برف زار جن کا مد فن بن گیا


ملکۂ کہسار مری پر مرگ طاری ہے، سیاح جو مری کی سیاحت کے لیے گئے تھے موت کے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے ہیں۔ مری کا برف زار دکھ درد کا سنسار بن چکا ہے۔ معصوم بچے، جوان، ادھیڑ عمر خواتین و مردوں کی آنکھیں حکومت اور ریاستی اداروں کی راہ تکتے تکتے پتھرا چکی ہیں مگر تبدیلی سرکار اڑتالیس گھنٹے میں ایک لاکھ سے زائد گاڑیوں کے داخلے کو عوامی خوشحالی کا جواز قرار دے رہی ہے۔ وزیر داخلہ مری میں داخل ہونے والے سیاحوں کو اس مرگ انبوہ کا ذمہ دار ٹھہرا کر اپنی نا اہلی کا اظہار اور سانحے میں جان سے جانے والوں کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔ اے ایس آئی نوید اقبال کی آخری گفتگو بار بار سنوائی جا رہی ہے جن کا پورا خاندان اس سانحے میں جان کی بازی ہار گیا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ تبدیلی سرکار، ترجمان، انتظامیہ اور اس کے کل پرزے ہر ایسے سانحے کا ذمہ دار خود شہریوں کو قرار دے رہی ہے۔ سیلاب میں قیمتی انسانی جانوں اور مال و اموال کا ضیاع ہو، ریل گاڑی کے حادثات میں لوگ لقمۂ اجل بن جائیں، جہاز کریش کے واقعات میں قیمتی جانیں چلی جائیں، شمالی علاقہ جات میں لوگوں کو طوفانی موسم نگل جائیں یا موٹر وے پر سفر کرتی خواتین درندگی کا نشانہ بن جائیں ;یہ حکومت ہر بار کمال ڈھٹائی، بے حسی اور شقاوت قلبی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ابھی فواد چودھری کے ٹویٹ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی جس میں وہ مری میں داخل ہونے والی گاڑیوں کو خوشحالی اور فارغ البالی کی علامت قرار دے رہے تھے کہ مری میں برف زار سیاحوں کے لیے موت کا گڑھا بن گئے۔

یہ وہی شیخ رشید ہیں جن کے دور میں ریل گاڑیوں کے ریکارڈ حادثات ہوئے تھے۔ انہوں نے ہر حادثے کی ذمہ داری مسافروں، ٹریک، ڈرائیوروں یا چھوٹے اہلکاروں پر ڈال کر خود نکلنے کی بھونڈی کوشش کی تھی۔ اسی طرح کے ایک سانحے پر ارشاد فرمایا تھا کہ حادثہ ریل گاڑی کے اندر گیس کے چولہے جلانے سے پیش آیا۔ یہ نہیں بتایا کہ مسافروں کو اس عمل سے روکنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟

سیالکوٹ موٹر وے پر ہونے والے درندگی کے واقعے پر اس وقت کے پنجاب کے پولیس کے سربراہ کا بیان پاکستانیوں اور خاص طور پر متاثرہ خاتون اور خاندان کے جگر چھلنی کرنے والا تھا۔ کچھ تو ہمارے عوام کا حافظہ ہی کمزور ہے اور کچھ مہنگائی اور معاشی بد حالی نے بھی ان کی مت ماری ہوئی ہے ورنہ یہی ریاست مدینہ کے قیام کے دعویدار عمران خان اپنے جلسے میں بد انتظامی اور دھکم پیل سے مرنے والے پی ٹی آئی کے سات جوانوں کی لاشوں اور کئی زخمیوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود رفو چکر ہو گئے تھے۔ ڈینگی کی یلغار میں نواز، شہباز کی مستعدی اور بروقت انتظامات کو مذاق بنانے والے کا پالا جب خود کے پی میں ڈینگی سے پڑا تو بے اعتنائی سے فرما دیا کہ سردیوں کی آمد پر ڈینگی خود ہی ختم ہو جائے گا۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اپنے پیاروں کی میتیں جنوری کی یخ بستہ فضاوٴں میں رکھ کر ان کے منتظر تھے اور یہاں انہوں نے کمال بے حسی سے مظلومین کے مطالبے کو بلیک میلنگ سے تعبیر کیا تھا۔ خیر کپتان کی شقاوت قلبی اور بے حسی کی فہرست بہت طویل ہے یہاں صرف یہ نشاندہی کرنا مقصود ہے کہ ایسے شخص کی حکومت میں عوام اسی طرح زندہ درگور ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب محکمۂ موسمیات نے چار سے آٹھ جنوری تک الرٹ جاری کر دیا تھا تو اس پر عملدرآمد کروانا کس کی ذمہ داری تھی؟ الرٹ کے بعد مری میں اتنی تعداد میں گاڑیوں کو داخلے سے روکنا کس کی ذمہ داری تھی؟ شہریوں کے جان، مال، آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ سیاحوں کو بروقت موسمی حالات سے آگاہ کرنا کس کا کام تھا؟ برف کے پہاڑ تلے دبے متاثرین تک خوراک، حرارت، دوا اور کمبل وغیرہ پہنچانا کس کی ذمہ داری ہے؟ اے ایس آئی نوید اقبال کا خاندان چوبیس گھنٹے سے گاڑی میں محصور رہے۔ ان کے کزن طیب نے شیخ رشید اور فواد چوہدری سمیت انتظامیہ کے بے شمار ذمہ داران سے رابطہ کیا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

بات بات پر مغرب، برطانیہ اور امریکہ کی مثالیں دینے والے جدید ریاست مدینہ کے دعویدار عوام کو یہ بھی بتائیں گے کہ اگر ان ملکوں میں حکومت کی نا اہلی سے ایسا سانحہ رونما ہو جائے تو وزیراعلٰی اور متعلقہ وزیر کتنی دیر میں استعفیٰ دے دیتے ہیں؟ ادھر مری میں قیامت صغریٰ برپا تھی اور پنجاب کے وزیراعلی پارٹی کی تنظیم سازی میں مصروف تھے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی حکومتی مشینری محض چیونٹی کی رفتار سے ریسکیو اور امداد کے کاموں میں مصروف ہے۔

حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments