!امرتا کی درد بھری محبت کی آہ


اپنی جسم کی خون سے اگر محبت کی داستان کسی نے رقم کی ہے تو اس روایت کے سرفہرست امرتا پریتم کا نام آتی ہے جو درد بھری کہانی، محبت کی

کیفیت اس طرح اپنی ہاتھ و قلم اور سفید پیپر کو سیاہ کرتی رہی درد کا قصہ بنتی گئی۔ یہ میں نے امرتا سے سیکھی ہے کہ محبت سے لوگ اگر ٹھوٹ جائے تو بعد میں کس طرح تڑپ جاتے ہیں، یہ رنج، گم، تکلیفیں بس کتابوں میں زیب دیتے ہیں وہاں پڑھنے میں کچھ ہرج نہیں ہوتا اگر اصل زندگی میں یہ مصیبتیں آں پڑ جائے تو توبہ۔

ڈاکٹر منیب الرحمن صاحب لکھتیں ہیں ”اگر مرد اس قسم کی شاعری کرتا ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور جب عورت اپنی روح کا عکس پیش کرنا چاہتی ہے تو کہرام سا مچ جاتا ہے اور لوگ اخلاق و عفت کی تباہی کا ماتم کرنے لگ جاتے ہیں“ ۔

آہ اگر باز بسوئم آئی دیگر از کف مذہم آ سانت
ترسم ایں شعلہ سوزندہ عشق آخر آتش فگندبر جانت

اگر اس شعر کی وا و فریاد کو لفظ با لفظ بیان کیا جائے ”آہ اگر تو ایک بار پھر میرے پاس آ جائے تو تجھے آسانی سے نہ چھوڑوں۔ مگر مجھے ڈر ہے کہیں عشق کا یہ شعلہ سو زندہ تمہاری روح کو جلا نہ ڈالے“ ۔

امرتا فرماتے ہیں ”میں نے اس زندگی میں دو مرتبہ محبت کی ہے پہلی ساحر سے اور دوسری امروز سے۔ ساحر کو میں نے پریت نگر ضلع امرتسر کے ایک مشاعرے میں دیکھا تھا۔ رسیدی ٹکٹ میں اس ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ یہ اس زندگی کی وہ حقیقت ہے جو میں نے جی تھی اور لکھی تھی، لیکن یہ کس جنم کی پرچھائیں تھیں یہ نہیں جاتا۔ اور امروز سے میری پہلی ملاقات 1956 میں ہوئی تھی اور چند ایک برس کی ملاقاتوں کے بعد اک عجیب تڑپ اور عجیب سکون میری پیشانی میں اتر گیا تھا۔

صبر اور سکھ سے زندگی کی غلط اقدار کے ساتھ کی ہوئی صلح اس مراقبے کی طرح ہوتی ہے جس میں عمر اکارت چلی جاتی ہے۔

امروز جو امرتا کا آخری دوست رہا ہے، لکھتا ہے ”میں امرتا کو بہت ناموں سے بلاتا آ رہا ہوں۔ مجھے جو بھی خوبصورت لگتا ہے اسی نام سے میں اسے پکارنے لگتا۔ جو بھی مجھے موثر لگتا وہی اس کا نام رکھ دیتا ہوں۔ امرتا کے الفاظ میں، میری محبوب میرے تصور میری ساری زندگی مجھے ایسی لگتی ہے جیسے میں نے تمہیں ایک خط لکھا ہو۔ میرے دل کی ہر دھڑکن ایک صرف ہے میری ہر سانس جیسے کوئی ماترا ہو۔ ہر وہ جیسے کوئی فقرہ ہو اور ساری زندگی جیسے ایک خط اگر وہ خط تم تک پہنچ جاتا مجھے کسی بھی زبان کے الفاظ کا محتاج نہ ہونا پڑتا“ ۔

امرتا پریتم کی آپ بیتی ”جنم جنم کی داستان“ کو پڑھ کر آدمی خود مشکوک کی زد میں آ جاتا ہے کہ ایک عورت چیخ چیخ کر اپنی محبت کا اظہار کر رہی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دنیا اور کچھ بھی نہیں اگر دو دل متحد ہو جائے تو ساری زندگی پر سکون اور پر تکلف بن جاتی ہے شرط یہ ہے کہ وہاں محبت کرنے والا دل ہو وہاں پیار ہے جہاں دلدار نہیں۔ امرتا بھی اس کیفیت پر زندہ تھی۔ زندہ بھی کجا مردہ جیسی، بلکہ زندہ لاش بن کر شپ و روز لکھتی رہی۔

اس سال امرتا کو روس میں مدعو کیا گیا تھا۔ پاسپورٹ فارم پر کرنے کے لیے عورت کو اپنے خاوند کا نام لکھنا پڑتا ہے۔ امرتا نے ایک بار فارم پر کیا تھا۔ لیکن امروز سے برداشت نہ ہوا اور اسے چاک کر ڈالا۔ اب امرتا کا ایک خط ملاحظہ کی جائے۔

میرے سب کچھ۔

میں نہیں جا رہی ہوں۔ تمہارے بغیر مجھے کوئی بھی جگہ اچھی نہیں لگتی۔ مجھے غیر ملکی شہرت نہیں چاہیے۔ میں نے جس کے لیے محبت کے گیت لکھے، اگر اسے میرے گیت قبول نہیں تو بیگانوں سے ان گیتوں کی تعریف پاکر کیا کروں گئی؟ ایک گجراتی گیت ہے ”ماتھے کے کشکول میں لاکھوں کی موتی دے، دل کی بستی خالی“ دانشمندی کے لاکھوں موتی، لیکن دل تمہارے بغیر خالی ہر جگہ جانے کے لیے مجھے پاسپورٹ کا فارم پر کرنا پڑتا ہے اور میں اس قسم کی کوئی چیز پر کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ جو تمہاری مسرت چھین لے۔ جہاں میری زندگی تم پر قربان ہے وہاں میں غیر ملکی شہرت بھی قربان کردوں گئی میں کہیں بھی نہ جاؤں گئی تمہارا انتظار کروں گئی عمر بھر ”تمہاری آشی

26/4/1960

اگر دنیا میں مضبوط شے ہے تو میں کہتا ہوں کہ پھر وہ محبت کے سامنے کچھ بھی نہیں، دنیا کی مضبوط ترین شے محبت ہے۔ ہر بڑی شے محبت کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں جیسا کہ یہ بلند و بالا پہاڑ نما سنگ امرتا پریتم محبت کے سامنے ایسے وا و فریاد کر رہی ہے کہ اس دھرتی بھی ان کی اشکوں سے ندامت محسوس کرتی ہے۔ امرتا پریتم کی ہر کتاب سوانح حیات ہے، ہر واقع ان کی زندگی کا حادثہ ہے، ہر افسانہ ہر نظم انہوں نے اپنی خون کے قطروں سے لکھا ہے۔ مذکورہ آپ بیتی کو پڑھ کر مجھے یقین ہے کہ آپ کی آنکھوں میں اشکوں کی برسات ہوگی، دل خون کے آنسو روئے گا۔ یہ محبت کی کیفیت ہے۔ اور کچھ نہیں بس کیفیت۔ اگر زندگی نے ساتھ دیا تو ضرور امرتا کے نام پر میں بھی ایک خط رقم کروں گا۔

ملک جان کے ڈی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک جان کے ڈی

ملک جان کے ڈی بلوچستان کے ساحلِ سمندر گوادر کے گیٹ وے پسنی مکران سے تعلق رکھتے ہیں۔ ادب کا مطالعہ، ادبی مباحث اور ادب کی تخلیق ملک جان کے ڈی کا اوڑھنا بچھونا ہیں، جامعہ کراچی میں اردو ادب کے طالب علم اور سوشل ایکٹیوسٹ ہیں

malik-jan-k-d has 14 posts and counting.See all posts by malik-jan-k-d

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments