زہریلی مردانگی اور عورت کا یک طرفہ سمجھوتہ


 چند دن قبل ہم ٹی و ی کا معروف ڈراما سیریل “ہم کہاں کے سچے تھے” اختتام پذیر ہوا۔ ماہرہ خان، کبریٰ خان، اور عثمان مختارکی کاسٹ کے ساتھ یہ محبت کی مثلث پر مبنی کہانی تھی۔ سکرپٹ، اداکاری، اور ہدایات و پیش کش کی تعریف کے ساتھ ساتھ اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس تنقید کی وجہ شوہر کی زہریلی مردانگی اوربیوی کا غیر ضروری سمجھوتہ تھا۔ قتل کا ایک معمہ بھی کہانی کا حصہ تھا جو بعد میں خودکشی ثابت ہوا۔ کہانی کا نمایاں ترین منفی پہلو شوہر کا غیر انسانی حد تک وحشیانہ پن اور بیوی کی لاچاری و بے چارگی تھی۔ حیرت انگیز طور پر شوہر بیرونِ ملک رہ کر آنے کے باوجود ازدواجی اور انسانی تہذیب سے عاری تھا۔ اور بیوی لائق، تعلیم یافتہ، اور ہنرمند ہونے کے باوجود جذباتی طور پر شکستہ اور احمق تھی۔ وہ ایک آدمی کا زہریلا پن دیکھ لینے کے باوجوداسے مسترد اور شریکِ حیات کادرست انتخاب کرنے کی جرأت نہ کر سکی۔ کہانی کی کئی اقساط میں زہریلے شوہر کا ظلم اور جذباتی تشدد جاری رہا لیکن اختتام کو خوشگوار بنانے کے لئے شوہر کو اس کے غلط رویئے کا احساس کرتے ہوئے دکھایا گیا اور بیوی نے اسے معاف کردیا۔
بدکار، تشدد پسند، دوسری شادی کر لینے والے، عورتوں کے رسیا، اور زہریلے شوہر کی غلطیوں اور گناہوں کو معاف کردینا اور بیوی کا اس سے مفاہمت کرلینا ہماری کئی فلموں اور ڈراموں کا موضوع رہ چکا ہے۔ چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
80ء کے عشرے کی کامیاب اور سپر ہٹ فلم “بارازِ حسن” (ندیم، سلمیٰ آغا، ثمینہ پیرزادہ)
چند سال قبل آنے والی فلم “وجود” (دانش تیمور، سعیدہ امتیاز، ادیتی سنگھ)
ہم ٹی وی کا ڈراما سیریل “بند کھڑکیاں” (سارہ خان، آغا علی، انعم فیاض، آغا مصفطیٰ)
ٹی وی ون کا ڈراما سیریل “کسک رہے گی” (زینب احمد، نور حسن، عادلہ خان)
ہم ٹی وی کا ڈراما سیریل “نہ کہو تم میرے نہیں” (صبا قمر، احسن خان، جاوید شیخ، رباب ہاشم)
ہم ٹی وی کا ڈراما سیریل “آہستہ آہستہ” (ماورا حسین، ثروت گیلانی، عدنان صدیقی)
ہم ٹی وی کا ڈراما سیریل “کیسے تم سے کہوں” (صبا قمر، فرحان احمد ملہی، عدیل چوہدری)
ہم ٹی وی کا ڈراما سیریل “ڈائجسٹ رائٹر” (صبا قمر، گوہر رشید، آغا علی)
ڈراما “بن روئے” میں بے چاری ہیروئن کو اس کا ہیرو “رنڈوے بہنوئی” کی صورت میں ملتا ہے اور وہ پھر بھی اسے قبول کر لیتی ہے۔ ایسی قبولیت پہ صدقے واری!
ان تمام کہانیوں میں بیوی کو اس قدر مجبور، شوہر کی محبت میں اندھی، مفاہمت پسند، اور عزتِ نفس سے عاری دکھایا گیا کہ وہ شوہر کی بدکاری، معاشقوں، تشدد، دوسری شادی، اور زہریلے پن کے باوجود اسے معاف کردیتی ہے۔ صرف اور صرف اختتام کو خوشگوار بنانے اور میاں بیوی کو ملانے کا کارِ خیر انجام دینے کے لئے دکھایا جاتا ہے کہ بیوی، شوہر کے ہر گناہ اورظلم کو معاف کرکے دوبارہ اس کے ساتھ زندگی گزارنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ طلاق جائز ہونے کے باوجود اللہ کا ناپسندیدہ عمل ہے ناں، اس لئے۔ شوہر گھر سے باہر منہ بھی کالا کرلے، بس بیوی کے سامنے عاجزی سے معافی مانگ لے تو وہ دوبارہ اپنا آپ اس زہر کی پوٹلی کے سپرد کردے گی۔
بہت ہی کم ڈراموں اور فلموں میں عورت کوزہریلے مرد سے علیحدگی کی جرأت کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس حوالے سے ہم ٹی وی کا ثروت نذیر کا تحریر کردہ “خاص” قابلِ ذکر ہے جس میں بیوی جسمانی و جذباتی تشدد اور زبانی بے عزتی کرنے والے شوہرکے سامنے خاموش رہنے کی بجائے احتجاج کرتی ہے۔ یہ شادی طلاق پر ختم ہوتی ہے جس کے بعدوہ دوسری شادی کرلیتی ہے۔ دوسرے شوہر کی وفات کے بعد جب پہلا شوہر اسے دوبارہ اپنانے کی خواہش کرتا ہے تو وہ شائستگی سے انکار کر دیتی ہے۔ ہم ٹی وی ہی کا “انکار”بھی ایسی ہی کہانی پر مبنی تھا جس میں ہیروئن اپنی مرضی کی شادی کا انتخاب کرتی ہے حالانکہ اس کے نتیجے میں اسے ایک زہریلا وحشی قینچی کے وار کرکے شدید زخمی کر دیتا ہے۔ وہ جسمانی، نفسیاتی، اور روحانی زخم برداشت کرلیتی ہے مگر اپنے انکار پر قائم رہتی ہے۔
“ہم کہاں کے سچے تھے” پر تنقید کے جواب میں ماہرہ خان نے کہا کہ معاشرے کی لاکھوں خواتین ایسی زندگی اور مسائل کا سامنا کر رہی ہیں جو ڈرامے میں دکھائے گئے۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ لیکن اس مظلومیت، زہریلی مردانگی، اور عورت کے یک طرفہ سمجھوتوں کو ماہرہ خان کا دفاعی مؤقف درست نہیں بنا دیتا۔ خواہ معاشرے کی لاکھوں خواتین اس ظلم و تشدد اور زہریلی مردانگی کو مجبوریوں کی بنا پر خاموشی سے برداشت کررہی ہوں لیکن غلط، غلط ہی رہے گا۔ اسود (عثمان مختار) جیسے انسانی شکل کے جانور محض ایک معافی سے دوبارہ پاک و صاف ہو جاتے ہیں اور مہرین (ماہرہ خان) جیسی کمزور اور مظلوم بیویاں آخر میں اسی جانور کے شانے پر سر رکھے ہوئے نظر آتی ہیں۔ یہ گویا ایک تماشہ ہے جسے نارمل کر دیا گیا ہے۔
2000ء کے عشرے میں معروف ہدایت کار سید نور کی فلم “مجاجن” میں ایک نام نہاد سید زادہ، جو قتل کے جرم میں جیل کا ٹ چکا ہے، تھیٹر کی ایک فنکارہ سے بلا خوف و خطر عشق لڑاتا اور اس کے در پہ پڑا رہتا ہے۔ جبکہ اس کی بیوی سید خاندان کی لاج اور عزت کا زہر پیتے رہنے پر مجبور ہوتی ہے۔ خاندان کی لاج اور عزت کی پاس داری گویاصرف عورت کافرض ہے۔ مزہ تو تب آتا جب سید نور یہ لکھتے اور دکھاتے کہ بیوی بھی مظلومیت کی سیاہ چادر اتار کر کسی معمولی گلوکار کے عشق کا چولا پہن لیتی اور گلیوں میں ناچتی پھرتی۔ مگر اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ قلم کار اور کہانی نویس معاشرے کے سٹیریو ٹائپس کی مخالفت کرتا ہو اور عورت کو روایت شکن کرداروں میں پیش کرسکے۔ فلم اور ڈراما کی بنیاد چونکہ سکرپٹ ہے اس لئے کہانی نویس کے ذاتی خیالات و نظریات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور سکرین پر کہانی بھی ان ہی کی عکاسی کرتی ہے۔
افسانہ نگار اور ناول نگار خواتین کی اکثریت، عورت کو جاہل، احمق، جذباتی، اور غلط فیصلے کرنے والی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ڈائجسٹ کی کہانیوں میں مرد کے لئے ‘اُن’ اور عورت کے لئے ‘اُس’ لکھا جاتا ہے۔ یا تو ایسی کہانی نویس خواتین خود غلامانہ ذہنیت کی حامل ہوتی ہیں یا یہ یقین رکھتی ہیں کہ قارئین انہی چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اب عوام، عورت کی مظلومیت کے قصے پڑھ، سن، اور دیکھ کر تنگ آ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا نے انہیں رائے کے اظہار اور تنقید کا موقع دے دیا ہے۔ زہریلی مردانگی اور صنفی امتیازات کے خلاف اب مرد حضرات بھی بولتے ہیں۔
یہ ایک قابلِ افسوس معاشرتی تضاد ہے کہ “وجودِ زن” کو “تصویرِ کائنات میں رنگ” بھی قرار دیا جائے اور ظلم کی سیاہی بھی اس رنگ کا مقد ر ہو؛ اسود جیسے مردوں کے زہر کا بھی پتا ہو اور وہ معاشرے میں موجود بھی رہیں۔ رنگ کو تاریکی میں بدل دینے والے اس زہر کا تریاق صرف اور صرف عورت کی طاقت، درست انتخاب، اور جذباتی مضبوطی میں پنہاں ہے۔ ہماری کہانیاں تبھی بدلیں گی جب خواتین ڈراما نگاروں کی سوچ عورت کے حق میں مثبت ہو گی۔ ہمیں “ہم کہاں کے سچے تھے” جیسی کہانیوں کو مسترد کرنا ہوگا جو زہریلی مردانگی کو معاف کردینے کا پیغام دیتی ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments