حافظ سعید اور جماعت الدعوہ پر مقدمات


میں روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد کا چیف رپورٹر تھا۔ روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی بقید حیات تھے۔ دورہ اسلام آباد کے دوران انہوں نے روزنامہ نوائے وقت کے رپورٹرز سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جوں میٹنگ شروع ہوئی تو انہوں نے پہلا سوال حافظ محمد سعید کی جیل سے رہائی کے بارے میں کیا اور کہا کہ ”جس صحافی نے آج تک حافظ محمد سعید کی زیارت نہیں کہی وہ جائے ان کی زیارت کرے“ مجھے جناب مجید نظامی کی جانب سے حافظ محمد سعید بارے ”زیارت“ کے الفاظ پر حیرت ہوئی

میں نے انہیں بتایا کہ میرا حافظ محمد سعید سے قریبی رابطہ رہتا ہے۔ ان سے گاہے بگاہے ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں جناب مجید نظامی حافظ محمد سعید کو دور حاضر کا ولی تصور کرتے تھے جب کبھی حافظ محمد سعید بارے کوئی کالم لکھتا تو جناب مجید نظامی اسے حافظ صاحب کی تصویر کے ساتھ بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کرتے جب تک حافظ محمد سعید کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان پر عالمی سطح پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ وہ کھلے بندوں پاکستان میں رفاہی کام کر رہے تھے۔ اچانک ان پر ایف اے ٹی ایف کا دباؤ بڑھا تو نہ صرف حافظ محمد سعید کو ناکردہ گناہوں کی سزا دے کر جیل بھجوا دیا گیا بلکہ ان کی پوری جماعت کو کالعدم قرار دے کر رفاہی کام کرنے سے روک دیا گیا اور جماعت الدعوۃ کے زیر انتظام چلنے والے تمام اداروں کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا عوام کے کروڑوں روپے کے فنڈز سے چلنے والے ادارے بند ہیں جب لشکر طیبہ پر پابندی نہیں تھی۔

اس کے زیر اہتمام آب پارہ چوک میں آزادی کشمیر کے سلسلے میں بہت بڑا اجتماع ہوا جس میں مجھے صدر نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی حیثیت سے خطاب کی دعوت دی گئی تو میں نے بھی کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف زور دار تقریر کی اور کہا کہ ”جس قوم میں حافظ محمد سعید جیسے لیڈر موجود ہوں وہ اپنی منزل کو پا لیتی ہے۔“

لشکر طیبہ اور تحریک حریت کشمیر کے کارکنوں کے ہمراہ بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے مظاہرے کرنے اور دھرنے دینے کے ”جرم“ میں اس وقت کے وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین کے ہمراہ جانے والے وفد میں سے صرف مجھے بھارت کا ویزا دینے انکار کر دیا گیا جس پر مجھے فخر ہے۔ اب جب کہ حافظ محمد سعید جیل میں ہیں۔ ان کے شعبہ نشرو اشاعت کے سربراہ یحییٰ مجاہد بھی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس وقت پوری جماعت الدعوۃ زیر عتاب ہے۔ ان پر طرح طرح کی الزام تراشی کی جا رہی ہے۔ حافظ محمد سعید کو ”مافیا“ کا سربراہ قرار دینے والے افراد کی خدمت میں جواب پیش کر رہا ہوں جس سے حافظ محمد سعید کا صحیح تشخص ابھر کر سامنے آئے گا۔

امام ابن تیمیہؒ سے کسی نے پوچھا کہ فتنوں کے دور میں حق کی پہچان کیسے ہوگی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ باطل کے تیروں کا رخ جس جانب ہو سمجھ لو وہ حق ہے۔ امام ابن تیمیہ ؒ کے اس ایک جملے پر غور کر لیا جائے تو ساری بات سمجھ آجاتی ہے۔ آج امریکہ، برطانیہ، بھارت اور اس جیسی قوتیں حافظ محمد سعید کی مخالف کیوں ہیں؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان میں ان کے مذموم ایجنڈوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را اور بعض دوسری ملک دشمن ایجنسیوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ بلوچستان، سندھ اور دیگر علاقوں میں علیحدٰگی کی تحریکوں کو پروان چڑھایا جائے۔

اس کے لئے ان کی جانب سے کروڑوں ڈالر خرچ کیے جاتے رہے اور عوامی سطح پر گمراہ کن پروپیگنڈے کر کے عام لوگوں کے ذہن خراب کیے گئے لیکن یہ جماعت الدعوۃ ہی ہے جس کے کارکنان نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر زلزلوں، سیلاب اور دوسرے مواقع پر ان علاقوں میں جا کر لوگوں کی خدمت کی جہاں پاکستان کا پرچم لہرانا اور اس کا نام لینا بھی جرم سمجھا جاتا تھا اگرچہ یہ کام بہت مشکل تھا اور اس کے لئے جماعت الدعوۃ کے کارکنان نے شہادتیں بھی پیش کیں لیکن دور دراز کے ان علاقوں میں کنویں کھدوانے اور صحت و تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں نے بے لوث خدمات کے سبب جماعت الدعوۃ کی دعوت پر لبیک کہا، بہت سے علیحدگی پسندوں نے ہتھیار ڈالے اور اس وقت حالات یہ ہیں کہ ان علاقوں میں ہر سال پاکستان کا یوم آزادی اسی طرح منایا جاتا ہے جس طرح ملک کے دیگر علاقوں میں سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے منایا جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی لیڈر راجہ ظفر الحق نے اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کئی سال قبل یہ کہا تھا کہ ”جماعت الدعوۃ کی رفاہی و فلاحی سرگرمیوں سے علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ رہی ہیں۔“ ، حقیقت ہے کہ آج ان کے یہ جملے بالکل درست ثابت ہوئے ہیں۔

پاکستان میں خود کش حملے، تخریب کاری اور دہشت گردی شروع ہوئی تو ان دہشت گردانہ حملوں کے خلاف سب سے پہلے حافظ محمد سعید نے آواز بلند کی اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ خودکش حملے جہاد نہیں فتنہ ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب کوئی مذہبی و سیاسی لیڈر خوف کے مارے خودکش حملوں اور اس دہشت گردی کے خلاف بات تک کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت نے ملک کے کونے کونے میں جا کر اس حوالے سے کلمہ حق بلند کیا اور فتنہ تکفیر اور خارجیت کے حوالے سے نوجوان نسل کی صحیح معنوں میں رہنمائی کی گئی۔

اس حوالے سے درجنوں کتابیں اور چھوٹے کتابچے شائع کر کے انہیں ملک بھر میں پھیلایا گیا۔ گویا کہ اس سلسلہ میں نظریاتی اور فکری محاذ پربھی جماعت الدعوۃ نے شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ اس مہم کا بہت بڑا فائدہ خود جماعت الدعوۃ کو بھی ہوا کہ اس کے کارکنان تکفیر اور خارجیت کے فتنہ سے دوچار نہیں ہوئے ورنہ دوسری کئی مذہبی جماعتوں کے نوجوان اس فتنہ کا شکار ہو کر تکفیری گروہوں میں شامل ہوئے اور دہشت گردی میں ملوث پائے گئے۔

ملک میں فرقہ واریت اور اس بنیاد پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے بھی جماعت الدعوۃ کا کردار لائق تحسین ہے۔ حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت نے ہمیشہ اتحاد امت کی بات کی اور ملک کو فرقہ واریت کی لعنت سے نجات دلانے کی عملی کوششیں کی ہیں۔ تحریک حرمت قرآن اور تحریک حرمت رسول؟ ہو یا دفاع پاکستان کونسل، جماعت الدعوۃ نے ملک بھر کی مذہبی و سیاسی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح ملی یکجہتی کونسل ہو، ملی مجلس شرعی یا کوئی اور مشترکہ پلیٹ فارم، جماعت الدعوۃ نہ صرف اس میں شامل رہی ہے بلکہ آگے بڑھ کر ملک میں اتحاد و اتفاق کا ماحول پیدا کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ حافظ محمد سعید اور ان کی تنظیم کا یہی وہ کردار ہے جس کی بنیاد پر پوری پاکستانی قوم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور جماعت الدعوۃ کو اتحاد امت کی داعی جماعت سمجھا جاتا ہے۔ اہل حدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتوں میں سے جماعت الدعوۃ کے علاوہ کسی اور کو یہ ممتاز مقام حاصل نہیں ہو سکا۔

دنیا اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جماعت الدعوۃ ایک پرامن مذہبی، رفاہی و فلاحی جماعت ہے جس کے کارکن ملک میں کسی منفی سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں۔ اس جماعت کی زیر قیادت لاہور سے اسلام آباد اور دوسرے علاقوں کی جانب تاریخی لانگ مارچ ہوئے جن میں بلاشبہ لاکھوں لوگ شریک ہوتے رہے مگر کبھی کوئی فرقہ وارانہ نعرہ نہیں لگا، کبھی کسی قسم کی توڑ پھوڑ نہیں ہوئی اور سڑک پر لگے کسی بورڈ تک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران سابق وزیر داخلہ معین الدین حیدر نے برملا اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ”جماعت الدعوۃ کے کسی کارکن کے خلاف پاکستان بھر میں ایک بھی مقدمہ نہیں ہے۔“ ۔

یہی بات دیگر حکومتی ذمہ داران بھی کہتے رہے ہیں اور اس چیز کا واضح ثبوت ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ جب ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر حافظ محمد سعید و دیگر رہنماؤں کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کیا گیا اور پورے ملک میں جماعت الدعوۃ کی سینکڑوں ڈسپنسریاں، ایمبولینسیں، ہسپتال، سکول، کالج اور دوسرے ادارے سرکاری تحویل میں لئے گئے تو ملک کے کسی شہر اور علاقے میں ایک پتہ تک نہیں ٹوٹا اور جماعت الدعوۃ کے کارکنان نے کسی قسم کا پر تشدد احتجاج اور توڑ پھوڑ نہیں کی۔

جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید اور دوسرے رہنماؤں کو ماضی میں بھی جب کبھی گرفتار کیا گیا انہوں نے ہمیشہ عدالتوں کا رخ کیا اور قانونی جنگ لڑ کر اپنا حق حاصل کیا ہے۔ اس وقت بھی جب اے ٹی سی کورٹ کی طرف سے انہیں سزائیں سنائی گئی ہیں۔ وہ لاہور ہائی کورٹ میں اپنے مقدمات لڑ رہے ہیں اور قانونی تقاضوں پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

مضمون نگار ابھی طالب علم دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی معلومات درست کریں۔ کشمیر کی تحریک میں جو قربانیاں حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت نے پیش کی ہیں۔ کسی اور نے نہیں کیں۔ یہ ان کی قربانیاں ہی ہیں کہ آج مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کے اجتماعات ہوتے ہیں تو مقامی کشمیری حافظ محمد سعید سے رشتہ کیا، لا الہ الا اللہ کے نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیدہ آسیہ اندرابی تو انہیں کشمیریوں کے لیے محمد بن قاسم قرار دیتی ہیں۔ پاکستان کا یوم آزادی ہو، یوم دفاع یا کوئی اور اہم موقع مقبوضہ کشمیر کے چوکوں و چوراہوں میں پاکستانی پرچم لہرانے کے ساتھ ساتھ ان کی تصاویر ایسے ہی نہیں لگائی جاتیں؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت نے تحریک آزادی میں جان و مال کی قربانیاں پیش کی ہیں۔

اقوام متحدہ، امریکہ اور دوسرے ملکوں و اداروں کی طرف سے جماعت الدعوۃ پر پابندیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ تنظیم اور جماعت، اسلام و پاکستان کے دفاع کی خاطر صحیح کام کر رہی ہے ورنہ ملک میں فرقہ واریت اور عصبیتیں پھیلانے والی تنظیموں سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ ان کی سرگرمیاں دیکھ کر انہیں خوشی ہوتی ہے اور ایسی جماعتوں کو پروان چڑھانے کے لیے وہ پیسہ خرچ کرنے کے لئے بھی تیار رہتے ہیں۔

کہتے ہیں۔ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو، آپ ملک میں جس شہر اور علاقے میں چلے جائیں جماعت الدعوۃ کی رفاہی و فلاحی سرگرمیوں کی لوگ گواہی دیں گے۔ زلزلے، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے موقع پر جماعت الدعوۃ نے جو تاریخی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی گواہی تو دشمن قوتیں بھی دیتی ہیں اور یہی اقوام متحدہ جس نے جماعت الدعوۃ پر پابندیاں لگائی ہیں۔ زلزلہ کے موقع پر امدادی سامان کی تقسیم کے لئے، اس ادارے یعنی اقوام متحدہ کی جانب سے اسی جماعت کے رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئیں اور پھر بعد ازاں انہیں تعریفی اسناد بھی دی گئیں لیکن جب بھارت نے حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت کے خلاف غلیظ پروپیگنڈا شروع کیا اور بے سروپا الزامات لگائے گئے تو اقوام متحدہ نے بھارت و امریکہ کے کہنے پر جماعت الدعوۃ پر پابندیاں لگا دیں۔

جماعت الدعوۃ اور اس کی قیادت پر دشمن ملک بھارت کی طرف سے جتنے بھی الزامات لگائے گئے وہ سبھی غلط ثابت ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی اپنے فیصلوں میں واضح طور پر قرار دے چکی ہیں کہ جماعت الدعوۃ ایک پرامن رفاہی و فلاحی تنظیم ہے جس کا کسی قسم کی منفی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ ان پر جتنے بھی الزامات لگائے گئے ہیں۔ سب بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں پر مبنی ہیں۔ جماعت الدعوۃ اگر اہل حدیث مسجدوں پر قبضے کر رہی ہوتی تو آج ملک میں نقشہ کچھ اور ہوتا اور اسے عوامی سطح پر یہ ہمدردیاں کبھی حاصل نہیں ہوتیں۔ دوسری اہل حدیث جماعتوں کی نسبت سبھی مکاتب فکر میں جماعت الدعوۃ کی عزت، احترام اور مقبولیت کی وجہ ہی یہ ہے کہ حافظ محمد سعید کی قیادت میں اس جماعت نے اس قسم کی سرگرمیوں میں کبھی حصہ نہیں لیا اور دوسروں کو بھی فرقہ واریت سے ہٹ کر دعوت دین اور خدمت خلق کا کام کرنے کی ترغیب دی ہے۔

حافظ محمد سعید ایک ایماندار، سچے پاکستانی، علم اور تعلیم دوست شخصیت ہیں۔ ان کی قیادت میں جہاں سینکڑوں رفاہی و فلاحی منصوبہ جات چلائے جاتے رہے اسی طرح ملک کے طول و عرض میں سینکڑوں سکول اور کالج بھی بنائے گئے جہاں بڑی تعداد میں طلباء زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں اور مختلف شہروں میں سالانہ امتحانات میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کرتے آرہے ہیں۔ انہوں نے خود بھی لاہور کی انجینئر نگ یونیورسٹی میں پچیس سال تک پڑھایا اور شعبہ اسلامیات کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں ان کے شاگرد ہیں جو اس وقت سیاست، صحافت، تعلیم اور دوسرے شعبہ جات میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

جھوٹے الزامات تو کوئی بھی کسی پر بھی لگا سکتا ہے لیکن میڈیا اگر حافظ محمد سعید اور جماعت الدعوۃ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو یہ ان کی رفاہی و فلاحی سرگرمیوں اور فرقہ واریت سے الگ رہتے ہوئے دین کی خدمت کرنے کی وجہ سے ہے اور یوں بھی یہ بات حقیقت ہے کہ عزت، ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور عزت کبھی پیسے کے بل بوتے پر نہیں ملا کرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments