شیخ مجیب کی بیٹی کی تسلی کے لیے پاکستان کی معافی


کمزور معیشت کمزور خارجہ پالیسی کی ماں ہوتی ہے اور اگر اس کے ساتھ ساتھ عاقبت نااندیشی کا بھی سفر چل رہا ہو تو پھر وہ کچھ بھی ممکن ہو جاتا ہے کہ جس سے محفوظ رہنا اتنا مشکل بھی نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکہ یورپ کے حوالے سے تو کیا بہتری کی جانب گامزن ہوتی صورتحال یہاں تک بگڑ چلی ہے کہ ہمارا عزیز دوست سعودی عرب بھی پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ چکا ہے اور ہم اب اس بات پر بھی معافی مانگ رہے ہیں بلکہ ہمیں بلا کر معافی منگوائی جا رہی ہے کہ ہمیں سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے کوئی اور نظریہ پیش کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔

ایک دستاویزی فلم بنائی گئی اس میں سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے اسباب کو بیان کیا گیا۔ شیخ مجیب کے حوالے سے یہ تصور پیش کیا گیا کہ ان کا وہ موقف مشرقی پاکستان میں رہتے ہوئے وہ نہیں تھا جو انہوں نے بنگلہ دیش میں بیان کیا۔ یہ ایک تاریخی بحث ہے اس دستاویزی فلم کو ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا اور پھر نہ صرف اس کو ہٹا دیا گیا بلکہ اس کو پوسٹ کرنے پر معافی مانگی گئی یعنی کہ ہم پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کی سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے بھی اگر شیخ مجیب کی بیٹی کے پڑھائے گئے سبق سے ہٹ کر کسی معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ایسا ممکن نہیں بلکہ ہمیں اس پر معافی مانگنی پڑے گی تاکہ شیخ مجیب کی بیٹی کی تسلی ہو سکے اس سے زیادہ خطے میں اور کیا کمزوری ہوگی؟

بات صرف یہاں تک تھمی نہیں بلکہ کمزوری کا ایک دوسرا پہلو بھی سامنے آیا۔ افغان طالبان کے برسراقتدار آنے سے یہ امید دلائی گئی تھی کہ اب اس طرف سے خطرات ختم اور ہمارے زخم مندمل ہو جائیں گے۔ خیال رہے کہ افغانستان سے شروع دن سے پاکستان کو پاکستانی امور میں مداخلت اور ڈیورنڈ لائن کی طرف سے شرارت کا سامنا رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی نے جب اپنے خونی پنجے بھی گاڑ لئے تو نسلی بنیاد پر مشتعل کرنے کے ساتھ یہ ہتھکنڈہ بھی وہاں سے استعمال ہونے لگا۔

جب حال ہی میں افغان طالبان برسراقتدار آئے تو اس بات پر پاکستان میں بہت اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ روز روز کے کابل کی طرف سے معاندانہ بیانات اور اقدامات سے اب جان چھوٹ جائے گی۔ پاکستان افغان طالبان کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتا ہے اور پاکستانی پالیسی سازوں نے یقینی طور پر اس پر اسٹڈی کر رکھی ہو گی کہ پاکستان کو کابل کی طرف سے کیا مسائل درپیش ہیں؟ اور ان مسائل کے حوالے سے ان کی افغان طالبان کے ساتھ کوئی ذہنی ہم آہنگی بھی موجود ہوگی تا کہ جب افغان طالبان افغانستان کا نظم و نسق سنبھالے تو وہ اپنے ہمسائے سے دوری کے تاثر کی بجائے برادرانہ تاثرات کو قائم کر سکیں۔

جب چائے کی پیالی پیتے ہوئے تصویر نشر کی گئی تو اس تاثر کو مزید مضبوط کیا گیا۔ مگر اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ چائے کی پیالی بس چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی ہی حد تک تھی اس کے علاوہ حقیقی مسائل جوں کے توں کھڑے ہیں۔ اس بات کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ڈیورنڈ لائن پر جو باڑ پاکستان لگا رہا ہے اس باڑ کو نقصان کابل کی حمایت کے بغیر پہنچایا گیا ہے۔ پھر کابل کی طرف سے اس کے ردعمل میں ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے جو موقف اپنایا گیا ہے وہ ہمارے خیال کی مزید تصدیق کرنے کے لیے کافی ہے۔

اس باڑ کو لگانے کی وجہ بالکل واضح ہے کہ ہمیں سرحد پار سے مستقل طور پر دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہماری شہری آبادی سے لے کر فوجی جوان تک جام شہادت نوش کر رہے ہیں لیکن ہماری ضروریات کو کابل ابھی بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور نا صرف کے آمادہ نہیں ہے بلکہ اس میں اس نے عملی طور پر روڑے اٹکانا بھی شروع کر دیے ہیں تاکہ وہ ڈیورنڈ لائن کی مسلمہ حیثیت کو اپنے خیال میں متنازع بنا سکے اور باڑ لگانے کے منصوبے کو مسائل کا شکار کر کے سرحد پار سے در اندازی کے خطرات کو جو پاکستان ختم یا کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ان کوششوں کو نقصان پہنچایا جا سکے۔

اس ساری صورتحال پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہاں پر حکومت تبدیل نہیں ہوئی بلکہ اس حوالے سے ایک پالیسی کا تسلسل ہے۔ جب ایسا ہے تو اس صورت میں پاکستان نے اس صورتحال کے تبدیل ہونے سے کیا حاصل کیا؟ ابھی یہ ابتدا ہے اس معاملے کو ابتدا میں ہی مناسب طریقے سے ہی ہینڈل کر لینا چاہیے تاکہ یہ دوبارہ سے عفریت نہ بن سکے اور یہ تبدیلی بھی گلے نہ پڑ جائے۔ ان مثالوں سے یہ مکمل طور پر واضح ہو رہا ہے کہ اس وقت خارجہ پالیسی میں ہم کس حد تک کمزوری کا شکار ہوچکے ہیں کہ ہمیں یہ دونوں ممالک بھی ایک لمحے میں آنکھیں دکھانے پر اتر آتے ہیں کہ جن دونوں ممالک کے حوالے سے کچھ عرصے قبل تک یہ خیال ایک حقیقت تھا کہ ہمیں کم از کم ان سے معافی مانگنے یا ان کے سامنے گڑگڑانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

اسی کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کی پالیسی ایسی جاری کی گئی ہے کہ جس میں نا تو کوئی پالیسی موجود ہے اور نا ہی سلامتی کا کوئی بیانیہ ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہمارا ایک موقف موجود تھا ڈیورنڈ لائن پر ایک سکون کی امید تو تھی مگر افسوس کہ صرف ایک فرد کی دشمنی میں، اس کو گرانے کے جنون نے ہمیں کس حد تک مسائل کا شکار کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments