زندگی سے ریزائن


کیا آپ نے کبھی سوچا ہے ہم۔ زندگی سے ریزائن کب کرتے ہیں؟ اگر آپ عام طور پر سوچیں تو آپ کو ایسا ہی لگے گا جس وقت ہم دم توڑ دیتے ہیں یا پھر ہمارے بدن سے سانسوں کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور ہم زندگی کو الوداع کہ کر موت کے ساتھ لپٹ جاتے ہیں۔ ہماری روح خالق حقیقی سے جا ملتی ہے اور ہمارا وجود مٹی میں دفن کر دیا جاتا ہے ہمیشہ کے لیے اور ہمارے اس قیام کو آخری آرام گاہ کا مقام و نام و مرتبہ دے کر ہمیشہ کے لیے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ یقیناً ہمیں ایسا ہی لگتا ہو گا موت ہی واحد عمل ہے یا پہلو ہے یا پھر راستہ ہے یا پھر مقام ہے یا ایسی اسٹیج ہے جہاں سے گزر جانے کے بعد ہم اس بات پر یقین کر لیتے ہیں ہم زندگی کو ریزائن کر چکے ہیں۔ لیکن میری نظر میں زندگی کو ہم اس وقت بھی ریزائن کر دیتے ہیں جس وقت ہم

مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر ہم ظلم سہنا اپنی ڈیوٹی کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک ایسی محفل میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا جہاں جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے والے اپنی گفتگو میں اپنی بے بسی کا اظہار کر رہے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مجبور ہونے کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ثابت بھی کر رہے تھے۔ ان لوگوں

کا شمار بھی ایسے لوگوں میں سے ہے جن کو اپنی سماجی و معاشی زندگی کے ساتھ ساتھ ادھوری محبت کی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی جیسی ذمہ داریاں بھی ساتھ نبھانی ہیں۔ کسی کی زبان پر حکومت کے خلاف شکوے تھے تو کسی کی زبان پر مہنگائی کے لالے تھے کسی کو گھر سے بچوں کی کالز آ رہی تھیں اور وہ محفل میں بچوں کی فرمائشوں پر پردہ ڈال کر ان کی خواہش نہ پوری کرنے کا ملبہ بھی حکومت پر ڈال رہے تھے آخر میں سب کی یہ ہی رائے تھی جو ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے سب حکومت کا قصور ہے ہم گناہ سے پاک ہیں کچھ وحشی مزاج فرد نے تو بڑ چڑھ کر یہ تسلیم بھی کیا کے ہم مجبور ترین عوام ہیں اگر حکومت چاہے توہم سے جینے کا حق بھی چھین لے۔

میں ان تمام فردوں کی گفتگو کا لطف لے رہی تھی اور مجھے ان سب پر ترس آ رہا تھا۔ کیوں کے یہ ہر موضوع کی ابتدا اور انتہا حکومت کے کندھوں پر رکھ کر کر رہے تھے۔ موسم کی صورتحال اتنی خوبصورت تھی میں نے ان کی کسی بھی رائے میں ہاں میں ہاں نہیں ملائی لیکن اندر کہیں میں بھی ان کے ساتھ اکتفا کرتی تھی مگر مکمل نہیں میں حکومت کا سہارا لے کر کچھ بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتی تھی۔

در اصل جتنے بھی لوگوں نے اپنے آپ کو محروم ثابت کیا وہ در اصل اپنی زندگی کو ریزائن کر چکے ہیں یہ ہی وجہ ہے یہ لوگ خود کو مجبور کہنے پر مجبور ہیں۔

میں نے بچپن سے بڑے ہونے تک اپنے باپ کے پروں تلے زندگی ایسے گزاری جیسے دنیا میں آ کر کوئی گناہ کر ڈالا ہو۔ میرے والد نے زندگی کے ہر موڑ پر حد سے زیادہ احتیاط کی۔ کبھی کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے احتیاط ہی ہماری زندگی کا حاصل ہے اور کچھ بھی نہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے نشیب و فراز سے آشنائی ہوئی زندگی کی دھوپ چھاؤں دیکھی تو والد صاحب کی نصیحتیں من و سلوی لگنے لگی جن کا ذائقہ میں آج تک بھول نہیں سکتی۔

گزشتہ چند روز قبل سانحہ مری دل کو تڑپا کر رکھ دینے والا ثابت ہوا اس موقع پر والد صاحب کی ہر نصیحت یاد آئی۔ سانحہ سے ابھی ایک روز قبل ہی میں با ضد تھی مری جانے کے لیے لیکن چند اہم مصروفیت کی وجہ سے میں جانے سے قاصر رہی۔ وقتی طور تو اس وقت مجھے مجھ سے زیادہ نہ تو کوئی مجبور لگا اور نہ ہی کوئی بے بس۔ اس وقت میں بھی اپنے آپ کو مجبور تسلیم کر کے زندگی کو ریزائن کر چکی تھی لیکن وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ آنکھیں کھلی احساس ہوا آپ کی زندگی میں نصیحت کتنی اہم ہے اور کبھی کبھی مجبوری تسلیم کرنا بھی۔ دنیا کی مجبوریوں کو تسلیم کر کے ہم عارضی طور پر ریزائن کر دیتے ہیں جس کو آنکھیں کھل جانے پر ہم دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔

جو لوگ ہمت ہار جاتے ہیں۔ آگے بڑھنے کی قوت کھو دیتے ہیں اور اس بات پر ڈٹ جاتے ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے در اصل وہ زندگی کو ریزائن کر دیتے ہیں۔ اور دوسری طرف زندگی کو ریزائن کرنے کا ایک وہ موڑ بھی آتا ہے جس کو ہم چاہ کر بھی بحال نہیں کر سکتے۔

افسوس سانحہ مری میں بھی کچھ ایسی زندگیوں کا خاتمہ ہوا جن کو محسوس ایسا ہوا کہ یہ زندگی کی ابتدا ہے مگر حقیقت میں زندگی کا خاتمہ ثابت ہوا کچھ خوشیاں الوداعی ہوتی ہیں۔ (اللہ ہر مرنے والے کی مغفرت فرمائے۔ آمین)

لہٰذا زندگی سے ریزائن ہونے کی بھی دو اقسام ہیں مصنوعی اور حقیقی۔ مصنوعی مجبوری والی اور حقیقی سانحہ مری۔

اللہ ہمیں ویسا بنائے جیسا وہ چاہتا ہے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments