شاہ جی۔ آٹھ آنے ہیں


ہم بہن بھائیوں کا بچپن اور لڑکپن شاہ جی کی وجہ سے بہت رنگین اور زندگی سے بھرپور گزرا۔ جیسے آپ کے پاس کوئی وڈیو گیمنگ کنسول ہو اور اس میں روز کوئی نہ کوئی نئی گیم کھیلنے کو مل جائے تو آپ مہینوں سالوں بور نہیں ہوتے۔ مجذوب، فقیر منش درویش شاہ جی (دادی کے چھوٹ بھائی) ہمارے گھر کے ایسے ہی بجتے گرجتے کنسول تھے کہ جن سے حاصل ہونے والی یادوں کے گلدستے کو جب سونگھتا ہوں، دل و دماغ خوشبوؤں سے مہک جاتا ہے۔ میں اور میرا جڑواں بھائی ان سے اکثر پیسے مانگا کرتے تھے۔ ضرورت اور بلا ضرورت دونوں صورتوں میں۔ کبھی پیسے مل جایا کرتے تھے اور کبھی یادوں کی کچھ ایسی قیمتی اشرفیاں جن میں سے ایک آپ کے لئے پیش خدمت ہے۔

میں : شاہ جی آٹھ آنے ہیں؟
شاہ جی : نہیں ہیں
بھائی : دیکھ لو
شاہ جی : ابا نہیں ہیں آٹھ آنے۔ آ گئے پھر سے (چڑ کر )
بھائی : کھیسے میں
شاہ جی : نہیں ہیں۔ یو دیکھ۔ کہاں ہیں بتا؟ (کھیسا باہر نکالر کر دکھاتے ہوئے )
میں : شلوار کی جیب میں
شاہ جی : ابا نہیں ہیں۔ شلوار ما جیب ہی نئی میری۔ دیکھ (دامن اٹھاتے ہوئے )
بھائی : اچھا تلاشی دو
شاہ جی : کیوں دوں؟ تلاشی۔ سورے۔ ایسا دوں گا نہ۔ تلاشی دو ! (غصے میں )
میں : اچھا پھر حساب دو

شاہ جی : ابا کیا حساب دوں۔ (سر پکڑتے ہوئے ) جا یہاں سے انی بھابی جی کو آواز دے دوں گا یہ آ گئے دونوں پھر سے۔ تنگ کرنے (دادی کو بلانے کی دھمکی)

بھائی : کل آئے تھے نہ تم پھپو کے گھر سے۔ کہاں گئے سو روپے؟
شاہ جی : دیے تو تھے تجھے سورے۔ کل 5 اور اسے بھی 5 (آنکھیں دکھا کر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے )
میں : تو باقی کہاں گئے؟
شاہ جی : کیوں بتاؤں تجھے؟ آیا بڑا۔ باقی کہاں گئے
بھائی : اچھا پھر بٹوا دکھاؤ
شاہ جی : درو (منہ پھیرتے ہوئے ) ۔ جا یہاں سے کھیل اپنا
بھائی : اس کا مطلب ہے بٹوے میں ہیں
شاہ جی : ہاں ہیں۔ کیا کر لے گا۔ نہیں دیتا جا
میں : ہمیں صرف 5 روپے دیے تو گڑیا باجی کو 50 کیوں دیے؟
شاہ جی : (چڑ کر) میری مرضی۔ ابا دھی دیہانیوں کو زیادہ دیتے ہیں احسان! (پیار سے سمجھاتے ہوئے )
بھائی : ہم بھی دھی دیہانی ہیں
شاہ جی : دھت۔ تو کہاں سے ہو گیا (زور سے ہنستے ہوئے ہاتھ پہ ہاتھ مارتے ہیں )
میں : یار شاہ جی دے دو ۔ تمہارے لئے تل کا لڈو لاؤں گا

شاہ جی : نہیں کھانے۔ صبح کھا لئے تھے تل کے لڈو۔ چار۔ دست آ جاویں گے زیادہ کھانے سے (نظر انداز کرتے ہوئے )

بھائی : اچھا چلو گجک
شاہ جی : اوں ہنہ۔ (منہ موڑتے ہوئے )

میں : یار ان کے بٹوے میں 40 تو ہوں گے ۔ 10 ہمیں دیے، 50 گڑیا باجی کو ۔ باقی بچے 40 (شرارت سے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے )

شاہ جی : (غصے سے مجھے گھورتے رہ جاتے ہیں )
بھائی : ایک کام کرتے ہیں۔ تم ہاتھ پکڑو۔ میں زبردستی نکال لیتا ہوں
شاہ جی : آ آ۔ ادھر آ۔ ہاتھ تو لگا مجھے۔ سورے۔ ہاتھ توڑ دوں گا (ایک دم تیش میں آکر)
میں : اچھا چلو قمیض اتار کے دے دو ۔ ہم نکال لیں گے
شاہ جی : کیوں اتار دوں سورے قمیض۔ ننگا پھروں کیا (آنکھیں دکھاتے ہوئے )

بھائی : اگر تم نے نہیں دیے نہ تو میں اماں (ہماری دادی، شاہ جی کی بھابی) کو بتا دوں کہ تم نے انہیں کیا کہا تھا

شاہ جی : کیا کہا تھا؟
میں : یہ ہم انہی کو بتائیں گے
شاہ جی : دھت۔ جا بول دے۔ بڑا آیا۔ میں کیا بولوں بھابی جی کو
میں : وہ تو جب وہ باہر آ کر بتائیں گی پھر پتا چلے گا
شاہ جی : ہاں آ جاویں باہر۔ میں ڈرتا تھوڑی ہوں۔ کیا کر لیں گی وہ میرا (غصے سے )
بھائی :اللہ ہ ہ ہ ہ۔ کہہ رہے وہ کیا کر لیں گی میرا۔ ابھی بتاتا ہوں جا کے اماں کو

شاہ جی : ہاں چلا جا۔ میں نے کیا بولا انھیں؟ سورے۔ خود ہی بول را وہ آ جاویں گی۔ تو آجائیں۔ وہ کیا کر لیں گی میرا

بھائی : اچھا چلو صرف آٹھ آنے دے دو ۔ ہم دونوں چار چار آنے بانٹ لیں گے
شاہ جی : میں جا را حنیف کے پاس (محلے کا دھوبی)
میں : جا کے دکھاؤ

شاہ جی : ہاں جا رآ۔ کیا کر لے گیا میرا تو (قدم بڑھاتے ہوئے ) ۔ حجی جی یو احسان کو دیکھ لو تنگ کر را (منہ اوپر کر کے ابو کو آواز دیتے ہیں )

بھائی : اچھا دے کے چلے جاؤ نہ پیسے (راستہ روکتے ہوئے )
شاہ جی : ابے خط بنوانی مجھے کل۔ دیکھ جھانبیں نکل رہیں (داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے )
میں : ادھار کرلینا نائی سے
شاہ جی : دھت۔ کون کرے ادھار
بھائی : اچھا آؤ میں کاٹ دوں چھری سے
شاہ جی : دھت، دھت۔ اپنی کاٹ لے تو چھری سے (ہنستے ہوئے )
میں : اچھا بات تو سنو (پیچھے سے قمیض پکڑتے ہوئے )
شاہ جی : چھوڑ سورے۔ ایک دوں گا میں (ہاتھ اٹھاتے ہوئے غصے میں )
بھائی : اچھا چلو چار آنے دونوں کے لئے
شاہ جی : غصے سے گھورتے ہوئے رک جاتے ہیں، پھر ہاتھ جیب کی طرف لے جاتے ہیں تاکہ بٹوا نکال سکیں
میں : جلدی کرو۔ ٹائم کم ہے
شاہ جی : درو۔ نکال تو را
بھائی : ہاں 10، 10 روپے دونوں کے
شاہ جی : ابے چل۔ آیا بڑا دس روپے۔ ایک ایک روپیہ دوں گا بس (کھیسا ٹٹولتے ہوئے )
میں : اچھا دو

شاہ جی : ہاں دے را۔ آ جاتے ہیں تنگ کرنے۔ بتاؤں گا حجی جی کو میرے سارے پیسے لے لئے (بٹوے میں سے پیسے نکالتے ہوئے بڑبڑاتے ہیں )

بھائی : سو کا نوٹ نظر آیا ہے۔ ابھی ابھی۔ دیکھ لیا میں نے (جھوٹی ایکسائٹمنٹ دکھاتے ہوئے )

شاہ جی : ابا کہاں ہیں سو کا نوٹ سورے (غصے میں ) یو تصویر ہیں، یو رمضان کی ترویح کا کارڈ ہے۔ بتا کہاں ہے سو کا نوٹ (بٹوا کھول کر دکھاتے ہوئے )

میں : اچھا اچھا صحیح ہے۔ لاؤ دو یہ روپیہ
شاہ جی : لے۔ بھاگ جا یہاں سے اب (ایک ایک روپے کے دو نوٹ ہمارے حوالے کرتے ہیں )
بھائی : اماں کو تو پھر بھی بتائیں گے (ہنستے ہوئے ہم دونوں آگے بڑھ جاتے ہیں )
شاہ جی : کیا بتائے گا؟ سورے دے میرے پیسے واپس! (پیچھے سے آنے والی آواز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments