ہر جا اندھیرا


مملکت خداداد پاکستان جس مقصد کے لئے قائم کی گئی۔ جس کاز کے لاکھوں مسلمانوں نے قربانی پیش کیں۔ ماؤں بہنوں نے اپنی عزت و آبرو اور دیں۔ سو سال کے طویل صبر آزما جدوجہد کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ وہ کاز، وہ مقصد، وہ عزم ابھی تک پورا نہیں ہوسکا۔

چاروں اور اندھیرا نکلا
جانے کہاں سویرا نکلا

قائداعظم کی وفات اور قائد ملت کی شہادت کے بعد جو اس ملک کی ڈاکٹرائن بنائی گئی، اس نے نہ تو ملک کو ترقی دی نہ ہی عوام کو پاکستان کے حقیقی مقصد میں کامیاب ہونے دیا۔ بیوروکریسی اور مقتدرہ نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا۔ رہی سہی کسر سیاہ ست دانوں پوری کردی جنہوں نے اس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھا۔

گورنر جنرل ملک غلام محمد نے ملکی سیاست میں جو بیج بویا تھا آج وہ تناور درخت بن چکا ہے۔ جس کے کڑوے پھل کا مزہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔

سال بہ سال وطن عزیز کے لئے نازک سے نازک ہوتا جا رہا ہے۔ جو حکومت آتی ہے وہ اپنے تئیں عوام کی ہمدردی کا درد اور غم لے کر عوام کے تابوت میں کیل ٹھونکتی ہی جا رہی ہے۔ آج کی حزب اختلاف جو عوام کی تکلیف اور دکھ درد سے تڑپ رہی ہے وہ سابقہ ادوار میں حکمران تھی، انہوں نے اپنے دور حکومت میں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہادری جو آج عوام کے حقیقی نمائندے ہونے کے دعویدار ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اتنی بے ضمیر ہو چکی ہیں اپنی نا اہلی، بدعنوانی کو اپنے کارنامے شمار کر رہے ہیں۔ اور آج کی حکمران جماعت جس نے انتخابی مہم چلائی ہی اس بات پر تھی کہ وہ سابقہ حکمرانوں سے مختلف ہے۔ مگر افسوس عوام کی قسمت میں ابھی بھی ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

مہنگائی ایک طرف، مگر حکومتی نا اہلی اور ہڑبونگ دعوؤں نے حکومت کی اہلیت و قابلیت عیاں کردی ہے۔ ”اونچی دکان پھیکے پکوان“ کے مصداق وزیراعظم سمیت ہر وزیر اپنی دانست میں لمبی لمبی چھوڑنے میں مصروف ہے۔

عمران خان کی نیک نیتی پر ہمیں شک نہیں مگر ان کا وزراء پر اندھا اعتماد انہیں آہستہ آہستہ کھائی کی طرف لے جا رہا ہے جہاں سے واپس آنا شاید ناممکن ہو۔ ریاست مدینہ بنے نہ بنے انہوں نے اپنی اس خامی کی بدولت پاکستان کو ”بنانا ریپبلک“ ضرور بنا دیا ہے۔ جہاں پر قانون صرف غریب کے لئے ہے۔ ٹیکس صرف غریب سے لیا جا رہا ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔

انقلاب فرانس کے محرکات کو پڑھا جائے تو جو وطن عزیز میں ہو رہا ہے وہی کچھ فرانس میں بھی ہو رہا تھا۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں انقلاب کے ساتھ سقوط ڈھاکہ دوہرا نہ دیا جائے۔

حالیہ واقعۂ مری انتظامیہ و حکومت کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مگر وزراء کی ڈھٹائی اپنی جگہ قائم ہے۔

اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نا ڈرتے ہیں۔ نا نادم ہیں

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اس دکھ کی گھڑی میں سڑکوں پر عوام کے درمیان ہونا چاہیے تھا مگر وسیم اکرم پلس ہیلی کاپٹر میں فضائی نگرانی کرتے رہے اور پھر گھر سدھار گئے۔

نوٹس لینا، تحقیقاتی کمیٹی بنا دینا پاکستان میں بڑا ہی محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ عوام اور میڈیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے یہ اقدام کیا جاتا ہے۔ مگر آج تک کسی بھی واقعے کی انکوائری مکمل ہوئی اور نہ ہی اصل ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عوام سے اربوں روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔ پیٹرول، دودھ، اشیائے خورد و نوش میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ وقت بہت قریب ہے، جب لوگ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے بجائے سائیکل یا گدھوں گھوڑوں پر سفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم پتھر کے دور میں واپس جا رہے ہیں۔

عمران خان کو اگر اپنے وژن میں کامیاب ہونا ہے تو سب سے پہلے بیوروکریسی میں اصلاحات نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہی وہ انسٹیٹیوشن ہے جہاں سے برائیاں پھیل رہی ہیں اور یہی وہ جگہ جہاں سے برائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ سرکاری افسران کی کرپشن اور نا اہلی نے اس ملک کی تباہ حالی میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ میرٹ کا قتل عام اور رشوت خوری عام ہے۔ اگر علاقے کا اسسٹنٹ کمشنر ہی اپنے فرائض کو ایمانداری اور دیانت داری سے انجام دے تو کوئی شک نہیں کہ اس کے اپنے حلقہ میں عوام کے مسائل حل نہ ہوں۔ یہاں تو ملک کے سب سے بڑے شہر کا کمشنر دودھ مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ تو پھر چھوٹی مچھلیوں کی کیا اوقات ہے۔

گزشتہ ماہ جب میں اسلام آباد کے دورے پر تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ریاست مدینہ ایکٹ پر کام جاری ہے۔ بہت ہی خوش آئند اقدام ہے۔ مگر اس کو نافذ کرنا لوہے کے چنے چبانے سے کم نہیں ہو گا۔ اس کی سب سے پہلی مخالفت انہی لوگوں کی طرف سے آئے گی جو اس ملک کو باپ کی جاگیر سمجھ کر لوٹ رہے ہیں۔

مملکت کی ذمہ داری وزیراعظم کے سر ہوتی ہے، اچھا یا برا سب کا کریڈٹ اسی کو ملتا ہے۔ عمران خان کو اپنے خول سے باہر آنا ہو گا۔ زمینی حقائق کا خود بغور جائزہ لینا ہو گا۔ عوامی مسائل کو سنبھالنا ہو گا۔ اگر اپنی حکومت کے آخری سال میں بھی وہ وزراء اور مشیروں کی باتوں پر ہی اعتبار کرتے رہے تو اگلے انتخابات میں عبرت ناک شکست ان کی راہ دیکھ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments