شام میں ’جنگی جرائم‘: جرمن عدالت نے شامی فوج کے کرنل کو ‘انسانیت کے خلاف جرائم‘ میں سزا سنا دی

جینی ہل - بی بی سی نیوز، کوبلنز ،جرمنی


Attorney Patrick Kroker (C) and co-plaintiffs Wassim Mukdad (L) and Hussein Ghrer (R) answer journalists' questions outside the courtroom during a break in a trial against two Syrian defendants accused of state-sponsored torture in Syria, on April 23, 2020 in Koblenz
جرمنی کی ایک عدالت نے ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے مقدمے میں ایک شامی فوجی کرنل کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

اٹھاون سالہ انور رسلان پر شام کی خانہ جنگی کے دوران 4000 سے زائد افراد کو ‘زمین پر جہنم‘ کے نام سے مشہور جیل میں اذیت دینے اور تشدد کرنے کا الزام تھا۔

جرمنی کے شہر کوبلنز میں یہ ایک تاریخی نوعیت کا مقدمہ تھا کیونکہ شام میں ریاستی تشدد کے حوالے سے یہ دنیا کا پہلا مقدمہ ہے۔ اقوام متحدہ کے حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے سزا کو حق کی تلاش میں ‘ایک تاریخی قدم‘ کے طور پر سراہا ہے۔

یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ شام کی بدنام زمانہ الخطیب جیل میں قید مردوں اور عورتوں کو کس کس قسم کا تشدد اور اذیت برداشت کرنی پڑی۔

اس مقدمے کی اہم بات یہ تھی کہ انور رسلان پر الزام تھا کہ انھوں نے سنہ 2011 میں بشارالاسد کی حکومت کے ماتحت بطور ایک اعلیٰ افسر کے حکومت مخالف مظاہروں کو بڑے پیمانے پر پرتشدد طریقے سے کچلا تھا۔ اس مقدمے کے پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ ایسے بہت سے مظاہرین اور دیگر افراد جن پر حکومت کی مخالفت کا شبہ تھا، انھیں دمشق میں الخطیب جیل میں حراست میں رکھا گیا جہاں انور رسلان نے ان پر تشدد کا حکم دیا۔

ان پر 58 قتل کے ساتھ ساتھ، عصمت دری اور جنسی زیادتی اور 2011 اور 2012 کے درمیان کم از کم 4000 افراد کو تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

عدالت کا یہ فیصلہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے اہم ہے جو الخطیب سے بھاگ گئے اور مقدمے کے دوران شہادتیں دیں۔ ایک فوجداری عدالت نے اب باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ بشارالاسد حکومت نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کیے تھے۔

‘عالمی دائرہ اختیار‘

انور رسلان کو 2019 میں جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے خلاف تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور انھوں نے دراصل کچھ قیدیوں کی مدد کرنے کی کوشش کی۔

ان کا ٹرائل کئی وجوہات کی بنا پر غیر معمولی تھا۔ یہ شام کے ریاستی تشدد کا جواب دینے کے حوالے سے بے مثال تھا اور یہ لاکھوں شامیوں کی جرمنی آمد سے ممکن ہوا، جو اپنے ہی ملک سے بھاگ گئے تھے۔

تقریباً آٹھ لاک شامی باشندوں اب جرمنی میں رہتے ہیں، وہ اپنے ساتھ انتہائی خوفناک کہانیاں لے کر آئے ہیں۔ ان کہانیوں میں بشارالاسد حکومت کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا، جرمن انسانی حقوق کے وکلا نے عالمی دائرہ اختیار کے اصول کو استعمال کرتے ہوئے اس کے مقدمے کو عدالت تک پہنچایا۔

عالمی دائرہ اختیار کا اصول ایک ملک میں ہونے والے سنگین جرائم پر دوسرے ممالک میں مقدمات چلانے کی اجازت دیتا ہے۔

Syrian defendant Anwar Raslan arrives at court for an unprecedented trial on state-sponsored torture in Syria, on April 23, 2020 at court in Koblenz, western Germany

الخطیب جیل میں کیا ہوا؟

• یہ زیر زمین حراستی مرکز جنرل سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کی ‘برانچ 251‘ کا حصہ ہے جو شام کی چار اہم انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔

• عینی شاہدین اور منحرف افراد کے مطابق یہ دمشق کے مرکزی الخطیب علاقے میں دو عمارتوں پر مشتمل ہے۔

• انور رسلان پر الزام تھا کہ صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت شروع ہونے کے ایک ماہ بعد اپریل 2011 سے ستمبر 2012 میں ان کے منحرف ہونے تک برانچ 251 کے تفتیشی سیکشن کے سربراہ کے طور پر حراست میں لیے گئے افراد پر تشدد کی نگرانی کرتے رہے۔

• اپریل 2011 میں قید ہونے والے شامی صحافی عامر متر نے عدالت کو بتایا کہ ‘بغیر کسی منطق کے تشدد کیا جا رہا ہے‘ اور رسلان نے ایک تفتیش کے دوران ان کی آنکھوں پر بندھی پٹی پھاڑ دی، ان کو گالیاں دیں اور ان کے منھ پر تشدد کیا گیا۔

یورپی مرکز برائے آئینی اور انسانی حقوق کے سربراہ وولف گینگ کالیک کا کہنا ہے کہ انصاف کے بارے میں بات کرنا مشکل ہے کیونکہ لاکھوں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں دسیوں ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

لیکن شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مقدمے نے ان لوگوں کو آواز دی جنھیں بشارالاسد حکومت نے خاموش کرنے کی کوشش کی۔ زندہ بچ جانے والے 50 لوگوں نے کوبلنز میں عدالت میں ثبوت پیش کیے ہیں۔ کیس میں 24 شریک مدعی تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا ترکی شامی پناہ گزینوں کا ’نیا وطن‘ بن گیا ہے؟

بارش اور برفباری کے بعد شامی پناہ گزینوں کے کیمپ جھیلوں میں تبدیل

وہ خاتون جس نے شام میں دولت اسلامیہ کے سابقہ گڑھ کی تعمیر نو کا بیڑہ اٹھایا

‘اذیت کی چیخیں‘

ان کی کہانیاں خوفناک ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ قیدیوں کو کیسے مارا پیٹا گیا اور ٹھنڈے پانی میں ڈالا گیا۔ دوسروں کی عصمت دری کی گئی یا انھیں گھنٹوں چھت سے لٹکایا گیا۔ تشدد کرنے والوں نے ان کے ناخن کھینچے اور بجلی کے جھٹکے بھی دیے۔

ایک زندہ بچ جانے والے شخص نے مجھے بتایا کہ وہ ہر روز لوگوں کی چیخیں سن سکتا تھا۔ ایک اور یہ کہا کہ اس پر تشدد کرنے والے اہلکاروں نے خصوصی ’آلات‘ استعمال کیے تھے اور یہ کہ وہ اپنے کام سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیے تھے۔

رسلان کو اب عمر قید کا سامنا ہے اور استغاثہ نے 15 سال کے بعد پروبیشن کے کسی بھی امکان کو روکنے کی کوشش کی۔ ایسے ہی ایک مقدمے میں گذشتہ سال ایک اور شامی اہلکار کو سزا سنائے جانے سے استغاثہ کی حوصلہ افزائی ہوئی تھی۔

یہ مقدمہ ایاد الغریب نامی شخص پر تھا جنھوں نے مظاہرین کو گرفتار کرنے میں مدد کی تھی اور بعدازاں ان افراد کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ایاد الغریب کو انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

Syrian campaigner of the Caesar Families Association Yasmen Almashan holds pictures of victims of the Syrian regime as she and others wait outside the courthouse where former Syrian intelligence officer Anwar Raslan is on trial in Koblenz, western Germany on January 13, 2022

وکلا متعدد دیگر مشتبہ افراد کے خلاف بھی مقدمات کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ وہ ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیں گے جو بشار الاسد کی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر تھے۔

بشار الاسد نے اشارہ دیا ہے کہ وہ مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں، لیکن وہ اور ان کی حکومت نے اپنے ہی لاکھوں شہریوں کو تشدد یا زبردستی ‘غائب‘ کرنے کے الزامات کو بار بار مسترد کیا ہے۔

یہ مقدمہ ایک اور مقصد بھی پورا کرتا ہے: مستقبل کی کارروائی میں استعمال کے لیے ثبوت کا ایک ادارہ بننا۔ گواہوں کی شہادتوں کے علاوہ، کوبلنز میں استغاثہ نے ‘سیزر فائلوں‘ پر انحصار کیا ہے، وہ خوفناک تصاویر جو شام سے ایک حکومتی وسل بلوور کے ذریعے سمگل کی گئی تھیں جن میں ہزاروں لوگوں کی لاشیں دکھائی دیتی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حراستی مراکز میں مر چکے ہیں۔

اور یہ بہت سے شامیوں کی موجودہ حالتِ زار کی یاد دہانی بھی ہے۔

وسیم مقداد، جنھیں پہلی بار 2011 میں حراست میں لیا گیا تھا اور اب وہ جرمنی میں مقیم ہیں، انھوں نے مقدمے میں ثبوت پیش کیے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا، ‘میرے لیے، یہ انصاف کی جانب ایک طویل راستے میں پہلا قدم ہے۔‘ مگر آج بھی بہت سی ایسی کہانیاں ہیں جو سنی نہیں گئی ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments