آج کے دور کا سب سے بڑا سوال: کیا اورل سیکس جائز ہے؟


ہم آج جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے دور میں جی رہے ہیں، ہینس لپرشی کے لینز سے شروع ہونے والا یہ سفر گلیلیو کی ٹیلی سکوپ تک پہنچا پھر نیوٹن تک پہنچا اس کے بعد ایڈون ہبل نے ٹیلی اسکوپ کی دنیا میں ایک لمبی جست لگا کر ”ہبل ٹیلی سکوپ“ متعارف کروائی جس سے کائنات کی سب سے اعلیٰ بات کا پتہ چلا کہ ہماری کائنات آہستہ آہستہ پھیل رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی کامیابی کے بعد کیا ایک اور ٹیلی سکوپ کی ضرورت تھی؟

کائنات کے کھوجیوں نے اس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تقریباً تیس سال کے پراسس کے بعد حال ہی میں جیمز ویب کو بھی خلا کے سپرد کر دیا۔ دراصل ٹیلی سکوپ کا سفر انسان کے ذہنی ارتقاء کا سفر ہے اور سیکھنے والوں کے لئے وقت سب سے بڑا محرک اور استاد ہوتا ہے جو اپنی ایجاد کردہ چیزوں اور سوچوں کو مزید سے مزید ”فائن ٹیون“ کرتے رہتے ہیں اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ تک کا سفر بھی انسانی سوچ کی ”فائن ٹیوننگ“ کا ہی سفر ہے جو آسمانی نظام اپنے انتہائی قریب لا کر ایک ایک راز کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

ایک طرف کائناتی رازوں کو ڈی کوڈ کرنے کا سفر جاری ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے علماء دین اکیسویں صدی میں اس بات پر الجھ رہے ہوتے ہیں کہ کیا اورل سیکس جائز ہے؟ ”ختم نبوت فورم پر مفتی سید مبشر رضا انجینئر محمد علی مرزا کی ایک بات کا ریفرنس دے رہے تھے جس میں کسی نے مرزا صاحب سے سوال کیا تھا کہ کیا اورل سیکس جائز ہے؟ اس سوال کے جواب میں انجنیئر کا کہنا تھا کہ چونکہ قرآن حدیث میں اورل سیکس کی کوئی ممانعت نہیں ہے اس لیے اگر کوئی یہ کام کرتا ہے تو یہ اس کی ذاتی چوائس ہے“ ۔

مفتی مبشر انجینئر کے اس جواب کا کچھ اس انداز میں مذاق اڑا رہے تھے کہ انہوں نے سکرین پر دو کتے دکھائے اور مفتی مبشر نے اس تصویر کو جہلم کے ایک مرزا اور ربوہ کے ایک مرزا سے جوڑا۔ اب اس ذہنیت کو آپ کیا نام دینا چاہیں گے فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں مگر اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چینل پر مرزا انجینئر کے ایک پیروکار اور مفتی مبشر کے درمیان اورل سیکس کے متعلق کراس ٹاک چل رہی تھی اور وہ مفتی مبشر سے صرف یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ اورل سیکس کے خلاف کوئی حوالہ پیش کردیں۔

حوالہ تو خیر انہوں نے کیا دینا تھا مگر اپنی لچھے دار وضاحت سے پورا زور لگا کر یہ ثابت کر دیا کہ یہ مغرب کا ملعون کلچر ہے جسے مرزا انجینئر جیسے لوگ پرموٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قرون وسطیٰ میں ”شیخ وقت، حکیم الامت اور غزالی دوراں“ جیسے القابات کا سحر ابھی تک ان کے سروں سے نہیں اترا اور شعور کی اس بالغ صدی میں بھی ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ہر فیلڈ کے بادشاہ ہیں اور ہمارے پاس ہر قسم کے مسئلے کا حل موجود ہے اور لوگوں کو رہنمائی کے لئے ہم سے ہی رجوع کرنا چاہیے۔

ان کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ گوگل کے اس دور میں سب کچھ کلک بٹن کے فاصلہ پر موجود ہے اور آپ کا ارشاد فرمایا ہر جملہ چند سیکنڈ میں گوگل اس کی اصلیت کو کھول کر رکھ دیتا ہے اور گوگل کی طاقت سے آشنا یہ آج کی نسل آپ کا ”علمی قد“ ناپنے کے لیے جان بوجھ کر آپ سے ایسے سوالات پوچھتے ہیں جس کا آپ کی فیلڈ سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہوتا۔ مگر عزت افزائی اور سکرین کا مزا انجوائے کرنے کے لئے علماء ایسے سوالوں پر ایکسپرٹ رائے دینے میں لگے ہوتے ہیں جس کے متعلق ان کا علم زیرو ہوتا ہے۔

ہر معاملہ میں ناک گھسیڑنے کا یہ جو آپ کا رویہ ہے یہ آپ کو دن بدن مضحکہ خیزی کی طرف لے کر جا رہا ہے مگر آپ کو اس بات کا ادراک بالکل نہیں ہے۔ مفتی مبشر کی اورل سیکس سے شروع ہونے والی یہ گفتگو سیکس کرنے کے تمام مراحل سے گزر کر پستان چوسنے تک پہنچ گئی سوچتا ہوں مغرب میں بیٹھا کوئی بندہ مسلمان ہونے کے سفر کے دوران یہ ویڈیو سن لے تو کیا نتیجہ نکالے گا؟ جن کا ٹالرینس لیول اس قدر مضحکہ خیز ہو کہ وہ اپنے ہی ہم مذہبوں کو نیچا دکھانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہوں تو وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے ایک مثبت رول ماڈل بن سکتے ہیں؟

کہتے ہیں کہ جب بغداد تاراج ہوا تھا تو اس وقت بھی یہ لوگ اسی قسم کی بحثوں میں الجھے رہتے تھے کہ ”مسواک کا سائز کتنا ہونا چاہیے یا داڑھی کا سائز کتنا ہونا چاہیے“ وغیرہ اور اپنے سر پر منڈلاتے خطرات سے بالکل لاعلم تھے اور اپنے عصر سے بے خبر ہونے کی ایک بھاری قیمت انہیں چکانا پڑی اور اسی جہالت کی کڑیاں ہم آج بھی اپنے علماء میں دیکھ رہے ہیں۔ اگرجیمز ویب کو مختلف فرقوں کے مدارس میں آبزرویشن کے لیے چھوڑا جائے تو یقین مانیں ہمیں اسی قسم کی بحثیں ملیں گی جو یہ اپنے اپنے مخصوص فرقوں کے دائروں کو تحفظ دینے کے لیے شروع سے کرتے آرہے ہیں۔

اس سے زیادہ مضحکہ خیزی والی بات کیا ہوگی کہ ہمارے مذہبی پیشوا لوگوں کو یہ بتانے میں مصروف ہوں کہ بیوی کے ساتھ ہمبستری کیسے کرنی چاہیے اور اورل سیکس کے کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ جب آخر میں مفتی مبشر نے مرزا انجینئر کے پیروکار سے یہ پوچھا کہ اورل سیکس کی ممانعت موجود نہیں ہے تو پھر کیا تم اس عمل کو جائز سمجھیں گے؟ اس کے جواب میں اس کا کہنا تھا کہ یہ میاں بیوی کا نجی معاملہ ہے اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

بس یہ جملہ سنتے ہیں مفتی صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور مشورہ دے ڈالا کہ جب تم شادی کرو تو اپنے سسر کو پیشگی بتا دینا کہ میں تمھاری بیٹی کے ساتھ اس قسم کی بے ہودگی بھی کروں گا۔ لیں جناب یہ ہے پیمانہ صبر جو یہ ایک دوسرے کے فرقوں کے متعلق رکھتے ہیں اور ہر قسم کی اخلاق سے گری ہوئی بات کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ہمارے معاشرتی زوال کی بس اتنی سی کہانی ہے کہ ہم اپنے عصر سے بے خبر ہو کر بطور صارف کفار کی نعمتوں سے سیراب ہو رہے ہیں اور کفار کائناتی رازوں سے چھیڑ خانی میں مصروف ہیں اور قدرت کے بالکل قریب جانے کی جستجو میں لگے ہیں اور انہوں نے 25 دسمبر کے دن انسانیت کے نام یہ تحفہ کر دیا۔ یاد رہے کہ جیمز ویب کے پیچھے حقیقی صوفیوں کی تیس سالہ محنت کی انویسٹمنٹ ہے اور یہ کائنات کے چپے چپے میں گھس کر حقیقی قدرت کو ایک دن کھوج نکالیں شاید اس وقت بھی ہم اسی قسم کی بحثوں میں الجھے ہوں گے کہ کیا اورل سیکس جائز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments