بدنصیب


گر حسن کی کوئی تعریف ہوتی تو وہ اس پر پوری اترتی مگر غرور اس میں مفقود تھا وہ کہتی تھی ”اگر اللہ نے میرے خد و خال میں حسن رکھا ہے تو اس میں میرا کون سا کمال ہے میں تو اس کے آگے جھکی رہو تب بھی اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر سکتی“ ۔ تبھی لوگ اس کے حسن اور سیرت پر برملا کہتے اللہ اس کا نصیب اچھا کرے جس گھر بھی جائیں گی وہاں چراغاں ہو جائے گا چراغاں۔

ویسی تو حسن اس کے گھر کی کھیتی تھا دیگر بہنیں بھی کوئی کم خوبصورت نہیں تھی اس لیے چار بہنوں میں تیسرے نمبر پر ہو کر دیگر بہنوں کو حسن میں مات دینا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی یکے بعد دیگر دو بہنوں کی شادیاں ہو گئی تو ایک دن مسز سرتاج بھی اس کے گھر پہنچ گئی ”لیجیے فائقہ بیگم اللہ نے آپ کی دو ذمہ داریاں تو پوری کرا دیں اب آپ فائزہ کا ہاتھ میرے بیٹے سالار کے لیے دیں دیجیے۔“ مسز سرتاج نے بیس سالہ پڑوس نبھاتے ہوئے کسی بھی قسم کی تمہید کو باندھنے کو کوئی اہمیت نہیں دی اور مدہ ہی بیان کیا۔ ”آپ کا اور ہمارا سالوں کا ساتھ ہے سالار بیٹا ہماری آنکھوں کے آگے پلا بڑھا ہے مگر آپ تو جانتی ہے میں اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی اس لیے فائزہ کے ابو گھر آتے ہیں تو میں بات کرتی ہوں“ ۔ ’جی ٹھیک ہے میں آپ کے جواب کی منتظر رہوں گی ”یہ کہتے ہوئے مسز سرتاج نے گھر کی راہ لی۔

”آج مسز سرتاج آئیں تھیں فائزہ کا رشتہ مانگ رہی ہے سالار کے لیے“ ۔ راشد صاحب رات کی چائے پی کر فارغ ہوئے تو فائقہ بیگم ان سے مخاطب ہوئی۔ ”آپ نے کیا جواب دیا“ ؟ ”میں نے کیا جواب دینا تھا یہیں کہا کہ آپ کی مرضی اور رضا جانے بغیر میں کچھ نہیں کہہ سکتی“ ۔ ”ویسے تو سب کچھ دیکھا بھالا ہے مگر میں استخارہ کرلوں تمھیں تو معلوم ہے میرا سب سے زیادہ اعتبار اوپر والے کی ذات پر ہے کہ وہ کبھی بھی انسان کا برا نہیں چاہتا اس لیے میں اسی سے رابطہ کرتا ہوں“ ۔ راشد صاحب کو استخارہ پر بڑا بھروسا تھا ان کے بقول ان کی بیٹیاں سسرالوں میں اسی لیے خوش تھیں کہ انھوں نے اللہ کی رضا کو اہمیت دی تھی۔

استخارہ مثبت آیا اور فائزہ سالار کے ہمراہ راشد ولا سے رخصت ہو گئی سالار تو اس کی خوبصورتی کا دیوانہ تھا اٹھتے بیٹھتے اس کی مداح سرائی کرنا اس کا محبوب ترین مشغلہ تھا حتی کہ فائزہ بھی کہتی کہ ”مشرقی معاشرہ میں خاوند کا بیوی کے آگے یوں پیچھے جانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مگر وہ سالار ہی کیا جو من موجی نہ ہو اس لیے وہ ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکلتا اور کھانے کے دستر خوان پر پھر اسے دیدے پھاڑ کر دیکھتا رہتا اور وہ کھانا کھاتے ہوئے خفت کا شکار رہتی۔

وقت پر لگاتے گزر گیا اور اللہ نے فائزہ کی جھولے میں بیٹی ڈال دی۔ ”دیکھا امی میں نہیں کہتا تھا اللہ مجھے چاند جیسی بیٹی دے گا“ ۔ سالار نے اپنی گود میں موجود حور کو دیکھتے ہوئے ہوئے کہا۔ ”اب ماشاء اللہ بھی کہہ دو “ ۔ ”میں بھی ماشاء اللہ کہوں میری اولاد ہے“ ۔ سالار نے دوبدو پوچھا۔ ”تو بیٹا سب سے پہلی نظر لگتی ہی ماں باپ کی ہے غیر کی تو بعد میں لگتی ہے“ ۔ مسز سرتاج نے حور کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے جواب دیا۔

”فائزہ ادھر آؤ ایک بہت ضروری بات کرنی ہے تم سے“ ۔ مسز سرتاج نے کچن میں حور کی فیڈر بناتی فائزہ کو بلایا۔ ”جی امی کہیے“ ۔ ”بھئی ہم عقیقہ کی دعوت کرنے کا سوچ رہے ہیں تم اپنے امی ابو سے پوچھ لو وہ کب شرکت کر سکتے ہیں“ ؟ ”امی آپ جب کہیں گی وہ آ جائیں گے“ ”پھر ایسا کرتے ہیں سنت کے مطابق ساتویں دن ہی عقیقہ کرتے ہیں اور دعوت بھی ساتھ ہی کرلیتے ہیں کیوں ٹھیک ہے سالار“ ؟ ”امی جیسی آپ کی مرضی“ ۔

فائزہ آج بہت خوش تھیں اس کی بیٹی کا عقیقہ تھا اس نے بہت محنت سے سرتاج بیگم کے ساتھ مل کر بریانی، رائتہ، سالار، کباب، کھیر اور مچھلی کا انتظام کیا تھا کیونکہ مچھلی اس کے ابو کی پسندیدہ تھی۔

”امی ایسا کریں آپ تیار ہونے جائیں میں مچھلی تل لیتی ہوں“ ۔ فائزہ تیار ہو کر واپس آئیں اور کچن میں ساس کو مچھلی تلتے مصروف دیکھا تو اپنا فرض نبھایا۔ ”ارے نہیں بیٹا تم حور کو سنبھالو“ ۔ ”امی وہ سو گئی ہے آپ بے فکر ہوجائیں یہ کہتے ہوئے فائزہ آگے بڑھی اور فرائی پین میں موجود مچھلی الٹ پلٹ کرنے لگی اور مسز سرتاج کچن سے باہر نکلیں بس مسز سرتاج کے کچن سے باہر نکلنے کی دیر تھی اور ایک دھماکہ کی آواز آئی چولہا پھٹ گیا تھا فائزہ کو اس کی موت کچن میں کھینچ لائی تھی وہ اس حد تک جل چکی تھی کہ آنا فانا اس کی تدفین کردی گئی حتیٰ کہ اس کے قبر میں جانے تک حور بے خبر سو رہی تھی اس کو اس بات کی خبر ہی نہیں تھی کہ اس کی ماں منوں مٹی تلے جا سوئی ہے اور اس کا مستقبل اب اس دنیا کے ہاتھ میں ہے جو کبھی کسی کا بھلا نہیں چاہتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments