالبؔ میں رقم طراز ہیں:

“ایک دفعہ مولوی عبدالقادر رام پوری نے جو نہایت ظریف الطبع تھے اور جن کو چند روز قلعۂِ ِ دہلی سے تعلق رہا تھا، مرزا سے کسی موقع پر کہا کہ آپ کا ایک اردو شعر سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اسی وقت دو مصرعے خود موزوں کر کے مرزا کے سامنے پڑھے۔

پہلے تو روغنِ گل بھینس کے انڈے سے نکال
پھر دوا جتنی ہے کل بھینس کے انڈے سے نکال

مرزا سن کر سخت حیران ہوئے اور کہا حاشا یہ میرا شعر نہیں۔ مولوی عبدالقادر نے از راہ مزاح کہا میں نے خود آپ کے دیوان میں دیکھا ہے اور دیوان ہو تو میں اب دکھا سکتا ہوں۔ آخر مرزا کو معلوم ہوا کہ مجھ پر اس پیرائے میں اعتراض کرتے ہیں اور گویا یہ جتاتے ہیں کہ تمھارے دیوان میں اس قسم کے اشعار ہوتے ہیں۔”

آزادؔ آبِ حیات میں لکھتے ہیں:

“اہلِ ظرافت بھی اپنی نوک جھوک سے چوکتے نہ تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ مرزا بھی مشاعرے میں تشریف لے گئے۔ حکیم آغا جان عیشؔ ایک خوش طبع، شگفتہ مزاج شخص تھے۔ غزلِ طرحی میں یہ قطعہ پڑھا:

اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے

کلامِ میرؔ سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

اسی واسطے اخیر عمر میں نازک خیالی کے طریقے کو بالکل ترک کر دیا تھا۔ چنانچہ دیکھو اخیر کی غزلیں صاف صاف ہیں۔دونوں کی کیفیت جو کچھ ہے معلوم ہو جائے گی۔”

میرزا یگانہؔ اپنی قاہرانہ تصنیف غالبؔ شکن میں فرماتے ہیں:

“غالبؔ زیادہ سے زیادہ ہندوستان کا اک بلند خیال دقت پسند گمراہ شاعر ہے جو آخرِ عمر میں راہ پر آیا۔”

اب یہ بزرگ غالبؔ کی زبان اور فکر پر جو اعتراضات کر رہے تھے کچھ ایسے بےجا نہ تھے۔ مانا کہ غالبؔ کے ہاں بڑی نازک خیالی اور معنیٰ آفرینی پائی جاتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ شاعری میں اس کی ضرورت کس قدر ہے؟ باغ میں اگر چار پانچ توپیں نصب کر دی جائیں تو مالی کو ان سے باندھ کر سلامی تو دی جا سکتی ہے، داد نہیں دی جا سکتی۔ اکثر لوگ جو غالبؔ کے اردو کلام کو بڑی شاعری سمجھتے ہیں وہ ایک ایسی ہی بنیاد پر سمجھتے ہیں جو فی الاصل شاعروں سے تعلق نہیں رکھتی۔ یعنی فلسفیانہ معارف و نکات۔

میں اکثر مضامین میں کہہ چکا ہوں کہ شاعر اور ادیب کا ہنر ان کی زبان ہے، دماغ نہیں۔ دماغ سے کام لینا اور نت نئے خیالات ابداع کرنا بنیادی طور پر فلسفیوں، سائنس دانوں اور دانش وروں کا وظیفہ ہے۔ ادیب نئے نئے خیالات کی بجائے عام اور آفاقی خیالات کو چننے اور انھیں بہترین انداز میں بیان کرنے کا ذمہ دار ہے۔ یعنی فلسفی کی خوبی یہ ہے کہ وہ بات سوچے جس تک عام آدمی کا ذہن نہ پہنچ سکے۔ ادیب کی خوبی یہ ہے کہ بات کو یوں بیان کرے کہ عام آدمی بیان نہ کر سکے۔ خطیب یہی کام بول کر کرتا ہے اور ادیب لکھ کر۔ شاعر وزن اور قافیہ کے التزام کا بھی پابند ہے اس لیے اس کا کام دشوار تر ہے۔

اس پیمانے پر دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ میاں محمد بخش اتنا عرصہ گزرنے پر بھی اہلِ پنجاب کے دل پر کیوں چھائے ہوئے ہیں۔ ایرانی حافظؔ کے گن کیوں گاتے ہیں؟ بھٹائی اور سرمست کے سر کیوں کبھی مدھم نہیں ہوتے؟ میرؔ اور داغؔ کیوں آج تک شعرائے اردو کے سرتاج ہیں؟ یہ سب ادیب تھے۔ انھوں نے فلسفے میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہیں کی۔ فلسفیوں کے نتائج فکر سے استفادہ بھی کیا تو یوں کہ عام آدمی اور فلسفی کے درمیان پل بن گئے۔ عام آدمی کے لیے جو بات سمجھنی دشوار تھی اور فلسفی کے لیے کہنی، وہ بات کہہ کر، سمجھا کر اور محسوس کروا کر دکھائی۔

سقراط سے قول منسوب ہے کہ میں یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ اس نکتے پر کتنی ہی علمی بحثیں ہو سکتی ہیں اور ہوئی ہیں اور ہوں گی۔ مگر دیکھیے میرؔ کیا فرماتے ہیں:

یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے
سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم

میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ انسانی علم کے ناقص ہونے کا یہ اظہار آپ کو فلسفیانہ کتب میں نہیں مل سکتا۔ پہلے مصرع کی ہائے وہ ہے جو ایک شاعر کی زبان ہی سے نکل سکتی ہے۔ پھر جو ماتم دوسرے مصرع میں ہے کہ یہ جانتے جانتے بھی عمر گنوا بیٹھے اس کا متحمل ایک فلسفی کا دل ہو تو ہو دماغ نہیں ہو سکتا۔ مقالوں پر مقالے پڑھ جائیے اور پھر آ کر یہ شعر پڑھیے۔ دل کا ترازو تول کر دکھائے گا کہ فکری کاوش و کاہش کے دفتر کے دفتر ایک پلڑے میں رکھ دیے جائں اور یہ شعر ایک پلڑے میں تو برابر ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ فلسفیانہ معارف بےکار ہیں بلکہ اس لیے کہ فلاسفہ انھیں اس طرح بیان نہیں کر سکتے۔ اچھا شاعر ہے ہی وہ جو نازک ترین خیالات کو ایسی زبان میں بیان کرنے پر قادر ہو کہ عام ناظرین بھی نہ صرف سمجھ پائیں بلکہ محسوس بھی کرنے لگیں۔ فلسفی اپنے افکار سمجھانے کی کوشش ضرور کرتا ہے مگر ہر آدمی کو نہیں۔ پھر خیال میں احساس کا تڑکا لگا کر اور محاورے کا ذائقہ شامل کر کے لذت اور سرور کا ایک لافانی دسترخوان مہیا کر دینا تو وہ کمال ہے جو اس غریب کے دائرۂ کار سے بالکل ہی خارج ہے۔

غالبؔ کا مسئلہ اپنے زیادہ تر اردو کلام کی روشنی میں دوگونہ ہے۔ وہ فلسفی بھی نہیں اور شاعر بھی نہیں۔ اس کا حل غالبؔ پرستوں نے یہ نکالا ہے کہ انھیں شاعر اور فلسفی دونوں قرار دے دیا ہے۔ جہاں فلسفے سے دال نہیں گلتی وہاں شاعرانہ تخیل کی دھونی دیتے ہیں اور جہاں شاعری کی مٹی پلید ہو وہاں فلسفے کی چوٹی (یا چوٹی کے فلسفے) پہ چڑھ جاتے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ شاعر اگر فلسفے کا بیان کرے بھی تو اسے فلسفی کے بیان کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔ شاعر ہونے کا اولین تقاضا ہے کہ اس کا پیرایۂ اظہار فلسفی کے بیان سے زیادہ فصیح، بلیغ اور دل کش ہو۔ اسی کی طرح بیان کرنا ہے تو شاعر کہلانا چہ ضرور؟ ارسطو نے غالباً بوطیقا میں بھی لکھا ہے کہ فلسفہ نظم کر دینے سے شاعری نہیں ہو جاتا۔ پھر دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ غالبؔ تکنیکی معانی میں فلسفی بھی نہیں۔ یعنی باقاعدہ تعلیل و توجیہ اور منطقی استدلال کا کوئی نظام ان کے ہاں نہیں پایا جاتا۔

بات یہ ہے، صاحبو، کہ غالبؔ کے کئی رنگوں میں سے دو بڑے رنگ ہیں۔ ایک وہ جو پرستارانِ غالبؔ کو محبوب ہے۔ ہم اسے شاعری نہیں سمجھتے اور ہمارا خیال ہے کہ غالبؔ کے معاصرین اس پر تنقید کرنے میں حق بجانب تھے۔ دوسرا رنگ وہ ہے جس میں غالبؔ نے شرافت سے شاعروں کی جیسی شاعری کی ہے اور ان سے بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس قسم کے کلام پر ان کے ہم عصروں کے منہ بھی بند ہو گئے تھے تو ہم کون ہیں کہ انگشت نمائی کریں؟

ذرا دونوں رنگ دیکھیے:

شمارِ سبحہ مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف بردنِ صد دل پسند آیا

یہ وہ کلام ہے جس پر ادب کے سنجیدہ قارئیں تنقید نہ بھی کریں تو توبہ ضرور کرتے ہیں۔

اب یہ دیکھیے:

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

یہ شعر ہے۔ سچا اور کھرا شعر۔ لگتا ہی نہیں کہ ڈیڑھ دو سو برس پرانے آدمی کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہے۔ آج بھی معنیٰ رکھتی ہے۔ دل کو چھوتی ہے۔ مزہ دیتی ہے۔ وجد میں لے آتی ہے۔ ہم اس غالبؔ کو شاعر سمجھتے ہیں۔

عبدالرحمٰن بجنوری نے دیوان کو الہامی کہا تو شاید ان کے ذہن میں یہ خیال بھی ہو گا کہ الہامی کلام مشکل ہوتا ہے۔ اس کی تفسیرات و تعبیرات ہوتی ہیں۔ غالبؔ ایسے ہی ہیں۔ سو عظیم ہیں۔ جبکہ معاملہ یہ ہے کہ ہر الہامی کلام اپنے زمانے کی فصیح ترین زبان میں تھا اور گنوار بھی اس کا مطلب سمجھتے تھے۔ پھر یہی نہیں کہ ہر کس و ناکس کی سمجھ میں آتا تھا بلکہ بلاغت کا یہ عالم تھا کہ زبان اور حکمت کے عارف دونا مزہ لیتے تھے۔ یعنی ایک ہی کلام میں ہر سطح اور درجے کے آدمی کے لیے معانی موجود تھے۔ مگر پھر ہر الہامی کتاب کے وہ شارحین اور مفسرین پیدا ہوئے جنھوں نے خدا کی بات سمجھانے کے پردے میں اپنی یا اپنے آقاؤں کی زبان بولی۔ یہ سانحہ ہر مذہب کے ساتھ ہوا اور آج بھی الہامی کتب اور ان کی غیر الہامی تفاسیر کے پیغام میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ علمائے مذہب عوام کو اصل الہامی متون سے دور رکھنا چاہتے ہیں اور ڈرا دھمکا کر باور کرواتے رہتے ہیں کہ خدا نے انھیں جو پیغام بھیجا ہے وہ ان کی سمجھ میں آنے کا نہیں۔ یعنی خدا نہ ہوا مرزا غالبؔ ہو گیا کہ کہتا تو ہے مگر نہ جانے کیا کہتا ہے۔ نعوذ باللہ، معاذ اللہ۔

جس طرح پنڈت، پادری اور ملا وغیرہ خدا اور اس کے بندے کے درمیان خواہ مخواہ کے دلال بن کر آ گئے ہیں اسی طرح ادب میں بھی ادیب اور قاری کے بیچ حائل ہو کر ناقدین نے اپنے خوانچے سجا رکھے ہیں۔ اب یہ وہ لوگ ہیں جو نہ ادیب ہیں نہ قاری۔ ادیب اصل میں قاری کو مخاطب کرتا ہے اور قاری در حقیقت ادیب کی سننا چاہتا ہے۔ مگر یہ صاحبان پھپھے کٹنی ہیں۔ ادیب کو بتاتے ہیں کہ تم قاری کو نہیں سمجھا سکتے۔ ہم سمجھاتے ہیں۔ اور قاری کے کان میں پھونکتے ہیں کہ ادب فہمی تمھارے بس کی بات نہیں۔ ہم سے پوچھو۔ مگر جیسا ہم  نے پہلے عرض کیا ہے کہ بلھے شاہ ہوں یا ہومر، امرؤ القیس ہوں یا میرؔ، عوام تک کسی شارح یا ناقد کے سہارے نہیں پہنچے۔ وہ جانتے تھے کہ سمجھانا ان کا اپنا کام ہے۔ زبان ان کو ہتھیار کے طور پر دی گئی ہے کہ اس سے دلوں کا شکار کریں۔ قاری جانتا تھا اور آج بھی جانتا ہے کہ بوجھنے کے لیے پہیلیاں ہوتی ہیں، سمجھنے کے لیے فلسفے ہوتے ہیں، شعر تو لطف اٹھانے کے لیے ہوتا ہے۔

مذہبی اشرافیہ کی طرز پر قائم ہونے والی تنقیدی اشرافیہ ہی کی عطا ہے کہ غالبؔ کی وہ شاعری جس پر اردو ادب کے سنہری دور کے کلاسیک شعرا ہنستے تھے، الہامی شاعری کا درجہ پا گئی۔ قسمت کی خوبی دیکھیے کہ ناقدین اور شارحین کی روزی روٹی اس کلامِ مردود سے وابستہ ہوئی جس پر غالبؔ نہ صرف مسلسل مطعون ہوتے رہے بلکہ آخرِ کار تائب بھی ہو گئے۔ شعر کو شعر کی طرح کہنا سیکھا تو وہ کہا جو شرح اور شارح کا محتاج نہیں۔ سیدھا دل میں جا کر لگتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ شاعری یوں ہو تو تنقید نگار اور شرح نویس بھوکے مر جائیں۔ اصل شاعری تو وہ ہے جس پر کتابیں لکھی اور بیچی جا سکیں۔ شاعر دل کی بات کہے اور قاری سن کر وجد کرنے لگے تو ناقدین کیا ریاضی پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟

پس غالبؔ ایک فلسفی شاعر ہیں اور ان کا کلام الہامی ہے جسے سمجھے بغیر اس پر ایمان لانا ٹھیک اسی طرح ادب فہمی ہے جس طرح فرموداتِ حضرتِ ملا کو قرآن سمجھ کر اندھا دھند مان لینا عین مسلمانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments