برفباری اور پشتون مہمان نوازی کا ڈھونگ


جب سے مری کا واقعہ پیش آیا ہے، تب سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا برپا ہے۔ جہاں ایک طرف سیاحت کے آمد و رفت کے واضح پلان نہ ہونے کی وجہ سے حکومتی نا اہلی اور سست روی پر تنقید جاری ہے اور ہوٹل انتظامیہ کے نا مناسب ریٹ پر بھی سوشل میڈیا صارفین اور مختلف میڈیا فورمز پر تنقیدی بحث جاری ہے وہاں دوسری جانب سوشل میڈیا پر پشتون بیلٹ سے تعلق رکھنے والے صارفین سیاح کو خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں جیسے سوات، کالام۔ وادی تیراہ، وزیرستان اور دیگر برفیلے علاقوں میں آنے کی دعوتیں دے رہے ہیں۔

یہ صارفین مزید لکھتے ہیں کہ یہاں کے پشتون گاڑی کو دھکا لگانے کے پیسے بھی نہیں لیتے، یہاں کے لوگ مہمانوں کو گھروں میں ٹھہراتے ہیں۔ یہاں پر ناجائز منافع خوری نہیں ہوتی ہے، اور مری سے خوبصورت مقامات اور برفباری یہاں بھی ہوتی ہے۔

لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
کیا صرف مہمان نوازی سے علاقے کی سیاحت ممکن ہے؟
کیا صرف برف باری سیاحوں کو کھینچ لاتی ہیں؟

اگر برف باری ہی سے سیاحت پروان چڑھتی تو لوگ سیاچین اور انٹارکٹیکا جاتے، تو پھر ایسا کیا کہ لوگ پشتون علاقوں میں آنے سے کتراتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر تو ہم پشتون علاقوں وادی تیراہ وزیرستان میں سیاحت کی بحالی اور اس کو پروموٹ کرنے کی بات کرتے ہیں۔

کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اگر سیاح یہاں آ گئے تو وہ یہاں ٹھہریں گے کہاں؟

یہاں پر نا تو کوئی فیملی ہوٹلز ہے وہ تو دور کی بات یہاں پر تو ابھی تک نا ٹریفک پولیس اور نہ امن و امان کی بہتر صورت حال ہے۔

چلو یہ سب کچھ مان بھی لیتے ہیں سیاح آنا بھی شروع ہو گئے تو ان سیاحوں میں مختلف مذہب اور عقیدوں والے لوگ ہوں گے ۔ اگر واقعی ہم چاہتے ہیں کی سیاحت کا فروغ ہو تو پھر یہاں پر آزاد خیال سوچ کے مالک لوگ بھی آئیں گے۔ یہاں کھلی زلفوں اور پینٹ شرٹ میں ملبوس لڑکیاں بھی ان برفیلے مناظر سے لطف اندوز ہوں گی ۔

ہو سکتا ہے یہاں پر کپلز بھی آئے، اور وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ان برفیلی وادیوں میں ٹہلیں اور پیار و محبت کے گیت گائیں۔

سیاحت کے فروغ کے ساتھ پھر یہاں پر مختلف میوزیکل نائٹ اور کنسرٹ بھی ہوں گی ۔
کیا یہ سب کچھ ہمیں منظور ہے؟ بالکل بھی نہیں۔
تو کیا پھر ہمیں ان سب کے نامنظور ہوتے ہوئے سیاح یہاں آسکتے ہیں؟ بالکل بھی نہیں۔
تو ایسی صورت حال میں جہاں ہم اس حد تک تنگ نظر ہیں، صرف رائیونڈ کے تبلیغی ہی آسکتے ہیں۔

یہاں پر قطعی میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں پر فحاشی ہوگی تو تب ہی سیاح آسکتے ہیں لیکن کسی حد تک ہم نے بھی لچک دکھانی ہوگی جو واقعی سیاحت کا فروغ چاہتے ہیں۔

یقیناً اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی، سماجی اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اس پشتون بیلٹ میں سیاحت کے فوائد کے حوالے سے مختلف سیمینار اور پروگرامز ترتیب دیں اور ملکی و بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو بھی اس کمپین کا حصہ بنائے کیونکہ اسی میڈیا نے ہم لوگوں کی کردار کشی میں اہم کردار ادا کیا ہے تاکہ اب لوگوں کے ذہنوں سے وہ منفی اور شبہاتی خیالات کا خاتمہ کیا جا سکے۔

اس سے بھی بڑھ کر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔ اپنے اندر مختلف کلچرز، قومیت، مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قبول کریں۔ پھر کہیں جا کر پشتون علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینے کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔

دوسری طرف پشتون مہمان نوازی کا ذکر بھی کیا جاتا رہے کہ سیاح ان پشتون علاقوں کو آئیں ہم ان کو ہوٹلوں کے بجائے اپنے گھروں میں ٹھہرائیں گے، ان کی اچھی خاطر مدارت بھی کی جائے گی۔

واقعی ہم پشتون قبائل مہمان نواز ہے۔

اس حد تک مہمان نواز ہے کہ یہاں ہم نے القاعدہ کو بھی مہمان نوازی دی، ازبک تاجک کو مہمان بنایا۔ یہاں تک کہ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور چترال کے جنگجووں کو بھی ہم  نے مہمان نوازی سے نوازا۔ بات مہمان نوازی سے آگے بڑھی، ہم قبائل نے ان لوگوں کے رشتے ناتے جوڑے۔

یہاں اب کسی کے ذہن میں یہ سوال ضرور آیا ہو گا کہ یہ سب تو ریاستی اور ڈالر کی جنگ تھی۔ اس میں بڑی طاقتوں کا ہاتھ تھا ایک گریٹ گیم تھا۔

لیکن میرے مہمان نواز بھائی! کیا ہم نے کسی سے پوچھنے کی جرات کی کہ آپ پنجاب، بلوچستان اور دیگر علاقوں سے جنگ کے لئے ان قبائل کا رخ کیوں کر رہے ہیں؟ کیوں یہاں کی زمین کو پرائی جنگ کا میدان بنایا؟

یہ ہم ہی تھے جنہوں نے ان بیرونی جنگجووں کو مہمان بنایا، کسی کو ریاست نے یہ نہیں کہا ہو گا کہ ان کو آپ اپنے پاس ٹھہرائیں۔ اس تباہی میں جتنا ہاتھ دوسروں کا تھا اس سے کہیں زیادہ ہم خود مجرم ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری اندھی مہمان نوازی ہے۔

اگر اس اندھی مہمان نوازی کا یقین نہیں ہے تو برطانیہ کے مشہور جاسوس ڈیوڈ جونز المعروف بغدادی پیر کے قصے تاریخ کے اوراق میں آپ کو ملیں گی۔

اب وقت ہے کہ ہم اپنی مہمان نوازی کو پرکھنے کی کوشش کریں، اب کہیں ہم دوبارہ وہ پرانی غلطیاں نہ کر بیٹھیں۔

مختصر یہ کہ اگر واقعی ہم سیاحت کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے ہمیں گراؤنڈ پر کام کرنا ہو گا، لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کروانا ہو گی۔ ہمیں دوسروں کو قبول کرنے کا کلچر اپنانا ہو گا۔ جب ہم خود میں یہ تبدیلیاں لے آئیں گے تو پھر ہم حکومتی اداروں کو بھی مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ان علاقوں کو سیاحتی مقامات ڈکلیئر کر دیں۔

لیکن سب سے ضروری ہے کہ ہم خود اپنی سوچ اور رویوں کو بدلیں۔ پھر یہاں ملکی سیاحوں کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی لوگ آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments