ٹریفک حادثات: ذمہ دار کون؟


2008 ء میں امریکہ یاترا کے دوران ایک رات، اپنے دوستوں کے ساتھ مقامی جھیل سے واپسی کے دوران ہمیں سڑک کے بیچوں بیچ چند ہرن خوش خرامیوں میں مشغول دکھائی دیے تو ڈرائیور نے ان سے پچاس میٹر کے فاصلے پر گاڑی روک لی، اسی دوران سامنے سے آنے والی چند گاڑیاں بھی رک چکی تھیں۔ ہم یہ منظر ایک دو منٹ تک دیکھتے رہے لیکن کسی بھی ڈرائیور نے گاڑی کا ہارن بجا کر ان کے آرام میں مخل ہونے کی کوشش نہ کی۔ پانچ منٹ بعد سب ہرن خاموشی سے اٹھے اور جنگل کی راہ لی۔

تب گاڑیاں اپنی اپنی منزل کی طرف رواں ہو گئیں۔ میں نے اپنے میزبان سے پوچھا کہ یہ کیا؟ تو اس نے بتایا کہ مقامی قانون کے مطابق اگر کوئی جانور سڑک پر آ جائے تو ہم اسے ایک طرف ہٹانا تو درکنار، ہارن بجا کر بھی خوف زدہ نہیں کر سکتا۔ میں حیرت زدہ اس کو دیکھتا رہ گیا اور میری آنکھوں کے سامنے وطن عزیز میں ٹریفک حادثات کے بعد سڑکوں پر پڑے بے جان لاشے پھرنے لگے۔ میں سوچنے لگا کہ اس ملک میں جانوروں کی جان اتنی قیمتی ہے لیکن میرے وطن میں تو سڑکوں پر بکھرا خون بہت ارزاں ہے۔

گزشتہ ماہ، مسافر خانہ کی قومی شاہراہ پر تین بچوں کی المناک موت اور مقامی افراد کی توڑ پھوڑ کے مناظر ابھی ذہن سے محو نہیں ہوئے تھے کہ دو دن پہلے چاند گاڑی نما رکشہ میں موجود سترہ میں سے چار بچوں کی ہلاکت کا حادثہ سامنے آ گیا۔ اس حادثہ سے نہ صرف علاقے میں سوگ کا عالم ہے بلکہ مقامی افسران اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ بھی ان حادثات کی جانب مبذول ہوئی، مقامی ایس ایچ او کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ ڈی ایس پی ٹریفک اور مقامی ڈی ایس پی کی انکوائری بھی شروع ہو چکی ہے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ موصوف نے اس حادثہ کے ذمہ داران کا تعین کرنے کے ساتھ اس کی وجوہات کی تلاش کے لئے کوئی مشیر خاص مقرر نہیں کیا۔

دیکھا جائے تو ہمارے سر پر بیٹھے تمام اعلیٰ اہلکار اور عہدیدار کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہیں، اسی ماحول میں ہر پل بڑھ کر بڑے ہوتے ہیں۔ جہاں اگر ڈرائیور کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہو تو سمجھو وہ سڑک کا عزرائیل ہے جس کی غفلت کی وجہ سے چند قیمتی جانیں چلی جاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ پہلی پیشی پر ہی اس کی ضمانت ہو جاتی ہے اور حادثے کا سبب بننے والی گاڑی تو مقامی مجسٹریٹ فوراً سے بیشتر ہی مالک کے حوالے کر دیتا ہے کہ اب جا رک دوسرا ڈرائیور تلاش کرو جس کے پاس لائسنس ٹو کل موجود ہو۔ اسی دوران اس حادثے میں فوت شدگان بھی اللہ کی رضا سمجھ کر ڈرائیور کو معاف کر دیتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق ٹریفک حادثات کی وجہ سے زیادہ تر ہلاکتیں دنیا کے غریب اور متوسط آمدنی والے ملکوں میں ہوتی ہیں اقوام متحدہ کے ذریعے سن دو ہزار تیس تک دنیا بھر میں ٹریفک کے حادثوں میں کمی لانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ ایک عالمی تحقیقاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں ہلاکتوں کا باعث بننے والے پچاس عوامل اور بیماریوں میں ٹریفک حادثات پندرہویں نمبر پر ہیں۔ ایک اور تحقیق اور اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایڈز، ناقص خوراک، مرگی، تشدد کئی قسم کے سرطان اور خودکشیوں کی وجہ سے انفرادی طور پر ہونے والی اموات سے ٹریفک حادثات میں مرنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ 2019۔ 20 کے دوران پاکستان میں 9701 حادثات ہوئے لیکن صرف پنجاب میں 4294 حادثات ہوئے۔ 2020۔ 21 کے دوران ان حادثات کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

پاکستانی قانون کا تو حال ابتر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی بات بھی کرتے چلیں، دس سال پہلے میں نے سکول کے بچوں کو لانے اور لے جانے کے لئے قسطوں پر ایک رکشہ خریدا، جب اس کے کاغذات بنوانے کی باری آئی تو مجھے پتہ چلا کہ بطور لوڈر تو اس کی رجسٹریشن ہو سکتی ہے لیکن سواریاں اٹھانے کے لئے اس کی رجسٹریشن مشکل ہے۔ لیزنگ کمپنی نے کیسے اس کی رجسٹریشن کروائی، یہ ایک الگ داستان ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پورے پاکستان میں موت بانٹنے والی چاند گاڑیاں اور موٹر سائیکل ریڑھیوں کو کس قانون کے تحت سڑک پر آنے کی اجازت دی جاتی ہے، اگر کسی اہلکار اور وزیر مشیر کی نظروں کے سامنے یہ موٹر سائیکل ریڑھی نہیں گزری تو کبھی سڑک پر سفر رکتے ہوئے غور فرمائیں کہ موت بانٹنے والی یہ ریڑھیاں اور چاند گاڑیاں ہمیشہ ایک بڑے حادثے کا سبب بنتی ہیں، ایمرجنسی کے دوران ان کا توازن بگڑنا اور قابو سے باہر ہونا معمول کی بات ہے جس کی وجہ سے اکثر قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔

وطن عزیز پاکستان میں ٹریفک حادثات کی وجوہات اور اسباب کو تعین کرنا ہو تو آپ کسی بھی ہڈی وارڈ میں چلے جائیں جہاں آپ کو 80 فیصد سے زیادہ موٹر سائیکل حادثے کے شکار افراد ملیں گے۔ کیا ہمارے ہمدرد قانون ساز افراد کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتے جس سے کم از کم ایسے افراد ہی موٹر سائیکل چلا کر شاہراہوں پر آئیں جن کے پاس کم از کم ڈرائیونگ لائسنس لازمی ہو۔ ہمیں اکثر دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ فلاں مقام پر ایک کار والے نے موٹر سائیکل سوار کو بچاتے ہوئے اپنی جان دے دی، یا کسی چاند گاڑی کو بچاتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گیا۔

ٹریفک اہلکار کی امانت اور صداقت اپنی جگہ لیکن شہر میں تعینات کسی بھی ٹریفک اہلکار کو میں نے بغیر لائسنس کم عمر بچوں اور افراد کو روک کر چالان کرتے نہیں دیکھا، اس کے علاوہ موٹر وے پولیس اہلکار ان کی کارکردگی کا میں چشم دید گواہ ہوں جن کو فوٹو سیشن اور روزانہ کی بنیاد پر مقرر کردہ چالان کاٹنے کے علاوہ مٹر گشت کرتے ہوئے میری ان آنکھوں نے بذات خود دیکھا ہے۔ آپ کسی بھی موٹر وے افسر کی چالان بک کا وقت پڑھ لیں تو انہوں نے اپنی مقرر کردہ چالان کی تعداد ایک سے دو گھنٹے میں پوری کرنی ہوتی ہے۔

جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے قومی شاہراہ کی تعمیر کے وقت اکثر بائی پاس رشوت یا سفارش کی بنیاد پر بنائے ہیں جب کہ اکثر چھوٹے قصبات کے درمیان سے ہی اس اہم شاہراہ کو گزارنے پر اکتفا کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے آئے روز حادثات ایک معمول بن چکے ہیں، جب بھی کوئی بڑا سانحہ ہوتا ہے تو تمام افسر وردی پیٹی کس کر میدان میں نکل آتے ہیں لیکن چند دنوں کے بعد پھر وہی معمول کی بے احتیاطی اور لاپرواہی دیکھنے میں آتی ہے۔

دیکھا جائے تو ڈرائیونگ مہارت کے فقدان، کم عمری کی ڈرائیونگ، دوران ڈرائیونگ موبائل فون اور نشہ آور اشیاء کا استعمال، اوورلوڈنگ کے ساتھ ساتھ حادثات کی سب سے اہم وجہ ہمارے نفسیاتی رویے بھی ہیں۔ قانون شکنی تو جیسے ہماری گھٹی میں پڑی ہے، اس کی سب سے بڑی مثال، آج علی الصبح میرے سامنے آئی جب میں نے دھند کے اس موسم میں ایک موٹر سائیکل سوار کو قومی شاہراہ کے درمیان رک کر بچوں کو بائیک سے اتارتے اور ان کو دوسری جانب سڑک پار کرواتے ہوئے دیکھا۔

میں اس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ شاید جوان کو اتنی جلدی تھی کہ اس نے سڑک پار کرنے کی بجائے سڑک کے درمیان ہی بچوں کو اتار دیا تاکہ میرا قیمتی وقت بچ سکے، لگتا یوں تھا کہ اس جوان پر کوئی قیامت ٹوٹی ہوئی ہو، میں روزانہ سڑک پر تعلیم یافتہ افراد کو غلط سائیڈ سے سڑک پار کرتے دیکھتا ہوں تو دل کڑھتا ہے کہ ہم کیسی قوم ہیں؟ ہمیں آج تک تک کسی نے یہ نہیں سکھایا کہ سڑک کہاں سے اور کیسے پار کرنی ہے؟ مد مقابل کو نیچا دکھانے اور شکست دینے والے اکثر ڈرائیور حضرات کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ میرے پیچھے پچاس افراد نہیں بلکہ پچاس خاندان سفر کر رہے ہیں جن کی جانوں کی ذمہ دار میرے کندھوں پر ہے۔ میں نے اکثر سواریاں اٹھانے کے لالچ میں دو مسافر بسوں یا کوچز کے درمیان مقابلہ بازی کے مناظر دیکھے ہیں۔ جن کا اکثر انجام بہت خطرناک ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments