اے دنیا کے منصفو


یہ بات درست ہے کہ انصاف گھروں میں بیٹھے منصف بھی عام انسان ہی ہوا کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے حوالے سے جب کچھ ہٹ کر باتیں سامنے آتی ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ

”کم از کم ایک منصف کا رتبہ ان حرکات کے لیے مناسب نہیں ہے“

ہمارے معاشرے میں بھی منصف لوگوں کے عجیب و غریب قصے سامنے آتے رہے ہیں، مثلاً کچھ عرصہ قبل ممتاز صحافی انصار عباسی نے گوجرانوالا کے ایک بدنام زمانہ جرائم پیشہ کردار ننھو گورایا کے حوالے سے ایک بڑے منصف کی کہانیاں بیان کیں تو لوگ دنگ رہ گئے کہ ایک انصاف دینے والے شخص کا ایک انتہائی دو نمبر اور گھناؤنے کردار کے حامل شخص سے اتنا گہرا اور قریبی تعلق کیسے ہو گیا؟ کیا ہماری ایجنسیاں جو کہ کبھی ان معاملات سے باخبر رہا کرتی تھیں انہیں بھی اس کی خبر نہ ہو سکی تھی؟

اگر انہیں خبر تھی تو انہوں نے مذکورہ منصف کو ایسے بدنام، بھتہ خور، قبضہ گیر اور مکروہ کردار سے تعلق سے روکا کیوں نہیں تھا؟ بہرحال وہ تعلق برقرار رہا اور ننھو گورایا ایک پولیس مقابلے میں پار کر دیا گیا لیکن اس منصف کو کسی نے بھی کچھ نہ کہا، اللہ جانے اس بدنام شخص کی ایما پر اس منصف نے کیسے کیسے گھٹیا اور غلط کام نہ کیے ہوں گے؟ دیکھنے والوں نے دیکھا اور جانا کہ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی فرح ڈوگر کے لیے اصول و ضوابط کو پش پشت ڈالتے ہوئے طریقے اختیار کیے گئے اور اسے انتہائی غلط طریقے اختیار کرتے ہوئے میڈیکل میں داخلے کے قابل بنانے کی ناروا راہ اختیار کی گئی تھی جس پر شور بہت مچا تھا لیکن چونکہ وہ ایک بڑے منصف تھے اور طاقت کا اہم ترین ستون بھی، اس لیے ان کی بیٹی کو اور انہیں کچھ بھی نہ کہا گیا تھا، پھر دیکھنے والوں نے دیکھا اور سنا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار کے کئی ناپسندیدہ معاملات سامنے آئے، اس کو غلط طریقے سے میڈیکل کے شعبے سے پولیس سروس میں لایا گیا اور پھر اس نے چیف جسٹس ہاؤس کا نام بھی کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کیا اور دیگر کئی معاملات میں بھی ارسلان کا ذکر ہوتا رہا لیکن چونکہ ان کے اوپر بھی بڑے ستون کا سایہ تھا اس لیے ان کا بھی کچھ نہ کیا گیا اور وہ بھی موج کی زندگی گزار رہے ہیں، حال ہی میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو سزا سنانے والے منصف ارشد ملک کی کچھ رنگین و سنگین وڈیوز کا رولا پڑا لیکن ان کو موت نے تو آ لیا مگر قانون نے ان وڈیوز کے حوالے سے ان سے بازپرس نہ کی تھی، پھر ہم نے ایک احتسابی ادارے کے چیئرمین جو کہ بڑے انصاف گھر کے سابق منصف ہیں کے حوالے سے ”سر سے پاؤں تک“ چوما چاٹی امور والی وڈیو کو بھی سوشل میڈیا کی زینت بنتے دیکھا اور سوچا کہ کم از کم ایسی کھلی، بے شرمی اور دیدہ دلیری پر مبنی کہانی کے رنگین مزاج کرداروں کا کچھ ضرور ہو گا مگر اس میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ منصف صاحب آج بھی دوسروں کے لتے دیکھے جاتے ہیں اور حیران آنکھیں انہیں بھاشن دیتا دیکھ کر دنگ ہیں۔

یہ ساری باتیں اس لیے یاد آئیں کہ ابھی چند روز قبل پتا چلا کہ ارجنٹینا کی ایک خاتون منصف میریل سواریز کی ایک قتل کے قیدی کرسٹین مے بسٹوس کے ساتھ چوما چاٹی کی ویڈیو سامنے آئی ہے۔ میریل سواریز نے اس قیدی کی سزا کے خلاف ووٹ بھی دیا تھا اور مزے کی بات یہ ہے منصفوں کے پینل میں اس قیدی کرسٹین مے بسٹوس کے حق میں جو واحد ووٹ پڑا تھا وہ میریل سواریز کا تھا اور قیدی کے حق میں اس ووٹ پر سب حیران بھی ہوئے تھے لیکن اب جب دونوں کی نازیبا ویڈیو سامنے آئی تو سب کی الجھن دور ہو گئی ہے۔

منصفوں کے ضمن میں ہماری الجھنیں بھی دور ہوتی رہتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں احتساب کا پتھر صرف کمزور کے سر پر ہی گرتا ہوا نظر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments