مری ہے یا کوفہ


مری میں برفانی طوفان 23 زندگیاں نگل گیا، یہ افراد گھروں سے اپنے بیوی، بچوں، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لئے نکلے تھے مگر وہی برف باری ان کے لئے موت ثابت ہوئی، اتنی اذیت ناک موت کہ تین دنوں سے غم کی حالت میں ہوں، ایسا لگتا ہے جیسے اپنے جدا ہو گئے ہوں، یہ بھی تو اپنے ہی تھے، پاکستانی بھی تو اپنے ہی ہیں۔

پانچ، چھ سال قبل خبر پڑھی کہ دو اور تین فروری کو مری میں برفباری ہوگی، صبح بیوی بچوں کو بتایا کہ دو اور تین فروری کو مری میں برفباری ہوگی دل کرتا ہے کہ برفباری (snowfall) دیکھنے چلیں، فوراً ہی بچوں نے شور مچا دیا پاپا چلتے ہیں، کار پر جانا تھا مگر بیوی، بچوں کو بتائے بغیر ٹرین کی ٹکٹس بک کرا دیں، بیگم کو بتایا تو جواب ملا کہ بچے ضد کر رہے ہیں کہ کار پر چلتے ہیں، میں نے بیگم کو سمجھایا کہ برفباری میں کار چلانا مشکل ہوتا ہے، یہ نہ ہو کہ انجوائے کرنے جا رہے ہیں اور پریشانی اٹھا کر واپس لوٹیں

رش اور خواری سے بچنے کے لئے مال روڈ سے دو کلو میٹر پیچھے ہی ہوٹل لیا، رات دس بجے برفباری شروع ہو گئی، ہوٹل کے ٹیرس پر برفباری سے خوب انجوائے کیا، بیگم  نے مشورہ دیا کہ مال روڈ پر چلتے ہیں، میں نے کہا کہ ضرور خوار ہونا ہے، برف سے لطف لیں، اگلے روز پتریاٹہ گئے، چیئر لفٹ پر بیٹھ گئے، کیبل کار کی اتنی بلندی کہ خوف آنے لگا، جب اوپر اترے تو عجیب ہولناک منظر تھا، برف ہی برف، تین بجے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ رات ہو گئی ہے

سناٹا اتنا تھا کہ وحشت طاری ہو رہی تھی، وہاں چھپر ہوٹل والے ایک پاؤ کے چپس دو سو روپے کے دے رہے تھے، چائے کا کپ اسی روپے کا تھا، ساتھ میں انگیٹھی بھی دیتے تاکہ کچھ وقت آگ کی حرارت جسم میں اتار لیں، اس وقت آلو دس، پندرہ روپے کلو ہوتا تھا، بیگم نے اعتراض کیا تو میں نے کہا اس کو غنیمت سمجھو، دو پلیٹیں چپس اور چائے منگواو تاکہ کچھ آرام ملے

تھوڑی دیر بعد میں نے واپسی کا کہا تو بیٹیوں نے کہا پاپا بہت مزا آ رہا ہے، ہم آخر میں جائیں گے، میں نے صاف انکار کر دیا کہ نہیں، بہتر ہے وقت سے پہلے نکل جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ لفٹ خراب ہو جائے اور ہم یہاں پھنس جائیں، یہاں کسی کی مدد کی توقع نہ رکھنا، کوئی نہیں پوچھے گا اور پھر ہم واپس چل دیے

اپنی روداد سنانے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی جگہوں پر بندے کو خود زیادہ محتاط ہونا چاہیے، کسی قسم کی ایڈونچر کرنا بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا، برفانی طوفان کی پیش گوئی کے باوجود لوگوں کا گھروں سے نکلنا یا ہوٹل سے نکلنا حماقت کے سوا کچھ نہیں، پاکستانی ہونے کے ناتے اگر ہم یہ توقع کر لیں کہ حکومتی ادارے یا محکمے ہنگامی صورتحال میں مدد کو پہنچیں گے تو ان کا انجام یہی ہوتا ہے کہ جو کہ مری میں ہوا۔

سوشل میڈیا پر برف میں پھنسے لوگوں کی ویڈیوز دیکھ کر مجھ پر وہی خوف اور وحشت طاری ہو رہی تھی جو کہ پتریاٹہ کے ٹاپ پر مجھے محسوس ہو رہی تھی، ویڈیوز دیکھ کر ایسا لگ تھا کہ جیسے میں خود اس جگہ پر پھنس گیا ہوں، برف میں ہو کا عالم ہوتا ہے اور قریب کوئی بندہ بشر نظر نہیں آتا، ایسے میں قریب سے کوئی گاڑی بھی نہیں گزرتی، برف میں پھنسے لوگوں سے ایک ابلے انڈے کے پانچ سو روپے مانگے گئے، ایسا ہی ہونا تھا

پتریاٹہ شدید سردی میں پیشاب آیا تو ایک باتھ روم گیا تو لکھا تھا، پچاس روپے ”جرمانہ“ میں نے اس بندے کو کہا کہ دس نہیں تو بیس روپے لے لو، پچاس تو بہت زیادہ ہے، وہ بولا جناب ٹھیکہ بہت مہنگا ملا ہے، پانی یہاں نہیں ہے، برف کو آگ سے پگھلا کر پانی بنا رہے ہیں، مجبوری تھی، پچاس روپے دینا پڑے

بچپن سے مری جا رہا ہوں، پہلے والد مرحوم کے ساتھ جاتے تھے پھر دوستوں کے ساتھ اور اب بیوی بچوں کے ساتھ، ہر بار مری قیام کے دوران نیا تجربہ ہی ہوا، دکانداروں کا رویہ، ہوٹلوں کے کھانے اور ان کے بل، کھانوں کے معیار پر اعتراض کے جواب میں ویٹرز کی بد تمیزیاں، کھانے پینے کی اشیا اور مری کی سوغات کی قیمتیں، یہ سب دیکھ حیران ہوتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ مری ہے یا کوفہ؟

مصیبت میں پھنسے مسافروں سے چائے کے کپ کے پانچ سو روپے اور تین ہزار روپے والے کمرے کا کرایہ چالیس ہزار تک مانگا گیا، ایک سیاح نے بیوی کی سونے کی چین اتار کر ہوٹل والے دی اور کمرہ لیا، اس کوفی سے کوئی پوچھے کہ تمھاری، بہن، بیٹی مصیبت میں گرفتار ہو اور وہ اپنی سونے کی چین دے کر جان بچائے تو اس کو کیسا لگے گا اور جب اس کوفی نے سونے کی چین خوشی خوشی اگلے روز اپنی بیوی یا ماں کو دی ہوگی تو اس کو خوشی ملی ہوگی کہ ایک عورت کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اپنی خوشی لے رہا ہے

کئی سالوں سے مری کے دکانداروں کی سیاحوں سے بدتمیزی کی سوشل میڈیا پر ویڈیوز دیکھنے کے بعد مری جانے پر باقاعدہ لعنت بھیج چکا ہوں، بچے بھی ویڈیوز دیکھ کر مری سے نفرت کرنے لگے ہیں، برفانی طوفان میں مرنے والوں یا پھنسنے والوں کی پہلی غلطی تھی کہ ان کو احتیاط کرنا چاہیے تھی مگر اس غلطی کا مطلب یہ تو نہیں کہ حکومت اور اس کے ادارے ان کو مرنے کے لئے یخ بستہ ہواؤں کے حوالے کر دیتے اور خود گرم کمروں کے لطف لیتے رہتے، یہ بے حسی اور بے غیرتی کی انتہا ہے

کوئی لاکھ جواز دے، 23 جانوں کے ضیاع کی ذمہ دار حکومت ہی تھی، سب سے بڑی ذمہ داری وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار پر عائد ہوتی ہے، ان کو بارتھی (آبائی علاقہ) کے علاوہ کچھ اور نظر ہی نہیں آتا، اس سارے معاملے میں سب سے بڑی کوتاہی وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید اور ان کے محکمے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ہے جن کی برف ہٹانے والی مشینیں وہاں موجود ہی نہیں تھی، اب مراد سعید میسنے بن کر خاموش بیٹھے ہیں

اگر پنجاب حکومت اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی تھوڑی سی بھی کوشش کرتے تو سیاحوں کو رات کو ہی وہاں سے نکال سکتے تھے مگر انہوں نے فرائض سے کوتاہی برتی اور قیمتی جانیں چلی گئیں، پھر ایک ادارہ بھی موجود ہے جس کو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کہا جاتا ہے، یہ صوبائی محکمہ بھی ہے، مگر ان اداروں نے صرف بجٹ میں فنڈز لینا ہوتا ہے باقی کسی آفت میں مصیبتوں کے ماروں کو بچانا ان کے فرائض میں شامل ہی نہیں، یہ دونوں ادارے سرکاری ”سانڈ“ ہیں، دیہات میں ایک ”سان“ ہوتا جو کھلا پھرتا رہتا ہے دکانوں سے مفت کا پھل اور چارہ کھاتا ہے اور کام کوئی بھی نہیں کرتا۔

افسوس جس جگہ پر یہ سانحہ پیش آیا وہاں دیواروں پر ممنوعہ علاقہ کے جگہ جگہ پر بورڈ آویزاں تھے، کاش اس رات اس ممنوعہ علاقے کو عوام کے لئے کھول دیا جاتا اور ان کو پناہ دے دی جاتی مگر کسی کو ترس نہ آیا کہ باہر انسانیت سسکتی رہی، بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور نوجوان کے خون برف نے جما دیے اور وہ سوتے میں ہی سو گئے

مری والوں نے اس آفت میں بھی پیسہ کمانے کا موقع ضائع نہیں ہونے دیا، ٹی وی پر بہت سی ویڈیوز دیکھی ہیں کہ چیتے نے کسی کا شکار کیا مگر اس کا نومولود بچہ مری ہوئی ماں کے ساتھ چپکا رہا تو اس خونخوار درندوں نے اس معصوم کو آغوش میں لے لیا اور اسے پیار کیا، مگر مری کے کوفیوں میں شاید دل ہی نہیں، اگر ان میں انسانیت نہیں رہی تھی تو درندہ بن کر معصوم بچوں پر ترس کھا لیتے

اگلے روز سوشل میڈیا پر تصاویر پر بھرمار تھی، کوئی بیلچہ اٹھائے تصویر بنوا رہا ہے، کوئی گاڑی کو دھکا لگا رہا ہے، کوئی بچے کو اٹھا کر لے جا رہا ہے اور کوئی زندہ بچ جانے والوں کو چائے اور کھانے پینے کی اشیاء دیتے ہوئے تصاویر بنوا کر جاری کر رہا ہے، کیا تماشا تھا، کسی نے رات کے واقعہ پر معذرت نہیں کی اور الٹا سیاحوں کو لتاڑ دیا کہ پانچ ہزار گاڑیوں کے داخلے کی گنجائش تھی مگر اسی ہزار سے زائد داخل ہو گئیں، کوئی ان بے شرموں سے کوئی پوچھے، تعداد زیادہ ہونے پر روکنے کا فرض کس کا تھا؟

پنجاب حکومت نے سانحہ مری کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنا دی ہے، اس کمیٹی کے تین، چار اجلاس ہوں گے، کمیٹی کے ارکان کی بہترین کھانوں سے تواضع کی جائے گی، پھر ایک رپورٹ تیار ہوگی کہ انتظامیہ الرٹ تھی اور اس نے بھرپور کوشش کی مگر طوفان کی شدت کے سامنے بے بس تھے، صبح ہوتے ہی جیسے ہی علم ہوا کہ 23 افراد مر گئے فوری طور پر انتظامیہ حرکت میں آ گئی اور امدادی کام شروع کر دیا گیا اور کئی جانوں کو مرنے سے بچا لیا گیا، ٹوکن کے طور پر ایک، دو ٹریفک وارڈن، دو چار بیلدار معطل کر دیے جائیں گے اس طرح سائیں بزدار سرکار عوام کے سامنے سرخرو ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments