آپ ہیمنگ وے کے ادب کے نوبل انعام اور خود کشی کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟


ارنسٹ ہیمنگ وے کو جو پستول بہت عزیز تھی اور جسے وہ اپنی ’دوست‘ کہہ کر پکارتے تھے اسی پستول کو ہیمنگ وے نے دو جولائی 1961 کی صبح اپنی کنپٹی پر رکھ کر لبلبی دبائی اور خود کشی کر لی۔ ہیمنگ وے کی طرح اور بھی بہت سے شاعروں ’ادیبوں اور دانشوروں نے‘ جو ڈپریشن کا شکار تھے اپنی جان خود اپنے ہاتھوں لے لی۔ بعض ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ ڈپریشن کی ذہنی بیماری کی ایک خاص قسم ایسی بھی ہے جو نہ صرف موروثی ہے بلکہ اس کا شکار لوگ اکثر خود کشی بھی کر لیتے ہیں۔ ہیمنگ وے کے خاندان میں بھی ان کے ایک بھائی ایک بہن اور ایک پوتی نے بھی خود کشی کی تھی۔

ہیمنگ وے 1899 میں امریکہ کی ریاست ایلینوئے میں پیدا ہوئے اور وہیں ان کے بچپن اور نوجوانی کے دن گزرے۔ 1917 میں وہ پہلی جنگ عظیم میں بطور فوجی شامل ہونا چاہتے تھے لیکن بینائی کی کمزوری کی وجہ سے میڈیکل ٹیسٹ میں فیل ہو گئے۔ چنانچہ انہوں نے ایمبولنس ڈرائیور کے طور پر فوج میں شرکت کر لی اور اٹلی کے محاذ پر اپنی خدمات پیش کیں۔ چند ماہ کی فوجی خدمت کے بعد وہ ایک حادثے میں زخمی ہو گئے اور انہیں فوج سے علیحدہ ہونا پڑا۔ ہیمنگ وے نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب انسان جوان ہوتا ہے تو وہ موت سے نہیں ڈرتا اور اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لیتا ہے۔ اسی لیے وہ زخمی ہوئے اور کچھ عرصہ ہسپتال میں رہے۔

ہیمنگ وے جس فوجی ہسپتال میں زیر علاج رہے اسی ہسپتال کی اپنی عمر سے سات برس بڑی نرس کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔ چونکہ وہ عاشق مزاج تھے اس لیے نرس کی مسیحائی مسکراہٹ کو رومانوی مسکراہٹ سمجھنے لگے۔ امریکہ واپس آ کر وہ اس انتظار میں رہے کہ وہ نرس بھی امریکہ آئے گی اور ان سے شادی کر لے گی لیکن جب اس نرس کا پیغام آیا کہ اس نے اٹلی کے ایک فوجی افسر سے شادی کر لی ہے تو ہیمنگ وے بہت دلبرداشتہ ہوئے۔ اس رومانوی سانحے نے ان کے مستقبل کے رومانوی تعلقات کو بہت متاثر کیا۔

اس رومانوی حادثے کے کچھ عرصہ بعد وہ اپنی پہلی بیوی ہیڈلی کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔ ان کی پہلی بیوی بھی ان کی پہلی محبوبہ کی طرح ان سے آٹھ برس بڑی تھیں۔ ہیمنگ وے نے پہلی ملاقات پر ہی ان سے کہہ دیا تھا کہ تم ایک دن میری بیوی بنو گی۔ پہلے تو ہیڈلی نے قہقہہ لگا کر بات کو مذاق میں اڑا دیا لیکن ہیمنگوے کا اصرار اور ہیڈلی کا انکار کچھ عرصہ چلتا رہا اور ہیمنگ وے کے اصرار نے ہیڈلی کے انکار کو اقرار میں بدل دیا اور انہوں نے ہیمنگ وے کی مقناطیسی شخصیت سے مرعوب ہو کر ان سے شادی کر لی۔

ہیمنگ وے مسلمان نہیں تھے لیکن انہوں نے زندگی کے مختلف ادوار میں چار شادیاں کیں اور ہر ہونے والی بیوی کو پہلی ملاقات میں ہی کہہ دیا کہ ایک دن تم میری بیوی بنو گی اور انہوں نے مذاق میں اڑا دیا لیکن پھر وہ ان کی گرویدہ ہو کر بیوی بن گئیں۔

ہیمنگ وے کی جنگ میں شرکت نے ان کی سیاسی اور ادبی زندگی کو متاثر کیا۔ وہ ناول نگار بننے سے پہلے ایک جرنلسٹ تھے۔ انہوں نے کینسس کے اخبار کے علاوہ ٹورانٹو سٹار کے لیے بھی کالم اور کہانیاں لکھیں۔ ہیمنگ وے جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں تھے اور ان کا امن کا فلسفہ ان کے جن دو مقبول اور مشہور ناولوں کا موضوع بنا وہ

THE SUN ALSO RISES
A FAREWELL TO ARMS
تھے۔

ہیمنگ وے کو شکار کرنے کا بھی شوق تھا اور سفر کرنے کا بھی۔ وہ سپین بھی گئے افریقہ کی بھی سیر کی اور کیوبا میں بھی رہے۔ اگرچہ امریکی حکومت کی کاسٹرو اور کیوبا سے سخت دشمنی تھی اور انہوں نے کاسٹرو پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی کروائے تھے لیکن ہیمنگ وے کیوبا اور کاسٹرو کے دلدادہ تھے۔ کیوبا کے لوگ بھی ہیمنگ وے سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔

کیوبا کے شہر ہوانا کے جس کلب کی جس کرسی پر بیٹھ کر ہیمنگ وے شراب پیتے تھے وہاں آج بھی ہیمنگ وے کا مجسمہ موجود ہے۔ میں چند سال پیشتر جب کیوبا گیا تھا تو جہاں میں چے گویرا کا مجسمہ دیکھنے سینٹا کلیرا کے شہر گیا تھا وہیں ہوانا ہیمنگوے کا مجسمہ دیکھنے بھی گیا تھا۔

کیوبا میں ہی ہیمنگ وے نے 1948 میں اپنا معراکتہ الآرا ناولٹ۔
THE OLD MAN AND THE SEA

تخلیق کیا۔ وہ ناولٹ انہوں نے صرف آٹھ ہفتوں میں مکمل کر لیا تھا۔ اس ناول کا ہیرو سینٹیاگو جو ایک مچھیرا ہے چوراسی دن تک مچھلیاں پکڑنے جاتا ہے لیکن ناکام لوٹتا ہے۔ لوگ اسے بد قسمت۔ کہتے ہیں اور بدبخت سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کا ایک نوجوان دوست جو اس کی دادا کی طرح عزت کرتا ہے اس کے ساتھ مچھلی پکڑنے نہیں جا سکتا کیونکہ اس کا باپ اسے یہ کہہ کر منع کر دیتا ہے کہ سینٹیاگو ایک منحوس انسان ہے لیکن وہ اپنے باپ کی ناراضگی مول لیتے ہوئے پھر بھی سینٹیاگو کی خدمت کرتا رہتا ہے۔

چوراسی دنوں کے بعد جب سینٹیاگو مچھلیاں پکڑنے جاتا ہے تو سمندر میں بہت دور تک چلا جاتا ہے۔ وہ دوپہر تک ایک مچھلی مارلن پکڑ تو لیتا ہے لیکن وہ مچھلی اتنی بڑی ہوتی ہے کہ اسے ساحل تک لانا بہت دشوار ہوتا ہے۔ مچھیرا اور مچھلی اڑتالیس گھنٹے ایک دوسرے سے نبرد آزما رہتے ہیں۔ آخر مچھیرا اس مچھلی پر بڑے سے چاقو سے حملہ کرتا ہے وہ زخمی ہوتی ہے اور مر جاتی ہے لیکن اس کے زخم سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سی شارک مچھلیاں اس مارلن مچھلی کو کھانے آ جاتی ہیں۔

تین دن کی محنت شاقہ کے بعد جب مچھیرا ساحل پر لوٹتا ہے تو مچھلی کا صرف ہڈیوں کا پنجر تو باقی رہتا ہے لیکن سارا گوشت ضائع ہو گیا ہوتا ہے۔

ساحل پر پہنچ کر مچھیرا اتنا تھکا ہوتا ہے کہ مچھلی کے ڈھانچے کو کشتی کے ساتھ چھوڑ کر کیبن میں جا کر سو جاتا ہے۔ دوسرے مچھیرے اس مارلن مچھلی کا پنجر دیکھ کر متاثر بھی ہوتے ہیں اور دکھی بھی ہوتے ہیں کہ اس کی محنت اکارت گئی۔

کہانی کے آخر میں بوڑھے مچھیرے کو احساس ہوتا ہے کہ اپنی خواہش ’اپنی تمنا‘ اپنی آرزو اور اپنے خواب کو تلاش کرتے کرتے وہ سمندر میں بہت دور تک چلا گیا تھا۔ ہیمنگ وے ہمیں اس کہانی کی وساطت سے بتاتے ہیں کہ دانا لوگ نہ صرف یہ جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انہیں زندگی میں کیا نہیں کرنا کہاں تک نہیں جانا۔

اس ناولٹ کی وجہ سے ہیمنگ وے کو 1952 کا پلٹزر انعام اور 1954 کا ادب کا نوبل انعام ملا۔

ہیمنگ وے بھی اپنے ناولٹ کے ہیرو بوڑھے مچھیرے کی طرح اپنے خوابوں اور آدرشوں کا تعاقب کرتے ہوئے بہت دور چلے گئے اتنی دور کہ پھر واپس نہ لوٹ سکے اور خود کشی کر لی۔

ہیمنگ وے نے ادب عالیہ تخلیق کیا اور ادب کو ایک نئے انداز تحریر سے روشناس کروایا۔ ان کا ادب کا نظریہ iceberg کا نظریہ کہلاتا ہے۔ جس طرح آئس برگ میں ہمیں تھوڑی سی برف سطح کے اوپر دکھائی دیتی ہے اور باقی پانی کی سطح کے نیچے ہوتی ہے اسی طرح ہیمنگ وے کہتے ہیں کہ جب ادیب کو اپنی کہانی اور نفس مضمون پر عبور ہو تو وہ جتنا ظاہر کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ مخفی رکھتا لیکن قاری اس تک پہنچ جاتا ہے لیکن اگر لکھاری کو اپنے نفس مضمون پر کمال حاصل نہ ہو تو یہ خوبی تحریر کی کمزوری بن جاتی ہے اور ادبی اچھائی برائی میں بدل جاتی ہے۔

ہیمنگ وے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ بڑا ادیب سلیس زبان استعمال کرتا ہے کیونکہ سادہ زبان میں لکھنا دشوار گزار اور گنجلک اور پیچیدہ زبان میں لکھنے سے زیادہ مشکل ہے۔ (اردو روایت میں ہم اسے سہل ممتنع کہتے ہیں جس میں میر تقی میر کو کمال حاصل تھا۔ جس کی مثال ان کا شعر

؎ کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا)

ہیمنگوے کی بطور لکھاری کامیابی کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان کے انداز تحریر کو بہت سے اور ادیبوں نے اپنانے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ تحریر میں دانائی ہو لیکن انداز تحریر ایسا ہو کہ آٹھویں جماعت کا طالب علم بھی اسے سمجھ سکے۔ اسی لیے ہیمنگ وے کی کہانیاں امریکہ کے ہائی سکولوں کے نصابوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔

ہیمنگ وے کہا کرتے تھے کہ لکھاری کا کام قاری تک زندگی کے کھٹے اور میٹھے ’کڑوے اور کسیلے سچ پہنچا کر انہیں سوچنے پر مجبور کرنا ہے انہیں اپنی انشا پردازی سے متاثر کرنا نہیں۔

۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments