فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں: قسط نمبر 11


اسرائیل کے مقابلے کے لیے فلسطینیوں نے کئی تنظیمیں بھی بنائیں۔ جن میں سے تین تنظیمیں کافی مشہور ہوئیں۔ ان کے نام کچھ اس طرح سے ہیں : فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) ، فتح اور حماس۔ ان تینوں کا ایک مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔

حماس: ایک اسلام پسند تنظیم

حماس جس کا عربی میں پورا نام ”حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ“ ہے، اس کا مخفف حماس بنتا ہے۔ اسے انگلش میں Islamic Resistance Movement بھی کہا جاتا ہے۔

بنیادی طور پر یہ تنظیم مصر کی ایک بہت بڑی جماعت اخوان المسلمین سے وابستہ لوگوں نے 1987 میں بنائی۔ یاد رہے اخوان المسلمین 1950 سے ہی غزہ میں کام کر رہی تھی۔ انہوں نے وہاں پر بے شمار مساجد بنائیں اور کئی فلاحی ادارے بھی قائم کیے اور بعد میں سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس وقت اس علاقے میں پی ایل اوکا زور تھا۔ پہلی مرتبہ پی ایل او کو ایک سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

2006 میں ہونے والے الیکشن میں حماس نے اکثریت حاصل کر کے بر سر اقتدار پارٹی ”فتح“ کو شکست دی۔ بعد ازاں دونوں کے درمیان اختلافات بڑھ گئے اور ایک جنگی کیفیت بھی پیدا ہو گئی۔ یہ ایک ناپسندیدہ صورتحال تھی۔ حماس نے غزہ میں اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا جبکہ ویسٹ بنک میں پی ایل او سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت ہو گئی۔ یہ بات جاننا بھی ضروری ہے کہ جب مصر میں اخوان المسلمین پر برا وقت آیا تو مصر نے اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ کا محاصرہ کیا۔

وہ ایک طرح سے معاشی بائیکاٹ بھی تھا۔ جب محاصرہ طول پکڑ گیا تو حماس نے اسرائیل پر راکٹ برسانے شروع کر دیے۔ جس کے نتیجہ میں محاصرہ ختم کر دیا گیا۔ اس تنظیم کی بنیاد رکھنے والوں میں سب سے اہم نام شیخ احمد یاسین کا ہے جو معذوری کی حالت میں بھی فلسطینیوں کی قیادت کر رہے تھے۔ ایک دن اسرائیل نے انہیں ٹارگٹ کر کے شہید کر دیا۔

حالیہ جنگ رمضان میں بھی حماس نے ہی اسرائیل پر راکٹ برسائے۔ اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک حماس کو ایک شدت پسند تنظیم کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس پر پابندی بھی لگا رکھی ہے۔ حماس کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلق رکھنے والے شخص کو معاف نہیں کیا جاتا۔ اس وقت اس کے سربراہ اسماعیل عبد السلام احمدہنیہ ہیں۔ اس تنظیم کا اصل گڑھ غزہ کی پٹی ہے۔ حالیہ جنگ میں حماس کے کئی اہم رہنما بھی شہید ہوئے۔

پی۔ ایل۔ او (Palestine Liberation Organisation)

پی ایل او کی بنیاد 1964 میں رکھی گئی۔ اس کا مقصد فلسطین کو آزادی دلوانا تھا۔ 1993 تک یہ تنظیم مسلح جدوجہد پر یقین رکھتی تھی اور اس پر عمل بھی کرتی تھی۔ اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل نے اس تنظیم کو فلسطین کی ایک نمائندہ تنظیم کے طور پر تسلیم کر لیا اور اس کے بدلے اس تنظیم نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔

پی ایل او صرف ایک اسلامی مذہبی جماعت نہیں ہے بلکہ اس تنظیم میں عیسائی بھی شامل ہیں۔

فلسطین کے اندر ایک فلسطینی شہری کونسل بھی ہے جسے فلسطینی لوگ ہی منتخب کرتے ہیں۔ اسے اب فلسطین کی پارلیمنٹ بھی کہا جاتا ہے۔

پی ایل او کے پہلے چیئرمین احمد الشقیری تھے۔ 1969 میں یاسر عرفات اس کے سربراہ بنے اور اپنی وفات تک (یعنی 2004 تک تقریباً 35 سال) پی ایل او کے سربراہ رہے۔ ان کے بعد محمود عباس اس کے سربراہ بنے جو اب تک اس کی سربراہی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس وقت محمود عباس فلسطین اتھارٹی کے صدر ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ پی ایل او کو کئی ممالک میں فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ یاد رہے 1987 میں اس تنظیم کو شدت پسند تنظیم کے طور پر جانا جا تا تھا اور اس پر پابندی بھی لگائی گئی تھی۔ بعد ازاں اس پر سے پابندیاں ہٹا لی گئیں۔ خاص طور پر او وقت جب اوسلو معاہدے کے بعد یاسر عرفات نے اسرائیلی وزیراعظم کو ایک خط لکھ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی تھی۔ اس کے بدلے میں اسرائیل نے پی ایل او کو فلسطینی عوام کی نمائندہ تنظیم کے طور پر تسلیم کر لیا۔

پی ایل او نے فلسطین کی آزادی کے لیے ایک طویل جنگ لڑی۔ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ پی ایل او کو ہمیشہ روس کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اسی لیے اسے ایک بائیں بازو کی جماعت بھی کہا جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے عرب دنیا روس اور امریکہ کے زیر اثر ہے۔ ایک طرف امریکہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ کئی عرب ممالک (خاص طور پر سعودی عرب) کی حمایت کرتا ہے تو دوسری طرف روس نے عرب میں امریکہ مخالف ایک گروہ بنا رکھا ہے۔ جس میں کئی عرب ممالک شامل ہیں۔ فلسطین بھی اسی گروپ کا ایک حصہ ہے۔

فتح: فلسطینیوں کی ایک اہم تنظیم

اس تنظیم کا نام پہلے Palestinian National Liberation Movement تھا
بعد میں اسے
Palestinian Nationalist Social Democratic Political Party
بھی کہا جانے لگا۔

عربی میں اس کا نام ”حرکۃ التحریر الوطنی الفلسطینی“ ہے۔ اس نام کے حروف کو اگر الٹی طرف سے پڑھا جائے تو یہ فتح بنتا ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد 1959 میں ان فلسطینی مہاجر طالب علموں نے رکھی جو مصر کے علاوہ دیگر عرب ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس کے بانیوں میں یاسر عرفات کا نام بھی آتا ہے۔ 1967 میں یہ تنظیم پی ایل او کا حصہ بن گئی اور اسے پی ایل او میں ایک نمایاں حیثیت دے دی گئی۔ 1969 میں یاسر عرفات پی ایل او کے چیئرمین بن گئے۔ اس سے ہمیں ان تین تنظیموں کے درمیان تعلقات اور معاملات سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

فتح دنیا بھر میں یہودیوں کے خلاف مسلح جد و جہد کا ایک استعارہ سمجھی جاتی تھی۔ بنیادی طور پر یہ مسلح کارروائیوں پر یقین رکھتی تھی۔ ان کی جنگوں کی طویل داستان ہے جس میں بے شمار لوگ مارے گئے۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اوسلو معاہدہ کے بعد
”Palestinian National Authority السلطۃ الوطنیۃ الفلسطینیۃ“

جسے عام طور پر PA بھی کہا جاتا ہے، بنائی گئی جس کے سربراہ یاسر عرفات تھے۔ یہ درحقیقت پی ایل او کی جگہ پر سیاسی معاملات چلانے کے لیے بنائی گئی تھی لیکن اس کا اصل کنٹرول پی ایل او کے پاس ہی تھا۔ میں اسے پی ایل اوکا سیاسی ونگ کہہ سکتا ہوں۔

اس طرح سے یہ تین مختلف تنظیمیں (پی ایل او، فتح اور پی اے ) ایک ہی مقصد کے لیے کام کرتی تھیں۔ پہلے فتح کی بنیاد رکھی گئی پھر پی ایل او بنائی گئی اور بعد میں پی ایل او کو فتح کا حصہ بنا دیا گیا۔ اوسلو معاہدے کے بعد پی اے وجود میں آئی۔ فلسطین کے سرکاری معاملات کو چلانے کے لیے فلسطین نیشنل پارٹی بنائی گئی جس کے موجودہ سربراہ محمود عباس ہیں۔

2006 کے الیکشن میں پی اے اپنی اکثریت کھو بیٹھی اور حماس نے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی۔ لیکن دنیا کو حماس کی جیت پسند نہ آئی اور جمہوریت پسند لوگوں نے ہی اس کی مخالفت شروع کردی اسی وجہ سے حماس اور فتح کے درمیان ایک جنگ کی کیفیت پیدا ہوئی جو اب تک جاری ہے۔

فلسطین اور اسرائیل مذاکرات اور معاہدے

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان پچھلے ستر سال سے زائد عرصے سے مذاکرات اور معاہدوں کا سلسلہ چل رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں ان کی تفصیل بیان کروں میں چاہوں گا کہ آپ کے سامنے اس مسئلے کے تین بڑے فریقین ( یعنی فلسطین، اسرائیل اور امریکہ) کے خیالات بھی رکھوں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ عرب اور یورپ کے علاوہ مسلمان دنیا بھی اس کی اہم فریق ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ یہ سب لوگ امن کے تو خواہاں ہیں لیکن عملی طور پر فلسطین، اسرائیل اور امریکہ ہی متحرک ہیں۔ اب تک میں نے جو تھوڑا بہت اس مسئلے کو جانا ہے اس کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ درحقیقت یہ مسئلہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہے لیکن اسرائیل کی اصل طاقت امریکہ ہے۔ اسرائیل سے متعلق جب بھی سیکیورٹی کونسل میں کوئی بات کی جاتی ہے تو امریکہ ویٹو کا استعمال کرتا ہے۔ اس لیے مسئلہ فلسطین پر ان تینوں کا نقطہ نظر جاننا بہت ضروری ہے تاکہ ہمیں علم ہو سکے کہ اب تک اتنی بار مذاکرات اور معاہدے ہونے کے بعد بھی یہ مسئلہ حل کیوں نہ ہوسکا۔

اس سیریز کے دیگر حصےبنی اسرائیل سے اسرائیل تک تین مذاہب کا مرکز : قسط 10

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments