پوشیدہ چوٹ: عضو مخصوص کا فریکچر


یورولوجی ڈپارٹمنٹ کے تمام ڈاکٹر چائے کے کمرے میں بلقیس آپا کے ہاتھ کی بنی ہوئی خوشبودار کڑک چائے کا لطف اٹھا رہے تھے۔ بلقیس آپا کے باتھ کی چائے میں جو مزہ تھا وہ کہیں اور ملنا محال تھا۔ ٹرینی ڈاکٹر ردابہ نے ایمپریس مارکیٹ کی اسی دکان سے چائے کی پتی خریدی جہاں سے بلقیس آپا لایا کرتی تھیں مگر مجال ہے جو ان جیسی چائے کا ذائقہ حاصل ہو، ایسی چائے کہ ایک پیالی سے سیری نہ ہو۔ اسی لیے ایک پیالی ختم کر کے ڈاکٹر ردابہ نے فرمائشی نظروں سے ان کی جانب دیکھا تو شفقت بھری مسکراہٹ سے جواب دے کر انہوں نے پیالی دوبارہ بھر دی مگر حیف اسی وقت ایمرجنسی وارڈ سے کال آ گئی۔

ڈاکٹر محمود نے کال اٹینڈ کی اور ردابہ کو ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ یورولوجی کو دی جانے والی زیادہ تر ایمرجنسی کالز، مردانہ غدود کی بڑھوتری یا ایکسیڈنٹ کے باعث پیشاب کی رکاوٹ کے لئے ہوتی ہیں۔ اور پیٹ کے نچلے حصے میں مثانے سے نکاس کی نالی ڈالی جاتی ہے ٹرینی ڈاکٹر ردابہ سینئر ڈاکٹر محمود کے ہمراہ ایمرجنسی وارڈ پہنچی تو کاوچ پر ایک نوجوان کو درد سے کراہتے ہوئے پایا۔ ایک باوردی پولیس والا اس کے سرہانے چاق و چوبند کھڑا تھا اگرچہ درد سے نیلا پیلا ہوتے نوجوان سے بھاگنے کی امید کرنا بے سود تھا۔ ڈاکٹر محمود نے ایستادہ سپاہی کو پردے کے پیچھے جانے کی ہدایت کی۔ اور نوجوان کو معائنے کے لئے ایکسپوز کیا۔ پہلی نظر ڈالتے ہی انہوں نے کہا۔

”اوہ : یہ تو پینائل فریکچر کا کیس ہے“

ٹرینی ڈاکٹر ردابہ نے اس سے قبل صرف ہڈی کے فریکچر کے بارے میں سنا تھا اس نے آگے بڑھ کر دیکھا۔ عضو تناسل سوج کر کپا ہو رہا تھا۔ جلد کے نیچے جمع ہونے والا خون کاسنی رنگت اختیار کر چکا تھا۔ ڈاکٹر محمود نے فوری آپریشن کے لئے یورولوجی تھیٹر شفٹ کرنے کے احکامات جاری کیے ۔ ایمرجنسی وارڈ سے ڈپارٹمنٹ لوٹتے ہوئے ڈاکٹر محمود نے جونیر ڈاکٹر کے علم میں اضافہ کیا۔

”پینائل فریکچر ایک غیر معروف لیکن بہت اہم کنڈیشن ہے۔ آپریشن میں تاخیر عضو خاص میں تا حیات نقص یا ایستادگی کے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

”یہ کیوں ہوتا ہے سر“ ؟ ردابہ نے پوچھا

”جیسا کہ تمہارے علم میں ہو گا جنسی بیداری کے وقت سلنڈر نما کورپورا کیورنوزا میں خون در آنے سے تناؤ پیدا ہوتا ہے۔ اس حالت میں اگر عضو خاص پر ضرب پڑ جائے تو کورپورا کی بیرونی جھلی ٹیونیکا البوجینیا پھٹ جاتی ہے اور خون جلد تلے مجتمع ہو کر سوجن اور شدید درد پیدا کرتا ہے۔ ضرب شدید ہو تو پیشاب کی نالی بھی پھٹ سکتی ہے۔ مباشرت کے وقت پارٹنر کے اچانک پیچھے ہٹنے اور زوردار اپ ورڈ تھرسٹ کی وجہ سے تنا ہوا عضو تناسل پارٹنر کی محرابی ہڈی سے پوری قوت کے ساتھ ٹکراتا ہے اور فریکچر ہوجاتا ہے۔“

سر اس کی وقوع پذیری کتنی ہے ”؟

”مقامی شماریات تو مہیا نہیں لیکن امریکی شماریات کے مطابق ایک سال میں ایک ملین مردوں میں سے ایک کو یہ حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمود نے ڈپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔

تھوڑی ہی دیر میں مریض آپریشن تھیٹر میں منتقل کر دیا گیا۔ یورولوجی کے سربراہ ڈاکٹر مسعود نے ڈاکٹر محمود اور ڈاکٹر ردابہ کی معاونت کے ساتھ آپریشن مکمل کیا۔ نمکین محلول بھر کر مرمت کی درستگی کنفرم کی اور اپنی دائیں آنکھ دباتے ہوئے بولے۔ ’جوان مایوس نہیں ہو گا۔ ”

انہوں نے دستانے اور آپریشن کا گاون اتارا اور تھیٹر سے نکلتے ہوئے بولے۔ ”شام کے راونڈ پر مریض کو ڈی بریف کرنا نہ بھولنا“ ۔

========/================/=====/

ارسلان شاہ ایک اوباش امیر زادہ تھا۔ پیسے کی ریل پیل، مردانہ وجاہت اور خوشامدی دوستوں نے اسے گھمنڈی کر دیا تھا۔ وہ سمجھتا تھا ہر چیز اس کی ملکیت ہے ہر شے پر پر اس کا تصرف ہے۔ شراب نوشی اس کے حلقہ احباب میں اسٹیٹس سمبل تھا۔ شباب سے حظ اٹھانا اس کے لئے معمول کی تفریح تھی۔ اب وہ اس معمول میں کوئی جدت چاہتا تھا۔ خریدی ہوئی جوانیاں اسے بیزار کرتی تھیں جو پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی گود میں آ گرتی تھیں۔ وہ کچھ لہو گرمانے والا ایڈوینچر کرنا چاہتا تھا۔

حریم یونیورسٹی کی مقبول ترین اسٹوڈنٹ تھی۔ حسن و جمال میں یکتا اور فہم و فراست میں قابل رشک۔ اس کی حاضر جوابی اور شوخی سونے پہ سہاگہ تھی۔ ارسلان کے دوست نے اسے پٹاخہ کا لقب دیا تھا۔ اس کے بقول لڑکی پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتی تھی۔ ارسلان کے دوستوں نے اکسایا لہو گرمانا ہے تو اکھری گھوڑی پر سواری کرے۔ ارسلان شاہ نے حریم کو اپنی وجاہت اور دولت سے مرعوب کرنے کی کوشش کی لیکن وہ واقعی منہ زور تھی ایک پرائمری ٹیچر کی اولاد ہو کر بھی جانے خود کو کیا سمجھتی تھی۔

دوستوں نے ارسلان کو طعنے دے کر انگیخت کر دیا تھا اور وہ ہر صورت حریم کو زیر کرنا چاہتا تھا۔ جب وہ کسی صورت اس کے دام میں نہ آئی تو اسے مزہ چکھانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اس روز پریکٹیکل کی وجہ سے دیر ہو گئی تھی۔ حریم اپنی کلاس فیلو کے ساتھ بس اسٹاپ پر کھڑی تھی۔ اسے ایک نامعلوم بے چینی کا احساس ہو رہا تھا۔

”اللہ خیر کرے امی کی طبیعت کہیں پھر نہ بگڑ گئی ہو“ اس نے سوچا اور بے قراری سے دائیں جانب سے آنے والی بسوں میں اپنی بس کی تلاش میں نگاہ دوڑانے لگی۔ تب ہی ایک سیاہ کار اس کے نزدیک اکر رکی، پچھلا دروازہ کھلا، دو تنو مند بازووں نے اسے اندر گھسیٹا اور دروازہ بند کرتے ہی گاڑی روانہ ہو گئی۔ اس کے حلق سے برامد ہونے والی ہر چیخ کی راہ منہ پر رکھے ہاتھ نے مسدود کردی۔ بس اسٹاپ پہ کھڑے لوگ ذرا سی دیر کو ٹھٹکے اور پھر مگن ہو گئے جیسے چلتی ہوا نے کوئی زرد پتہ اڑا دیا ہو اور بس۔ حریم کی کلاس فیلو نے کانپتی انگلیوں سے حریم کے گھر کا نمبر ڈائل کیا۔ بیل جا رہی تھی۔

====/====================/===

جبر و کراہ کے کتنے لمحے، منٹ گھنٹے، گزرے اسے اندازہ نہیں تھا۔ وقت نزع کے پیمانے الگ ہوتے ہیں۔ منہ اور ناک پر رکھے ہاتھوں سے اس کا سانس بند ہو رہا تھا وہ اپنی پوری توانائی سے اس مسٹنڈے کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ گاڑی شہر کی حدود سے نکل کر سنسان سڑک پر دوڑنا شروع ہوئی تو اسے سانس لینے کی آزادی دے دی گئی۔ تاہم اسے منہ بند رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ بستی میں کسی نے اس کی داد رسی نہ کی تو اس ویرانے میں کون آئے گا۔ اس لئے اس نے بھی اپنی توانائیاں کسی اور مقصد کے لئے اٹھا رکھیں۔ گاڑی ایک فارم ہاؤس پر ٹھہری تھی۔ اسے کسی بھیڑ بکری کی طرح ہنکا کر اندر لے جایا گیا۔ ارسلان شاہ کو دیکھ کر وہ زخمی شیرنی کی طرح دہاڑی

”کیوں اغوا کیا ہے مجھے؟“

”دھیرج جان من دھیرج۔ وہ اس کے قریب آتے ہوئے بولا۔ تم نے کوہ پیماؤں کو دیکھا ہے۔ ٹی وی پر تو دیکھا ہو گا۔ سخت موسم، دشوار گزار چڑھائیوں کو سر کرتے چوٹی پر پہنچ کر بھلا انہیں کیا ملتا ہے بس یہی جاننا چاہتا ہوں۔“

”اس مہم جوئی میں کوہ پیما کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے“ حریم بے خوفی سے بولی۔ تمہارے لئے بہتر ہے کہ مجھے میرے گھر واپس بھیج دو۔ ”

”کس کی موت ہوتی ہے۔ مہم جو کی یا تمہاری اکڑ کی کل دیکھتے ہیں۔ ابھی گھر جا رہا ہوں۔ کھانا کھا لینا جان من۔ اس حسین چہرے پر نقاہت اچھی نہیں لگے گی۔ اس نے اس کا چہرہ چھوتے ہوئے کہا حریم نے اس کا باتھ پوری قوت سے جھٹکا۔

”جان ہے“ ۔ ارسلان شاہ نے گھٹیا انداز میں آنکھیں مٹکائیں۔
================================

ارسلان شاہ کو بتایا گیا تھا کہ حریم ایک پرائمری اسکول ٹیچر کی بیٹی ہے اس لئے اسے کسی زبردست ردعمل کا خوف نہیں تھا۔ غریب عزت دار ٹیچر دو دن تو سوچنے میں ہی گزار دے گا کہ رپورٹ کرائے یا نہیں تب تک اس کی بچی کھچی عزت گھر پہنچا دی جائے گی۔ تاہم ارسلان یہ بات نہیں جانتا تھا کہ علاقے کا ایس ایچ او حریم کا ماموں زاد ہے۔ جونہی موقع پر موجود حریم کی کلاس فیلو نے اس کے والد کو اطلاع دی انہوں نے حریم کے کزن ایس ایچ او کو مطلع کر دیا۔

ایف آئی آر درج کرلی گئی۔ ابتدائی تفتیش میں شک ارسلان شاہ پر ہی جاتا تھا لیکن اس پر ہاتھ ڈالنے کے لئے اوپر والوں کی آشیرواد ضروری تھی۔ آخرکار حریم کی بازیابی کے لئے ارسلان شاہ کے فارم ہاؤس پر چھاپہ مار ٹیم روانہ کر دی گئی۔ ایس ایچ او عارف علی خود اس ٹیم کی سربراہی کر رہا تھا۔ جب پولیس کمرے میں داخل ہوئی تو عجیب سٹپٹا دینے والا منظر تھا۔ ارسلان شاہ نیم برہنہ حالت میں زمین پر جھکا ہوا کراہ رہا تھا اور حریم ایک چادر لپیٹے کونے میں کھڑی تھی۔ عارف علی نے سپاہیوں کو ارسلان کی گرفتاری کا حکم دیا اور خود حریم کو لے کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ سپاہی اس کے پیچھے آتے ہوئے بولا ”سر! پوشیدہ چوٹ ہے۔ وہ بہت بری حالت میں ہے اسپتال لے جانا ہو گا۔“

”ٹھیک ہے سول اسپتال لے جاؤ اور ایم ایل کٹواؤ“ عارف علی نے کہا۔
=========/====================

شام کو وارڈ کے راونڈ کے دوران ڈاکٹر محمود اور ڈاکٹر ردابہ مریض کے پاس گئے اور اسے آپریشن کے بارے میں بریف کیا۔ وہ بہت خوفزدہ دکھائی دیتا تھا۔ بار بار پوچھ رہا تھا آپریشن کامیاب ہو گیا ہے نا۔ کوئی کمی یا کجی تو نہیں رہ جائے گی۔ ڈاکٹر محمود نے اس کے ہر سوال کا تفصیل سے جواب دیا اور اس کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی۔ مجرم بھی ہو تو ڈاکٹر کے لئے تو ایک مریض ہی تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments