’صدی کے بحران‘ سے کیسے نجات پائی جائے؟


وزیر اعظم عمران خان کے قومی معیشت کو ’اوپر اٹھانے‘ کے دعوے جاری ہیں اگرچہ تاجروں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ’متنبہ‘ کیا ہے کہ ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہؤا تو ملک کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ عمران خان نے قوم کو یہ وارننگ ایک ایسے وقت میں دی ہے جب قومی اسمبلی میں حکومت کے پیش کردہ ضمنی بجٹ پر اپوزیشن کی تند و تیز نکتہ چینی جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملکی معیشت تباہ کرنے پر عمران خان کی حکومت کو اس صدی کا سب سے بڑا بحران قرار دیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے منی بجٹ اور اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کے بلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط مان کر قومی خود مختاری اور سلامتی کا سودا کیا جارہا ہے۔ انہوں نے اسٹیٹ بنک بل کی ایک شق کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس کے تحت حکومت کو تمام دفاعی اخراجات ایک ہی اکاؤنٹ میں رکھنا ہوں گے۔ اور آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی ادارے ان پر نظر رکھ سکیں گے۔ ان کے نزدیک یہ اقدام قومی سلامتی کے حوالے سے نہایت تشویشناک ہے۔ کیوں کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں دفاعی فنڈز کو ایک ہی اکاؤنٹ میں رکھنے کی روایت نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اندیشہ ظاہر کیا کہ یوں عالمی ادارے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اہم اور خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرسکیں گے۔

پیپلز پارٹی کے چئیرمین کے خیال میں اس منی بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آئے گا اور ملکی معیشت تباہ ہوجائے گی۔ حکومت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ تو اپوزیشن کے ساتھ قومی معیشت پر ڈائیلاگ کے لئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تجویز پر عمل کیا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی مخالفت کو عذر بنا کر آئی ایم ایف کو آگاہ کیا گیا کہ سیاسی پارٹیوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ ایسے کمزور فیصلے نہیں کرسکتی۔ بلاول بھٹو زرداری کا خیال تھا کہ اس طرح حکومت آئی ایم ایف سے رعایت لینے کی کوشش کرسکتی تھی۔ البتہ اس نے اپنے گھمنڈ اور عاقبت نااندیشی کی وجہ سے نہایت غلط معاشی فیصلے کرکے ملکی معیشت کو تباہ کردیا ہے جس کا نتیجہ اب سب کے سامنے ہے۔

حکومتی نمائیندوں نے قومی اسمبلی میں بھی اپوزیشن کی تنقید کو مسترد کیا ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیر اہتمام 14ویں انٹرنیشنل چیمبرز سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وراثتی معاشی بحران، کورونا وائرس کے اثرات اور درآمدی افراط زر کے باوجود تمام معاشی اشاریے بلندی کی جانب بڑھ رہے ہیں‘۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم نے اپنی برآمدات میں اضافہ نہ کیا تو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ وزیرا عظم کا کہنا تھا کہ ملکی برآمدات تاریخ میں پہلی بار 31 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور غیر ملکی ترسیلات زر 32 ارب ڈالر ہو گئی ہیں۔ صنعت کی توسیع ملکی معیشت کے لیے بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کارپوریٹ منافع 9 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ نجی شعبے کی خریداری ایک ہزار 138 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان میں بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں۔

وزیر اعظم ایک طرف معیشت کی خوش نما تصویر پیش کررہےہیں۔ پاکستان کو علاقے کا سب سے سستا ملک قرار دیتے ہیں ، برآمدات و ترسیلات میں ’تاریخی‘ اضافے کی نوید بھی دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ تمام معاشی اشاریے مثبت جانب گامزن ہیں لیکن ایک بار پھرآئی ایف کےسامنے جھولی پھیلانے کی خبر بھی دے رہے ہیں۔ عوام کو چونکہ ان اشاریوں کی سمت کا اندازہ نہیں ہوتا اس لئے وہ ملکی معیشت کو اپنے گھر کے بجٹ اور بازار کی قیمتوں کے ذریعے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اپوزیشن لیڈر منی بجٹ کی صورت میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان کی خبر دیتےہیں تو اس انتباہ کو وزیر اعظم کی خوش گمانیوں کے مقابلے میں زیادہ غور سے سنا جاتا ہے۔ یوں بھی ملک کا وزیر اعظم قومی مسائل اور مہنگائی پر عوام کی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے اس کا بوجھ خود اٹھانے اور ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے جب یہ دعویٰ کررہا ہو کہ یہ مہنگائی ’درآمد شدہ‘ ہے یعنی “حکومت کیا کرے، دنیا میں قیمتیں زیادہ ہو گئیں تو پاکستان میں بھی مہنگائی بڑھ گئی” تو عوام کو کم از کم یہ بات تو سمجھ آ جاتی ہے کہ حکومت سے کوئی توقع نہ رکھی جائے۔

معیشت کے حوالے سے اس متضاد بیانی ہی کے ماحول میں بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’جو کسی اور کے سہارے حکومت بناتے ہیں وہ عوام کی بجائے آئی ایم ایف کی ہی بات مانتے ہیں۔ منی بجٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت معیشت کے معاملے پر ابہام کا شکار ہے۔ اس کا بوجھ غریب عوام کو اٹھانا پڑے گا‘۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین کے اس بیان پر غور کیا جائے تو وہ ملکی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے کردار اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے پر مجبور حکومت کا تعلق قائم کرکے عوام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ملک کو ایسی لاچار حکومت کی بجائے کوئی ایسی حکومت چاہیے جو عوامی نمائندوں کے مشورے سے فیصلے کر سکے اور معیشت کو بحال کرسکے۔ اصولی طور پر تو اس بیان سے کوئی اختلاف ممکن نہیں ہے لیکن عملی سیاسی منظرنامہ پر نگاہ کی جائے تو ’ہتھ جوڑی‘ کے ذریعے حکومت کرنے کے سوا کسی پارٹی کے پاس کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت پر نگاہ ڈالی جائے تو جانا جاسکتا ہے کہ آصف زرداری ’سب کو ساتھ لے کر چلنے‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنی صدارتی مدت اور پیپلز پارٹی کی حکومت کا دورانیہ پورا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ نواز شریف کو البتہ یہ موقع بھی دستیاب نہیں ہوسکا اور ’صادق و امین‘ والی شق نے ان کی آئینی مدت کا سفر سال بھر پہلے ہی ختم کردیا ۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے اور سینیٹ انتخابات کے بعد چئیرمین سینیٹ کے حوالے سے ہونے والی سیاست سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کس حد تک اس ’مشن امپاسیبل‘ کو مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اپوزیشن بظاہر تحریک انصاف کی حکومت کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیتے ہوئے کسی بھی قیمت پر اس کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے لیکن ’پی ڈی ایم‘ کے نام سے بننےوالا اتحاد نامعلوم وجوہات کی بنا پر غیر مؤثر ہوجاتا ہے۔ پھر سینیٹ میں قومی مفاد کے تحفظ کے لئے ہر دھڑا اپنی سی کوشش کرتا دکھائی دیا۔ اب بھی پاکستان جمہوری تحریک مارچ کے آخر میں مہنگائی مارچ کرنا چاہتی ہے لیکن پیپلز پارٹی ایک ماہ قبل ہی لانگ مارچ کے ذریعے موجودہ حکومت کا خاتمہ کرے گی۔ دونوں اہم اپوزیشن جماعتوں کا ایک مقصد تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح موجودہ حکومت کو فارغ کرکے انہیں اقتدار دیا جائے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اس جوڑ توڑ میں عوام کا کتنا حصہ ہوگا اور اسی ’بدنام زمانہ‘ اسٹبلشمنٹ کا پلڑا کتنا بھاری ہوگا جسے بلاول بھٹو زرداری نے آج بھی اپنی تقریر میں عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کے ’سہارے‘ قرار دیا۔ بلاول بھٹو زرداری کس برتے پر یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اپنے اقتدار کے لئے انہی سہاروں کی امید کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی کوئی ممکنہ حکومت کیسے اور کیوں کر آئی ایم ایف جیسے اداروں سے اہل پاکستان کی گلو خلاصی کروا سکے گی؟

اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیشنل پارک کی زمینوں پر قبضہ کے حوالے سے معاملات پر غور کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ کی ایک دلچسپ آبزرویشن سامنے آئی ہے۔ سہاروں کو مسترد کرنے کی خواہش رکھنے والے سیاست دانوں کو ضرور اس پر غور کرنا چاہئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ایک تو یہ واضح کیا کہ اعلیٰ عدالتیں مسلح افواج کو متنازعہ بنانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔ یہ اعلان تو خوش آئند ہے کہ عدلیہ بھی ملکی دفاع و سلامتی کے بارے میں اتنی ہی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے جیسا کہ فوج کے ترجمان یا سیاستدان کرتے رہتے ہیں۔ تاہم ان کے تبصروں کا وہ حصہ ملک کو درپیش مسائل کی بنیاد کی طرف اشارہ کررہا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’ملک کی مسلح افواج خود مختار ادارے نہیں ہیں بلکہ وزارت دفاع کے تحت کام کرنے والے شعبہ جات ہیں‘۔

یوں تو کسی بھی سطح پر اس بات کی کوئی خاص وضاحت کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ ملک میں موجودہ دستوری انتظام میں تین ہی ادارے آئینی حیثیت رکھتے ہیں: مقننہ، حکومت اور عدلیہ۔ لیکن اس ملک کی کم از کم چار نسلیں پاک فوج کو ادارہ پڑھتے اور سنتے جوان یا بوڑھی ہوئی ہیں۔ ایک وزارت کی نگرانی میں کام کرنے والے ایک شعبہ کو دی گئی اسی غیر ضروری اہمیت کے باعث اختیار و اقتدار کی سرحدوں کو گڈ مڈ کردیا گیا ہے۔ جب تک یہ واضح نہیں ہو گا کہ مسلح افواج ملک کی ایک وزارت کا شعبہ ہے ، کوئی خود مختار قومی ادارہ نہیں ہے جسے ہر قومی معاملہ میں براہ راست ملوث کرنے کی کوشش کی جائے یا وہ خود ہی قومی مفاد کا چمپئن بن کر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ اس الجھن کو مزید مشکل بنانے میں ملکی عدلیہ نے بھی کردار ادا کیا ہے لیکن اب اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ہی اس آئینی نکتہ کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ مسلح افواج کی حیثیت ایک وزارتی محکمہ یا شعبہ سے زیادہ نہیں ہے۔

قومی شعور سے ’فوج ایک ادارہ ‘ کا تاثر محو کئے بغیر ملک میں عوامی بالادستی کا خواب مکمل ہونا ممکن نہیں۔ کیا توقع کی جائے کہ قومی اسمبلی میں حکومت پر قومی خود مختاری کا سودا کرنے کا الزام لگانے والے اپوزیشن لیڈر جسٹس اطہر من اللہ کے اس بیان پر غور کریں گے اور قومی سیاست میں اس پر عمل کی اہمیت تسلیم کی جائے گی۔ اسی طرح سیاسی پارٹیاں حکومت سازی کے لئے سہارے تلاش کرنے سے باز رہیں گی اور ملک کو درپیش ’صدی کے بحران‘ سے نکالا جا سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2786 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments