سیاستدان بھی عوام کے ملازم ہیں، مالک بننے کی غلطی مت کریں


پاکستان میں سات جنوری کو مری میں برفباری میں پھنسے 22 سیاح جن میں بچے، بڑے شامل تھے، بروقت مدد نا ملنے کے باعث اپنی جانوں کی بازی ہار گئے۔ اس اندوہناک سانحہ کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ اور مایوسی پائی جا رہی ہے۔ لوگ نا صرف حکومت کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ بلکہ مری کے مقامی لوگوں کی لوٹ مار سے بھی لوگوں کے اندر غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

مری سانحہ جس جگہ پر پیش آیا وہ مری سے تھوڑا دور کلڈنہ کا علاقہ ہے۔ جو کہ سنگل شاہراہ ہے۔ جس کا ایک حصہ غیر آباد جنگلات پر محیط ہے۔ اور 7 جنوری جمعہ کی شام اس سنگل روڈ پر آمنے سامنے سے آتی گاڑیوں میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی وجہ سے ٹریفک بدنظمی کا شکار ہو گئے۔ اور ٹریفک جام ہو گئی۔

یہ سب واقعات کلڈنہ چوک پر آباد ہاؤسنگ سوسائٹی کے لوگوں نے بتایا کہ بہت سارے لوگوں کو مقامی لوگ اپنے گھروں کو بھی لے گئے تھے۔ ٹریفک جام ہونے کے بعد تیز برفباری کے باعث گاڑی کا نکل پانا یا ان کی مدد کر پانا مشکل ہو رہا تھا۔

مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ گاڑی میں موجود لوگوں نے اپنی گاڑیاں چھوڑ کر جانے سے انکار کر دیا تھا۔ کہ برفباری رک جائے تو ہم نکل جائیں گے۔ وہاں پر مقامی انتظامیہ نے آ کر سب کو کہا کہ ٹریفک جام ہو چکی ہے۔ اور ابھی ٹریفک کھولنے کا کوئی چانس نہیں اپ لوگ اپنی گاڑیاں یہی چھوڑ دیں۔ اور محفوظ مقامات تک پہنچیں، اس سے پہلے بہت زیادہ اندھیرا ہو جائے۔

سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد میں نے چند ایک سے رابطہ کیا اور سوچا کہ کیوں نا کسی ایسے شخص سے ساری تفصیل لی جائے۔ جس نے نے یہ سب اپنی انکھوں سے دیکھا ہو۔

جس کسی بھی ویڈیو دیکھتی تو ان سے ڈی ایم میں پوچھتی اپ وہاں موجود تھے۔ آخر کار ایک ایسا نوجوان مجھے مل ہی گیا جو نا صرف وہاں موجود تھا بلکہ اس نے وہاں پر موجود لوگوں کی مدد بھی کی تھی۔

ایک مقامی نوجوان شیر زمان نے بتایا کہ ایک عجیب قسم کی افراتفری پھیل گئی تھی۔ میں اور میرے کچھ دوست یہ سارا منظر اپنی انکھوں سے شام تک دیکھتے رہے۔ ہم نے چھ لوگوں کو نکال کر محفوظ مقام تک بھی پہنچایا۔

اندھیرا ہو رہا تھا۔ اور بجلی بھی نہیں تھی۔ پھر رات 8 بجے کے بعد برفانی طوفان انا شروع ہو گیا۔ جس میں آہستہ آہستہ تیزی آتی جا رہی تھی اور پھر یہ طوفان اتنا شدید ہوا کہ کسی کے لئے بھی باہر کھڑے رہ پانا ناممکن ہو گیا تھا۔

سب نے اپنے اپنے گھروں کی طرف رخ کر لیا۔ پھر رات وہاں کیا ہوا وہ رب ہی جانتا ہے۔ گھر پہنچنے پر وہاں پر پھنسے لوگوں کا خیال تو آیا، لیکن میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے اٹھ کر اپنے دوستوں کے ساتھ اسی مقام پر پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں وہاں پر آرمی اور ریسکیو والے موجود تھے۔ جو گاڑیوں کو وہاں سے سائیڈ پر کر رہے تھے۔ تو کچھ لوگ گاڑیوں کے دروازے کھول کر اندر موجود لوگوں کی خیریت جاننے میں لگے تھے۔

کچھ لوگ چیخ رہے تھے، توبہ استغفار پڑھ رہے تھے۔ پھر ہمیں کسی نے زوردار آواز دی۔ بھائی ادھر او ہماری مدد کرو۔ اس گاڑی میں ساری فیملی فوت ہو گئی ہے۔ ہم نے اس چھوٹی گاڑی ( غالباً ایف ایکس) سے بچوں سمیت پانچ ڈیڈ با ڈیز کو نکالنے میں مدد کی اور انھیں قریب کے آرمی لاجسٹک سکول رکھ دیا۔

جہاں انتظامیہ اور حکومت کی نا اہلی پر سخت تنقید ہو رہی تھی۔ وہاں دوسری طرف سوشل میڈیا پر مری بائیکاٹ کے ٹرینڈ چلائے جا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر مقامی لوگوں سے متعلق اور وہاں کی لوکل ہوٹل مینجمنٹ سے متعلق سفاک حقائق بھی سامنے آ رہے تھے۔

کہا جا رہا تھا ایک ابلا ہوا انڈا تین سو روپے میں بیچا جا رہا تھا۔ ہوٹل کے ایک کمرے کا کرایہ چالیس سے پچاس ہزار تک لیا جا رہا تھا۔ ایک سیاح نے یہاں تک بھی کہا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے تو مجھے اپنی بیوی کی جیولری بھی دینی پڑی۔

سیاحوں نے بتایا کہ ہماری گاڑیوں کو دھکا لگانے پندرہ سو سے دو دو ہزار لئے گئے۔ اس واقعے کی تصدیق راولپنڈی پولیس کی ایک ٹویٹ سے بھی ہوئی کہ مشتبہ شخص جان بوجھ کر سڑکوں پر برف پھینکتا تھا۔ جب گاڑیاں پھنس جاتیں تو وہ اپنی جیپ کی مدد سے گاڑی کو کھینچنے کے بدلے میں ایک خاص رقم مانگتا۔ اسے گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔

مری کے اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے سوشل میڈیا اور مری کنٹرول روم میں موصول ہونے والی شکایات پر کارروائی کرتے ہوئے کچھ ہوٹلز بھی سیل کر دیے گئے ہیں اور سیل کیے گئے ہوٹلز ابوظہبی روڈ، کلڈانہ روڈ، اپر جھیکا گلی روڈ اور بینک روڈ پر واقع ہیں۔

اب یہ سب کچھ 22 لوگوں کی جان چلے جانے کے بعد ہو رہا ہے۔ کیا وہاں کی انتظامیہ کو نہیں پتہ ہر سال برفباری ہوتی ہے۔ کیا انھیں نہیں پتہ پاکستانیوں کے لئے یہی ایک مقام سب سے قریب ہے۔ اور ہر سال ان سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہونا ہے کم تو ہونا نہی۔

ہم اس حکومت پر سارا الزام دھرنے کی بجائے کیا ہم نے پچھلی حکومتوں سے پوچھا؟ آپ یہاں کے لئے کون سی مشنری چھوڑ کر گئے؟ اپ لوگوں نے ایسے کون سے کام سیاحوں کی آسانیوں کے لئے تھے؟

کیا اپ لوگوں کا کام صرف اور صرف اپنی حکومتوں میں یہاں پر اپنے ہوٹلز کی تعداد ہی بڑھانا تھا؟ نواز شریف صاحب کا محل مری میں سابق وزیراعظم خاقان عباسی کا یہ حلقہ ہے ان کے اپنے یہاں پر چھ بنگلے ہیں۔ انھوں نے کیا قوم کو بتایا انھوں نے ایسے کون سے عظیم کام کیے تھے اپنے علاقے یا سیاحوں کو سہولیات دی ہوں؟
لوٹیں یہ عوام کو اپنی جائیدادیں یہ بنائیں راج یہ کریں اور نقصان صرف اور صرف عوام کے حصے میں؟

اپنی ناکامیوں کو فوج پر ڈال دیں۔ کیونکہ فوجی جوانوں کی سیاحوں کی مدد کرتے ہوئے کی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہو گئیں؟

ان سیاحوں کی مدد کر نا فوجی جوانوں کا کام نہیں تھا۔ یہ سیاستدانوں اور حکومتی انتظامیہ اور ان کے اداروں کا کام ہوتا ہے۔ ہمارے فوجی بھائی اپنے سویلین بہن، بھائیوں کو مشکل میں دیکھ کر کب تک اپنی بیرکوں میں بند رہ سکتی ہے۔ وہ تو نہیں کہتے کہ ہم آپ کی مدد کر کے کوئی احسان کر رہے ہیں۔ لیکن جب اپ سیاستدان یا آپ کے سپورٹرز انھیں گالی دیں گے ان کی مدد کو فوٹو سیشن کہیں گے تو مجھ سمیت اپنی پاک آرمی سے محبت کرنے یہ اپ سے سوال ضرور پوچھے گا۔

کیا اپ سب سیاستدان بھی عوام کے ٹیکس پر نہیں پلتے؟ پھر اپ عوام کے لئے بنائی گئی سڑکوں اور پلوں پر تختی لگا کر کون سے کارنامے کی بات کرتے ہو۔ کیا یہ پیسہ پاکستان کے ٹیکس پیئرز کا نہیں لگایا جاتا؟ جن پر منصوبوں پر اپ اپنے نام کی تختی لگاتے ہیں کیا وہ آپ کے باپ کا پیسہ ہوتا ہے؟

اپ بھی عوام کے نوکر اور خادم ہیں۔ عوام اپ پر یقین کر کے آپ کو کسی منصب پر بٹھاتے ہیں۔ اگر آپ اس منصب سے انصاف نہیں کرو گے تو اٹھا کر باہر پھینکنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔
اپ بھی ملازم ہیں اوقات میں رہیے۔ مالک بننے کی غلطی مت کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments