ایک نازک موضوع پر مزید گزارشات


جناب وجاہت مسعود کی تحریر کی تشریح کی غرض سے جو گزارشات تحریر کی تھی اس پر کچھ صاحبان علم نے وضاحت طلب فرمائی ہے۔ چند احباب کی خدمت میں تو ذاتی طور پر عرض کیا اور ان کے سوالات کا حتی المقدور جواب دینے کی کوشش کی۔ معروف مذہبی سکالر جناب عمار خان ناصر نے “ہم سب” پر اس طالب علم کی تحریر کے ذیل میں اپنا تبصرہ رقم فرمایا۔ ناصر صاحب کے بارے میں مجھے اتنا علم تو ہے کہ وہ ایک مذہبی اسکالر ہیں ان کی چند تحریریں بھی نظر سے گزری ہیں جن سے ان کے تبحر علمی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ تاہم یہ طالبعلم ان کے حقیقی علمی مقام اور مرتبے سے کماحقہٗ آگاہی کا دعویٰ نہیں رکھتا۔

کسی بھی تحریر پر قاری کا تبصرہ اس کا حق ہوتا ہے جس سے اسے کوئی محروم نہیں کر سکتا۔ اسی لئے میں عموماً تبصروں پر تبصرہ نہیں کرتا۔ تاہم صاحبان علم کے تبصروں پر وضاحت کرنا اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اس سے مکالمے کی ایک فضا اور باہمی تبادلہ خیال کا ایک ماحول پیدا ہوتا ہے جو کسی بھی معاشرے میں علمی ترقی کیلئے سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ زندہ معاشروں میں علمی موضوعات پر مکالمہ جاری رہتا ہے چاہے بعض صورتوں میں وہ کتنا ہی طویل اور ناخوشگوار کیوں نہ ہو جائے۔ چاہے وہ مکالمہ نتیجہ خیز ہو یا نہ ہو اور چاہے اس سے فریقین کی رائے بدلے یا نہ بدلے، مکالمہ جاری رہتا ہے۔ یہ مکالمہ دیکھنے والے اس سے ضرور مستفید ہوتے ہیں اور ان کو زیربحث موضوعات پر اپنی رائے قائم کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ تاہم عقیدوں پر ہونے والی بحثیں مکالمے کی اس تعریف پر پورا نہیں اترتتیں۔ کیونکہ ان بحثوں میں فریقین قائل ہونے کے لیے نہیں بلکہ قائل کرنے کے لئے شرکت کرتے ہیں۔ یہ بحثیں جن کو مناظرہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا معاشرے میں تبدیلی کے بجائے ہر عقیدے کے لوگوں کے نظریات میں زیادہ سختی اور درشتی پیدا کرتی ہیں۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ یہ مباحث کس طرح معاشرے میں فساد، بدامنی، تفریق اور خونریزی کا سبب بنے ہیں۔

پہلے آپ جناب عمار ناصر کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے۔

“ڈاکٹر صاحب، آپ کی علمی تحریروں سے بہت استفادہ کرتا ہوں، لیکن یہ توجیہ کافی بعید دکھائی دیتی ہے۔ مذہبی طبقے میں اقتدار سے محرومی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کئی دوسرے نفسیاتی رویے موجود ہیں اور وہ طبقاتی سطح کے ہیں۔ ریپ تو انفرادی شخصیت کا بگاڑ ہے اور اس میں طبقاتی رنجش کا بھی کوئی پہلو نہیں۔ اس کو ان عمومی اسباب کے تحت سمجھنا ہی زیادہ معروضی نہیں جن اسباب سے یہ بیماری دیگر معاشرتی طبقوں میں پائی جاتی ہے”

میں ناصر صاحب کی طرح مسلمانوں کی تاریخ کا عالم ہونا تو درکنار ایک طالب علم بھی نہیں ہوں لیکن یہ ضرور عرض کرسکتا ہوں کہ اقتدار کلی تو مذہبی طبقے کے ہاتھ سے شاید صدیوں پہلے ہی رخصت ہو گیا تھا۔ (ذرا دیر کے لیے ایرانی مثال کو گفتگو سے باہر رکھیے) اس کے بعد سے لے کر آج تک مذہبی طبقہ کی کوشش پاور سنٹرز کا قرب حاصل کرنے اور اس کے ذریعے اپنے اثر و نفوذ کو وسعت دینے کی رہی ہے۔ مذہبی طبقے نے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے حکمرانوں کی مخالفت تو کی ہے لیکن بادشاہوں اور آمروں کے لیے وہ کبھی کوئی مشکل حریف ثابت نہیں ہوئے سوائے چند اکا دُکا استثناوں کے۔۔

اس جملہ معترضہ کے بعد میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ناصر صاحب کا تبصرہ فرماتے ہوئے یہ کہنا کہ “ریپ تو ایک انفرادی شخصیت کا بگاڑ ہے” بالکل درست ہے اور اس سے اختلاف ممکن نہیں ہے اسی طرح ان کا یہ فرمانا کہ “اس میں طبقاتی رنجش کا کوئی بھی پہلو نہیں ہے اس کو ان عمومی اسباب کے تحت سمجھنا زیادہ معروضی نہیں جن اسباب سے یہ بیماری دیگر معاشرتی طبقوں میں پائی جاتی ہے؟” بھی بالکل درست ہے۔۔ اور بالکل یہی کوشش اس تحریر میں کی گئی تھی جس پر ناصر صاحب نے تبصرہ فرمایا ہے۔ معاشرے میں رونما ہونے والے جنسی جرائم پر غالباً یہ میری پانچویں تحریر تھی۔ میں نے ابتدا ہی سے ان جرائم کے اسباب پر اختلاف کرتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ان جرائم کے اسباب میں سے جنس کو باہر نکال کر دیکھیں اور غصہ، طاقت کا اظہار، اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی مریضانہ خواہش کو سامنے رکھیں تو مختلف طبقات بشمول مزہبی لوگوں کے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم بہت بہتر طریقے سے سمجھ میں آئیں گے۔ جس تحریر پر ناصر صاحب نے تبصرہ فرمایا ہے وہ بالخصوص مذہبی طبقہ کے حوالے سے لکھی گئی تھی تو روئے سخن بھی ظاہر ہے ان ہی کی جانب تھا جو غالبا ایک غلط فہمی کا موجب بنا ہے۔

اب آئیے اس سوال کی جانب کہ کیا معاشرے کے کچھ طبقات ایسے ہیں جن کے نام آئے روز جنسی جرائم کے حوالے سے سامنے آتے رہتے ہیں؟ میں ذاتی طور پر ایسی کسی تحقیق سے واقف نہیں ہوں جس میں ایسے طبقات کی نشاندہی اعدادوشمار کے حوالے سے کی گئی ہو۔ ویسے بھی مذہبی طبقہ نے جس طرح پڑھے لکھے افراد کے دل و دماغ پر اپنا خوف مسلط کر دیا ہے ایسے میں کسی ایسی تحقیق کے امکانات بھی کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی تحقیق کا تو ظاہر ہے ہے موجود نہیں ہے لیکن عمومی طور پر مذہبی مدارس کے معلمین کو ان طبقات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ قرآن پڑھانے والے اساتذہ، مدرسوں میں تعلیم دینے والے، اور کار تبلیغ میں مصروف لوگ بالعموم اس جرم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان کے علاوہ کچھ اور طبقات اس جرم کا ارتکاب نہیں کرتے۔ اپنی گزشتہ تحریروں میں عرض کر چکا اور پریشانی کے ساتھ عرض کر چکا ہوں کہ اقتصادی طور پر نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کثرت کے ساتھ اس طرح کے جرائم میں ملوث ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جب کچھ طبقات بالخصوص ایک ہی جرم کو تواتر اور تسلسل کے ساتھ انجام دے رہے ہوں تو معاشرے کے لیے یہ سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔۔۔

گزشتہ تحریر میں عرض کر چکا ہوں کہ جب آئرلینڈ میں تسلسل کے ساتھ کیتھولک پادریوں کے جنسی جرائم منظرعام پر آنا شروع ہوئے تو حکومت اور کیتھولک چرچ دونوں کو ان واقعات کا نوٹس لینا پڑا۔ پادریوں کو بچوں کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کرنے سے روک دیا گیا۔ ان کو سماجی بہبود کے اداروں کے اہم عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ میگڈالین لانڈری جیسے بڑے یتیم خانے بند کر دیے گئے (اس طرح کے یتیم خانوں پر بنی فلم Magdalene Sisters ان حالات اور واقعات کو بخوبی دکھاتی ہے) ناصر صاحب جیسے سماجی سائنس میں دلچسپی رکھنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ پاکستان میں مذہبی اداروں سے رپورٹ ہونے والے جنسی جرائم پر سروے کروائیں۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اگر اتنی جرات اور سکت ہوتی تو شاید ایسی معلومات حاصل کی جاسکتیں کہ جنسی جرائم کے حوالے سے رپورٹ ہونے والے واقعات میں مذہبی طبقہ کا حصہ کتنا ہے۔ ایسی تحقیقات کے نہ ہونے کے باوجود عام طور پر رپورٹ ہونے والے واقعات کو دیکھیے اور فیصلہ کیجیے کہ مذہبی لوگوں سے گو انفرادی طور پر ہی سہی مگر اتنی کثرت، تواتر اور تسلسل سے یہ جرم کیوں سرزد ہوتا ہے۔ نفسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جو ہم ایسے طالب علموں کی سمجھ میں آتا ہے وہ عرض کر دیا گیا ہے۔

لگے ہاتھوں ایک اور سوال بھی مذہبی طبقہ کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ جس طرح پاکستان فوج پر کی جانے والی تنقید غداری کے زمرے میں آ جاتی ہے اسی طرح مذہبی لوگوں کے جرائم کی نشاندہی دائرہ اسلام سے خروج کا سبب کیوں بن جاتی ہے؟ لیکن اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے مذہبی طبقات کی تمام کارگزاری۔۔۔ مثبت یا منفی۔۔۔ کا کل میزان کیا ہے؟

امید کرتا ہوں کہ جناب عمار خان ناصر اور دیگر احباب تک میری وضاحت اس مرتبہ پہنچ جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments