دنیا ایک دن مانیکا لیونسکی سے معافی مانگے گی


یہ سن 1995 کی بات ہے جب مانیکا لیونسکی نے وائٹ ہاؤس میں انٹرن شپ شروع کی۔ وہ ایک پڑھی لکھی، قابل اور شاندار انسانی صلاحیتوں کی مالک لڑکی تھی۔ اس کی عمر بائیس برس تھی اور نفسیات میں اپنی ڈگری مکمل کر چکی تھی۔

وائٹ ہاؤس میں مانیکا لیونسکی کی ملاقات اس وقت کے امریکہ کے صدر بل کلنٹن سے ہوئی۔ بل کلنٹن ہر حوالے سے ایک نہایت پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ مانیکا کو بھی وہ بہت اچھے لگے۔ وائٹ ہاؤس میں سٹاف کی صورت حال کچھ ایسی بنی کہ چند ہی دنوں میں ان کی کئی مختصر ملاقاتیں دفتری وجوہات کی بنیاد پر ہو گئیں۔ بل کلنٹن ہر ملاقات میں اسے پہلے سے بھی زیادہ اچھے لگتے۔ وہ اور قریب ہوتی گئی اور ایک ملاقات میں اس نے امریکہ کے صدر کو کہہ ڈالا کہ “مجھے آپ پر کرش ہے”۔ کلنٹن کو بھی اچھا لگ رہا تھا۔ بات آگے بڑھتی گئی اور کافی آگے بڑھ گئی۔ باوجود اس کے کہ بل کلنٹن بحیثت صدر بہت مصروف تھے اور ملنے میں بہت ہی دشواریاں تھیں لیکن عشق کا جادو راستے نکال لیتا ہے۔ دونوں جانب شدت اتنی تھی کہ دو سال کے عرصے میں کوئی دس ملاقاتیں ہو گئیں۔ ٹیلی فون پر گفتگو ان ملاقاتوں کے علاوہ تھی۔ تحفے تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ غرضیکہ وہ سب ہوا جو دو بالغ لوگوں کے درمیان قدرتی طور پر پیدا ہونے والے تقریبا ہر “لوو افیئر” میں ہوتا ہے۔

مانیکا اور کلنٹن دونوں نے ہی اس تعلق کو بہت انجوئے کیا، باوجود ساری مصروفیت اور پکڑے جانے کے خوف کے۔ مانیکا نے خاص طور پر بہت انجوئے کیا کیونکہ وہ نوجوان تھی اور اس کی مصروفیت اور ذمہ داری صدر کلنٹن جیسی نہ تھی۔ حالات بتاتے ہیں کہ کشش کی شدت کلنٹن کی جانب بھی بہت تھی۔

وائٹ ہاؤس کے اندر کلنٹن کے ارد گرد کچھ لوگوں کو شاید اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ مانیکا صدر کے دفتر کی جانب جانے کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ وائیٹ ہاؤس کا سٹاف کلنٹن کی کمزوری سے بھی واقف تھا اور وہ کوئی ٹربل نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے وائٹ ہاؤس کے ذمہ دار سٹاف نے مانیکا کی ٹرانسفر پینٹاگون آفس میں کر دی۔ امریکی صدر کو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے اس لیے بل کلنٹن صدر ہوتے ہوئے بھی اپنے سٹاف کے معاملات میں دخل نہ دے سکے۔ ان کے پاس ایک انٹرن کی ادھر ادھر بدلی کا نوٹس لینا یا اس کا ذکر کرنا مناسب نہ تھا۔ مانیکا کو وائٹ ہاؤس چھوڑ کر پینٹاگون جوائن کرنا پڑا۔

مانیکا بہت پریشان رہی۔ صدر صاحب سے ملاقات ملاقات ممکن نہ تھی۔ فون پر بات کرنا بھی تبھی ممکن ہوتا جب صدر کلنٹن خود فون کرتے کیونکہ مانیکا کے لیے تو صدر کو ڈائریکٹ کال کرنا ممکن نہ تھا۔ مانیکا کلنٹن کو بہت مس کرتی تھی اور فون کا انتظار کرنے کے علاوہ کوئی حل بھی نہیں تھا۔

پینٹاگون میں مانیکا کی ملاقات ایک خاتون سٹاف لنڈا ٹرپ سے ہوئی۔ لنڈا ٹرپ مانیکا کو کہتی کہ تم ایک ایسی لڑکی ہو جو بل کلنٹن کو بہت پسند آ سکتی ہو۔ تمہیں وائیٹ ہاؤس ہی میں ہونا چاہیے تھا۔ ایسی ہی کچھ باتوں اور اپنی مایوسی کی وجہ سے مانیکا نے ایک دن لنڈا ٹرپ پر یہ راز کھول دیا کہ اس کا تو پہلے ہی صدر کلنٹن کے ساتھ “افیئر” چل رہا ہے۔

لنڈا تو جیسے اسی بات کے انتظار میں تھی۔ اس نے باتوں باتوں میں مانیکا کا اعتماد حاصل کر لیا اور مانیکا نے اپنی باتیں اس کے ساتھ شیئر کرنا شروع کر دیں۔ لنڈا ٹرپ ایک دھوکے باز اور سیڈسٹ شخص تھی۔ اسے شاید کلنٹن سے کوئی خدا واسطے کا بیر تھا۔ اس نے مانیکا سے ٹیلی فون پر ہونے والی تقریبا بیس گھنٹے کی اپنی گفتگو کو ٹیپ کر لیا۔

یہ “سکینڈل” جب نکلا تو مانیکا پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ میڈیا، امریکی سینٹ، عوام نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ مانیکا کی ذات اور اس کی فیملی پر طرح طرح کے الزامات لگائے اور شدید گندی زبان استعمال کی گئی۔ بے انتہا “سلٹ شیمنگ” کی۔ اس کے بالغ مرد کے ساتھ ایک لوو افیئر کو ایسے ٹریٹ کیا گیا جیسے اس نے نیوکلیئر بمباری کر کے لاکھوں انسانوں کو قتل کر دیا ہو یا انسانوں کی نسل کشی کی مرتکب ہوئی ہو۔

مانیکا شدید دباؤ اور دھمکیوں کی زد میں تھی۔ اسے مقدمے کی تفتیشی ٹیم کے سامنے انتہائی ذاتی سوالوں کے جواب دینا پڑے۔ ایسے سوال جو کوئی مہذب شخص کسی سے پوچھنا ہی نہیں چاہے گا۔ تفتیش کی ساری کارروائی کا ایک ایک پل میڈیا پر نشر ہو رہا تھا۔ مانیکا اور اس کی پوری فیملی اتنے دباؤ میں تھی کہ مانیکا نے خودکشی تک کا سوچا۔ اس کی ماں کو بھی مانیکا کی ذہنی حالت کا اندازہ تھا اور بہت ڈری ہوئی تھی۔ وہ مانیکا کو کبھی اکیلا نہ چھوڑتی۔ حتی کہ شاور لیتے وقت بھی دروازہ کھلا ہوتا۔ مانیکا کو پروفیشنل ہیلپ لینا پڑی اور وہ کئی سال تک دوائیوں پر رہی۔

مانیکا اور اس کی فیملی کو یہ سزا صرف اس بات کی دی گئی کہ اس نے بائیس سال کی عمر میں ایک شادی شدہ شخص سے لوو افیئر کیا تھا۔ اس نے شادی کے کنٹریکٹ کی بے حرمتی کی تھی۔ شادی کے کنٹریکٹ کو بظاہر جتنا مقدس سمجھا جاتا ہے چوری چھپے اتنا ہی اسے بے عزت کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ صورت میں یہ کنٹریکٹ ہی انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ لکھی اور ان لکھی کچھ ایسی شرائط منسلک ہیں جو انسانوں کی ایک بھاری تعداد کی فطرت کے خلاف ہے اور ان کے لیے شدید گھٹن کا باعث ہیں۔

یہ کنٹریکٹ چیلنج ہو رہا ہے۔ خاص طور اس کے جڑی ان لکھی شرائط دنیا کے کچھ کونوں میں بہتر ہو رہی ہیں۔ اس کو انسانی فطرت کے قریب تر بنایا جا رہا ہے۔ ایک آئیڈیل صورت میں آنے کو اسے کچھ وقت لگے گا۔ اور جب وہ وقت آئے گا تو دنیا مانیکا سے بھی ایسے ہی معافی مانگے گی جیسے وائیٹ آسٹریلین نے ابروجنیز سے، گورے امریکیوں نے مقامی لوگوں سے اور رومن کیتھولک چرچ نے گلیلیو سے مانگی تھی۔

ٹیل پیس: شادی کنٹریکٹ میں لکھی اور ان لکھی شرائط میں آسانی پیدا کرنے سے مراد اس کنٹریکٹ کو انسانی فطرت سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ انسانی تاریخ کا وہ سنہرا دور، جب انسان جسمانی، معاشی، جذباتی یا کسی بھی حوالے سے کسی دوسرے انسان کی ملکیت نہیں ہوتا تھا، کو دوبارہ رائج کرنا ہے۔ خوب صورت بات یہ ہے کہ یہ ایک دن ہونا ہے۔ اس دعوے کے پیچھے یہ حقیقت ہے کہ شخصی آزادیوں کی جانب انسان کا سفر جاری ہے۔ ہر اگلی صدی پہلے سے بہتر ہوتی ہے۔ انسانی تہذیب غلامی اور انسانوں کی خریدو فروخت جیسے بدترین تجربے سے گزر کر اب واپسی کے سفر پر ہے اور شخصی آزادی کی کھوئی ہوئی سپیس واپس کلیم ہو رہی ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments