ایک سیاہ فام تھا


ایک سیاہ فام تھا جس نے روشنی بکھیری اور جس کی سیاہ رنگت نے دنیا میں اجالا۔ ایک سیاہ فام تھا، جس کے بچپن میں بہنے والے آنسو اس کے بڑھاپے میں بہنے والے آنسو سے مختلف تھے، اگرچہ بچپن میں بھی وہ نسلی تفاخر کو دیکھ کر کڑھتا تھا اور آنسوؤں کا ایک دھارا اس کے گال پر لڑھکنے لگتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ جب اس کے قتل کی سازش کی جا رہی ہوگی اس وقت بھی اس کے گال سے دو آنسو پھیلنے لگے ہوں لیکن جانتے ہیں وہ آنسو بچپن میں بہنے والے آنسو سے قدرے مختلف ہوں گے کیونکہ بچپن میں بہنے والے آنسوں میں مایوسی، نا امیدی تھی اور کرب تھا جب کہ قتل کے وقت بہنے والے آنسوؤں میں آس، امید اور روشنی کی ایک ایسی جھلک تھی جس نے آگے جا کر پورے امریکہ کو روشن کر دیا تھا۔

جس ستارے کی روشنی کے ہم بات کر رہے ہیں وہ ستارہ تاریکی کے بیچ ڈوبا ہوا تھا اور اس ستارے کا نام ہے مارٹن لوتھر کنگ۔ مارٹن لوتھر کنگ پندرہ جنوری انیس سو انتیس کو امریکی ریاست اٹلانٹا میں پیدا ہوئے۔

مارٹن لوتھر کنگ کو بچپن سے ہی اس طبقاتی تقسیم کا سامنا کرنا پڑا جس طبقاتی تقسیم نے سیاہ فام لوگوں کو ایک اچھوت کی مانند معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا تھا۔ مارٹن لوتھر کنگ تھوڑا سا بڑا ہوا تو اس کے دل میں تشکیک کا پہلا مادہ ان لوگوں کے لئے بھر گیا جن لوگوں نے اس سے اس کے دوست اور یار بیلی چھینے تھے۔ مارٹن لوتھر کنگ میں سوال کرنے کا حوصلہ اس وقت پیدا ہو گیا تھا جب اس نے اپنے ہمسائے میں رہنے والی گوری میم صاحب سے یہ سوال کیا تھا اگر آپ کے بچے کل تک میرے ساتھ کھیل سکتے تھے تو تو آج کیوں نہیں؟

میم صاحب کے پاس مارٹن کے اس سوال کا جواب سوائے نفرت بھری گھوری ڈالنے اور کچھ نہ تھا۔

پھر ایک دفعہ مارٹن لوتھر کنگ نے استاد سے بھی سوال کر ڈالا تھا کے جس بنچ پر میں بیٹھ سکتا ہوں اس بنچ پر میرے ساتھ وہ گورا امریکن کیوں نہیں بیٹھ سکتا؟

اور جس بنچ پر ایک گورا بیٹھ سکتا ہے اس بنچ پر میرے لئے کیوں جگہ نہیں بن سکتی؟

یہی سوال اس کے ذہن میں ایک ہوٹل والے اور حتٰی کہ ہر راہ گیر سے تھا، ہر وہ راہ گیر جو جو امن و آشتی اور فلاح کے راستے کا مسافر تھا۔

مارٹن لوتھر کنگ نے ایک ایسے جنگ کی بنیاد رکھی جس میں ہتھیار صرف ”چار بول“ تھے۔
وہ چار بول تھے ”میرا ایک خواب ہے“

وہ غیر متشدد جدوجہد کا حامی تھا اور اسی نظریے کو لے کر وہ ایک تشدد پسند طبقے کے ہاتھوں مارا گیا لیکن اس کے متبادل سوچ نے اس قوم کو وہ متبادل راہ دکھائی کہ کہاں سے قوم نے ایک غریب سیاہ فام کو صدارت کے منصب پر بٹھا دیا۔

جی میں بات کر رہا ہوں امریکہ کے 44 ویں صدر باراک اوباما کی جو پہلے سیاہ فام امریکن صدر تھے۔

مارٹن لوتھر کنگ اپنے وفات کے بعد تک وہ کم عمر شخصیت رہے جن کو چھوٹی عمر میں نوبل پرائز سے نوازا گیا تھا۔ اور اگر ہم منصفانہ طور پر ان کی تحریک اور زندگی کے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہم پر یہ راز آشکار ہوتا ہے کہ وہ نوبل پرائز سے زیادہ کیسے اور ایوارڈ کے مستحق تھے جس میں تمام دنیا کے لوگ رنگ نسل اور علاقے کی بنیاد پر دوسرے لوگوں سے نفرت کرنا چھوڑ دیں۔ میرے خیال میں مارٹن لوتھر کنگ کے لیے اس خوشگوار رویے سے زیادہ کوئی نہیں ہو گا جس میں سب لوگ ایک دوسرے کو قبول کرنا شروع کر دیں۔

ان کے کچھ اقوال اور جملے جو مشہور ہوئے
”کہیں بھی نا انصافی ہر جگہ انصاف کے لئے خطرہ ہے“
”تاریکی اندھیرے نہیں نکال سکتی صرف روشنی ہی ایسا کر سکتی ہے۔ نفرت صرف نفرت ہی نہیں کر سکتی“
’‘ آخر میں، ہم اپنے دشمنوں کی باتوں کو نہیں، بلکہ اپنے دوستوں کی خاموشی کو یاد رکھیں گے۔ ’

’مجھے یقین ہے کہ غیر مسلح حقیقت اور غیر مشروط محبت حقیقت میں آخری لفظ ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ دائیں، عارضی طور پر شکست خوردہ، بری فاتح سے زیادہ مضبوط ہے۔ ”

”میں نے محبت سے قائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نفرت برداشت کرنا بہت ہی بوجھ ہے“
پھر ایک اور سیاہ فام بھی آیا جس کے آنسو

اس وقت نکلے جب اس کی گردن پر دو گورے اپنے فوجی بوٹ کے ساتھ سوار تھے اور اس کی آنکھوں باہر نکلنے کو تھیں اور تمام دنیا نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں پھٹنے کو تھیں۔ اس کی آنکھوں میں اترنے والے آنسو ساری دنیا کو اشکوں کی مالا پہنا گئے۔ ممکن تھا کہ دنیا میں سوچ کا ایک سیلاب آ جاتا لیکن پھر دنیا نے مادہ پرستی کے سمندر میں غوطہ لگا کر اپنی جان بچالی، اب یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ دنیا نے اپنی جان بچالی یا الٹا نسلی تعصب کے کسی اور گرداب میں پھنسنے لگی ہے؟

اب یہاں پر سوال یہ بنتا ہے کہ کیا کوئی اور مارٹن لوتھر کنگ یا جارج فلائڈ آئے گا یا دنیا اپنی اصل کو سمجھ لے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments