سانحہ مری۔ موت کا حسین سفر


اسلام آباد میں گزشتہ پانچ دنوں سے بارش کا سلسلہ جاری تھا مختلف ذرائع سے خبر بھی مل رہی تھی کہ اس دفعہ مری اور گردونواح میں بہت زیادہ بارش ہے۔ دوستوں نے بار بار کہا کہ مری کا پلان بناتے ہیں لیکن دفتر کے اوقات اور سفر کی تیاری نہ ہونے کے باعث کوئی پلان نہیں بن سکا۔

جمعہ کے رات پھر دوستوں نے کہا کہ مری یا نتھیا گلی چلتیں ہیں۔ لیکن کیونکہ کچھ دیر قبل ہی آفس سے نکلتے ہوئے موسم کا غیر معمولی موسم انداز دیکھا تھا۔ اس لیے واضح طور پر انکار کر دیا۔ رات کے کھانے کے دوران بار بار موبائل بج رہا تھا اور اسے اس بات کا اندازہ ہو رہا تھا کہ مری نتھیا گلی ایبٹ آباد اور دیگر جگہوں میں شدت اختیار کر رہا ہے۔ ایک خبروں کے گروپ نے مری سے ایک صحافی نے لکھا کہ مسلسل برف باری ہو رہی ہے۔ علاقے میں بجلی بھی معطل ہو چکی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ باہر کیا حالات ہوں گے۔

یہ چند جملے سمجھنے سمجھانے کے لیے کافی تھے کہ موسم خراب ہے اور یقیناً بہت سے سیاح اس وقت بھی مری مال روڈ نتھیا گلی اور دیگر راستوں پر ٹریفک میں موجود ہوں گے اور مکمل طور پر پہنچ چکے ہوں گے۔ اس بات کے ادراک کی وجہ یہ ہے کہ میں گزشتہ کئی سالوں سے بہت بار مری اور گلیات کا سفر خود کر چکی ہوں لیکن ہمیشہ سفر تیاری یا مکمل پلان کے ساتھ کیا ہے۔ جس میں موسم کی پیشین گوئی لازمی دیکھی ہے۔ تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اگر کسی مشکل میں پھنس گئے تو کیا کرنا ہے اور جان کس طرح بچانی ہے۔

اپنے سفر کی داستان کبھی اور سناؤں گی۔ آج تو مسئلہ صرف مری سانحہ کا ذکر کرنا ہے۔ معذرت خواہ ہوں کے اس جملے تک آتے ہوئے مجھے بہت لمبی تمہید باندھنی پڑی۔ جس نے آپ کا خاصا وقت ضائع کر دیا ہو گا۔ آپ نے کچھ سوال لکھوں گئیں اور ان کا جواب بھی۔

سوال نمبر 1۔
مری میں کیا ہوا؟

ہفتے کے سو ویڈیوز کا ایک انبار میرے موبائل میں موجود تھا جو مری اور گلیات کی برف باری سے متعلق تھیں۔ تشویش کی بات یہ تھی کہ جو پہلی وڈیو دیکھیں اس میں ایک شناسا چہرہ اور معصوم بچے تھے۔ یہ وڈیو اسلام آباد پولیس کے ایک اے ایس آئی نوید اقبال کے خاندان کی تھی۔ دل دہلانے اور آنکھوں میں آنسو لانے کے لیے کافی تھی۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر اچھے طریقے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس مقام پر آخر کیا ہوا ہے۔ یہاں بہت سے سیاح شدید برفباری میں راستہ بند ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گیا تھے۔

سوال نمبر 2۔
ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوا؟

ممکنہ طور پر زندگی کی بازی ہار جانے والے ہیں لوگ شدید ٹھنڈ، بھوک یا آکسیجن کی کمی سے مارے گئے تھے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ لوگ چلتی ہوئی گاڑی میں ہیٹر چلا کر بیٹھے راستہ کھلنے کے منتظر تھے اور گاڑی کا ہیٹر جلا کر سو گئے۔ جس کے بعد گاڑی میں آکسیجن کی کمی یا کاربن مونو آکسائیڈ کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔

سوال نمبر 3۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

اس سنگین حادثے میں ہلاک ہونے والوں سے دلی ہمدردی اور افسوس اپنی جگہ لیکن یقیناً ہر سفر کرنے والے کو اور گاڑی چلانے والے کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اس کی گاڑی میں کیا کیا چیزیں موجود ہیں اور گاڑی کس طرح سے کام کرتی ہے۔ گاڑی میں کون کون سی گیس موجود ہوتی ہیں؟ اور گاڑی کا ہیٹر یا اے سی شدید موسم میں کس طرح کام کرتا ہے؟

بات کرتے ہیں ایک ممکنہ حالت پہ جب گاڑی میں کاربن مونو آکسائیڈ پھیل جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کاربن مونو آکسائیڈ ایک خاموش قاتل گیس ہے جو بند جگہوں پر ایندھن جلائے جانے کے باعث پیدا ہو کر انسان کو پہلے نیند اور پکی نیند سلا دیتی ہے۔ اس گیس کی کوئی بو نہیں ہوتی۔ لہذا عام طور خطرے کی پہچان تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

سوال نمبر 5
اس سے کیسے بچا جائے؟

عقل مند اور بزرگ بتاتے تھے کہ ہوا بند کمرے میں نہ سوئیں۔ لہذا شدید موسم یا برف باری میں جب آپ اپنی گاڑی کہیں بند ہو جائے اور اس انجن یا ہیٹر چل رہا ہو تو گاڑی کے شیشے تھوڑے سے کھلے رکھیں تاکہ باہر سے ہوا اندر آتی رہے۔ یقیناً آپ کو بھی لگتا ہو گا کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو گاڑی تو ٹھنڈ رہے گی اور ہیٹر کا کیا فائدہ۔

اس سے صرف آپ کی گاڑی میں آکسیجن کی کمی میں نہیں ہوگی۔ اور جان ہے تو جہان ہے۔ ورنہ۔ قبرستان ہے۔
سوال نمبر 6
سفر کیسے کریں؟

اپنا سفر، ویک اینڈ یا سیاحتی پلان تیار کرتے ہوئے سب سے پہلے موسم کی صورتحال دیکھیں۔ موسم کے مطابق ہی کپڑوں اور جوتوں کا انتخاب کریں۔ اس کے علاوہ اگر برف باری سے لطف اندوز ہونا ہے تو جسم کو نہ صرف کور کریں بلکہ عام طور پر ایشا میں رائج لباس نہ پہنیں۔ سفر میں کھانے کا سامان اپنے ساتھ رکھنا مت بھولیے جن میں کچھ خشک میوے وغیرہ شامل ہوں۔

جہاں تک ممکن ہوں ایڈونچر سے گریز کریں خاص کر تب جب آپ کی تیاری نہ ہو۔

بچوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے خاص طور پر ان کی لباس اور خوراک کا خیال رکھیں۔ خواتین روایتی اور دیدہ زیب، فراک، ساڑھی، اور بڑی بڑی چادروں کے علاوہ گرم اور آرام دہ لباس منتخب کریں۔

سفر میں بہت زیادہ پانی کا استعمال اگرچہ آپ کو بار بار واش روم جانے کی حاجت سے ہمکنار کر سکتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ پانی آپ کے جسم کو تروتازہ اور خون کو رواں رکھنے میں آپ کی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

اپنے ساتھ کچھ ضروری ادویات رکھنا مت بھولیے لئے ان ادویات میں بخار اور کھانسی کا شربت یا الٹی لگنے کی صورت میں اسے روکنے کی ادویات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو معالج نے کچھ ادویات روزانہ لینے کی تائید کر رکھی ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے پاس سفر کرنے کا مکمل سامان ہونا چاہیے کیونکہ یقیناً آپ یہ سفر اپنے آپ کو بہلانے اور اپنے روزمرہ ماحول سے باہر آنے کے لئے کر رہے ہیں نہ کہ اپنے آپ کو تکلیف دینے کے لیے۔

سفر کا آغاز کرنے سے پہلے اس پاس کی جگہوں اور نقشے کی مدد ضرور لیجیے۔ بے شک آپ اس علاقے سے کئی بار گزر چکے ہوں لیکن اس علاقے کا نقشہ آپ کو یہ بتا سکتا ہے کہ قریبی جگہوں پر آپ کو مدد کہاں سے مل سکتی ہے۔

سفر میں راستہ بند ہو جانے کے باعث، اپنے آپ کو مزید مشکلات سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی گاڑی سے قیمتی سامان نکال لیں اور کسی قریبی گاؤں یا آبادی کا رخ کریں۔ میں بالکل سمجھ سکتی ہوں کہ ایسے میں چلنا بہت مشکل ہے لیکن یقین مانیں آپ کی زندگی سے بڑھ کر اور ناممکن نہیں ہے۔ اور پھر جان دینی ہی ہے تو لڑ کر دیں سو کر نہیں۔

اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے پیدل چلیں تاکہ آپ کے جسم میں خون نہ جانے
کن صورتحال میں ہمیں لوکل کمیونٹی سے مدد کی اپیلیں کرنی چاہیے؟

اگر ہم سانحہ مری کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کئی گھنٹوں تک ٹریفک میں پھنسے رہنے کے باوجود لوگوں نے نے دریا گلی اور رتی گلی کے علاقوں کے لوگوں سے مدد نہیں طلب کی۔ وہاں دوسری طرف موسم کی صورتحال دیتے ہوئے یقیناً گاؤں کے لوگ بھی اوپر سڑکوں کی طرف نہیں آئے ہوں گے۔ جس کی وجہ یقیناً تیز برفباری اور ایک غیر معمولی موسم تھا۔

سوال نمبر 7۔
کمیونٹی سروس یا رضاکارانہ جذبہ کیا ہے؟

یہاں کمیونٹی سروس سے میری مراد یاد وہ جذبہ ہے جس سے لو بلامعاوضہ کے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اس سے انسان کے انسان ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ رضاکارانہ طور پر دوسروں کی مدد کرنا ہم سب کے لیے آسانی لاتا ہے۔

مری تو ویسے بھی سیاحوں کے لیے ایک عجیب جگہ سمجھی جاتی ہے۔ آپ کو BanMuree والا ہیش ٹیگ یاد ہے؟ کیونکہ یہ ایک عام تاثر ہے کہ مری میں لوگ مددگار نہیں ہیں۔ وہیں یہ بات بھی مت بھولیں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔

مری کے لوگوں کے بارے میں ایک عام تاثر ہے کہ یہ لوگ لوگ سیاحوں کو بلیک میل کرتے ہیں ہیں اور ان سے زیادہ کرائے وصول کیے جاتے ہیں۔ بول مری کے حوالے سے ایسی بہت سی معلومات موجود ہے جن میں میں لوکل سیاحوں کو ہراساں کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ خود غرضی کا یہ عالم ہے کہ جب ان لوگوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ مسافر مشکل سے دوچار ہیں تو یہ اپنے ہوٹل کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیتے ہیں۔ جس سے سیاح مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا وہ رات سڑکوں پر گزارے یا اپنی گاڑی میں ہی موجود رہے۔ یہ سانحہ بھی اس لحاظ سے مختلف نہیں تھا۔ اس بار بھی مری میں لوکل ہوٹل مالکان نے نے اپنے کمرے کا کرایہ ہزاروں گنا بڑھا دیے جس کے باعث اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے اپنی گاڑیوں میں موجود رہیں۔

میں یہ سمجھ سکتی ہوں ہو کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہنے والوں کے لیے مری بہت دور نہیں ہے ہے لیکن اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ جب کبھی بھی پہاڑوں پر برف کرے سارا کا سارا شہر مرینہ چلا جائے آئے اس شہر میں کم از کم بیس ہزار گاڑیاں داخل ہونے کی گنجائش ہے ہم نے یہ دیکھا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں چار دنوں سے جاری برف باری کے دوران یہاں لاکھوں گاڑیاں داخل ہوئیں۔

آخری سوال۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتظامیہ نے ایک سانحے سے بچنے کے لیے کیا انتظامات کیے تھے؟

حکومت کہاں تھی؟ واضح کرتا چلوں کہ مری وہ جگہ ہے جہاں پر فوج کے ہر شام میں موجود ہیں ہیں یہاں کیڈٹ اسکول سے لے کر آپ کو آرمی کے تمام ادارے اور گیسٹ ہاؤس اور ریسٹورانٹ نظر آئیں گے۔ مری میں سرکاری رہائش گاہیں بھی موجود ہیں۔

ہم طور پر مری میں انتظامیہ یہ یعنی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ جو کہ ضلع راولپنڈی کے اندر ہے ہے وہاں ایک اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا جاتا ہے اور یہ اسسٹنٹ کمشنر سر عام طور پر دیگر اداروں کے ساتھ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار کرتا ہے۔

بطور صحافی میں نے خود بہت سے اسسٹنٹ کمشنرز کو اسلام آباد، مری، اور راولپنڈی کے دیگر صحافتی اداروں سے کوآرڈینیشن کرتے دیکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ لوگوں سے اپیل کرتے تھے کہ جب زیادہ بارش اور برفباری ہو تو مری کی طرف رخ نہ کریں۔ اس پر اتنی بڑی کوتاہی انتظامیہ سے کیسے ہوئی؟ میڈیا کو آرڈینیشن آخر ٹیوٹر تک کیوں محدود رہی؟

اس سے بڑھ کر کر اس بار ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جمعہ کی رات عام لوگوں کی بات نہ سننے والے، ہفتے کے روز تمام ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اپنی اپنی تصاویر اور اپنے محکموں کی ترویج کرتے ہوئے نظر آئے۔

لیکن سوال یہی ہے کہ جمعہ کی رات بھی سیاحوں کو پھنسے ہوئے بارہ گھنٹے گزر چکے تھے اور انتظامیہ یا شاید برفباری سے محظوظ ہو رہی تھی یا لمبی تان کر سو رہی تھی۔

اور ان سب سے قطع نظر وفاقی حکومت کا بیانیہ بھی سامنے آیا۔ مری میں ڈیڑھ لاکھ سیاحوں کا پہنچ جانا حکومت کی سیاحتی پالیسی کی کامیابی کا علمبردار ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بیس ہزار والے علاقے میں ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں کا پہنچ جانا بھی حکومت کے لیے الارمنگ نہیں تھا؟

آخر میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی یعنی این ڈی ایم اے اے جو ڈیزاسٹر کنٹرول کے حوالے سے کام کرنے کے لئے جانا جاتا ہے۔ ہمیں میں گزشتہ کئی دنوں میں کہیں نظر نہیں آیا۔ مجھ سمیت بہت سے صحافیوں نے این ڈی ایم اے سے اس خاموشی پر سوال اٹھایا کہ یہاں کی انتظامیہ سو رہی ہے یا بہت زیادہ مصروف ہے۔ مگر جواب خاموشی تھا کیونکہ شاید پاکستان میں یہ ہی بہتر ہے۔

حکومت کیوں کہ پاکستان کو ایک سیاحتی ملک بنانا چاہتی ہے تو انہیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ایک سیاحتی ملک میں سیاحوں کو کس کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ اور وہ کون سی چیزیں ہیں جن سے سیاحوں کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے؟

ہوٹلز کی انتظامیہ اور مالکان کو کس طرح سے کنٹرول کرنا ہے اور وہاں پر قیمتوں کا تعین کرنا ہے۔ یہ سب حکومت کی ذمہ داری ہے ہے کوئی باہر سے آ کر نہیں کر سکتا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام آباد سے محض 56 کلومیٹر دور سیاح بے یاروں مدد گار مر جائیں۔

ایسے لگتا ہے کہ 22 لوگوں کی دنیا سے چلے جانے کے بعد اب یہ کہنا فضول ہے ہے کہ فلاں کا شکریہ، فلاں آیا تو یہ ہوا۔ وہ نہ آتے تو شاید ہم بھی مر جاتے۔ کیا بھلا ہوتا کاش کوئی زندگی کی بازی ہارتا اور ہم جاگ جاتے۔ لیکن دل کی تسکین کے لیے ہی سہی، حادثہ تو پھر حادثہ ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments