نور مقدم کیس: ’سٹیٹ کونسل معاونت کے لیے ہوتی ہے نہ کر مشکلات پیدا کرنے کے لیے‘

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


ایک سابق سفارت کار کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے والی اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جج عطا ربانی نے کہا ہے کہ عدالت اس مقدمے کا جلد از جلد فیصلہ کرنے کی خواہاں ہے لیکن اس مقدمے کو حتمی نتیجے تک پہنچانے میں سٹیٹ کونسل کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔

پیر کے روز اس مقدمے کی سماعت میں مقدمے کے مدعی اور مقتولہ کے والد شوکت مقدم پر دو ملزمان کے وکلا اور سٹیٹ کونسل کی طرف سے جرح کی جانی تھی تاہم سٹیٹ کونسل سکندر ذوالقرنین کے جونیئیر وکلا کی جانب سے درخواست دی گئی کہ چونکہ سٹیٹ کونسل کو کورونا ہو گیا ہے لہذا اس مقدمے کی سماعت چند روز کے لیے ملتوی کر دی جائے۔

اس پر متعقلہ عدالت کے جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر مقدمہ التوا میں نہیں رکھا جاتا۔ انھوں نے کہا کہ اس مقدمے پر فیصلہ دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ نے متعقلہ عدالت کو چھ ہفتوں کی مزید مہلت دے رکھی ہے جس میں سے آدھے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے۔

سٹیٹ کونسل کے جونئیر وکلا نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس مقدمے کو التوا میں رکھنے کی درخواست نہیں کر رہے بلکہ ایک درخواست اور بھی ہے کہ سٹیٹ کونسل کو سکائپ کے ذریعے مدعی مقدمہ پر جرح کرنے کی اجازت دی جائے۔

عدالت نے درخواست کو منظور کرتے ہوئے سٹیٹ کونسل کو ویڈیو لنک کے ذریعے مدعی مقدمہ پر جرح کرنے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے حکم دیا کہ ویڈیو لنک لگانے میں جتنا وقت لگے گا اس دوران کیوں نا اس مقدمے کے تفتیشی افسر کا بیان ریکارڈ کرلیا جائے جس پر ملزمان کے وکلا نے کہا کہ انھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر انسپکٹر عبدالستار نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ انھیں 20 جولائی سنہ 2021 کو تھانہ کوہسار کے علاقے میں ایک لڑکی کے قتل ہونے کی اطلاع ملی۔

یاد رہے کہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی نور مقدم کو گذشتہ برس 20 جولائی کو قتل کیا گیا تھا جس میں پولیس کی تفتیش کے مطابق نور مقدم کو تیز دھار کے آلے کی مدد سے گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا۔ نور مقدم کے قتل کی ایف آئی آر اُن کے والد اور سابق سفیر شوکت مقدم کی مدعیت میں درج کروائی گئی تھی جس میں مقتولہ کے دوست ظاہر جعفر کو نامزد کیا گیا تھا۔

تفتیشی افسر نے اپنے بیان میں کہا کہ جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو اس مقدمے کے مدعی اور متقولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم پہلے سے ہی جائے حادثہ پر موجود تھے۔ تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ جب وہ ٹیم کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو وہاں مدعی مقدمہ شوکت مقدم پولیس کے ہمراہ موجود تھے۔

نور مقدم

وہ مکان جہاں نور مقدم کا قتل ہوا

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ جب وہ گھر کی پہلی منزل پر واقع ایک کمرے میں گئے تو وہاں پر نور مقوم کی لاش پڑی ہوئی تھی اور اس کا سر تن سے جدا تھا۔ انسپکٹر عبدالستار نے عدالت کو بتایا کہ جائے وقوعہ سے لاش کو ہسپتال بھجوایاگیا اور جائے حادثہ سے چھری سمیت دیگر سامان برآمد کیا گیا۔

اس مقدمے کے شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ سمیت دیگر دو ملزمان کے وکلا نے اعتراض اٹھایا کہ تفتیشی افسر اس مقدمے کی ضمنی پڑھ کر اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے ہیں جس پر عدالت نے جواب دیا کہ پہلے تفتیشی کو اپنا بیان قلمبند کراونے دیں پھر اس کے بعد ان کا اعتراض لکھا جائے گا۔

’ملزم ظاہر جعفر کا چیک اپ کروا کر عدالت کو رپورٹ کریں‘

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ وقوعہ کے چار روز کے بعد اس مدعی مقدمہ نے اپنے اضافی بیان میں مزید نو افراد کو نامزد کیا جن میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی بھی شامل ہیں۔ تفتیشی افسر کے بقول مدعی مقدمہ کے اس اضافی بیان کی روشنی میں نو ملزمان کو حراست میں لیا گیا اور انھیں اعانت مجرمانہ کی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو اس سی سی ٹی وی فوٹیج کے بارے میں بھی بتایا جو کہ مرکزی ملزم کے گھر کے باہر سے حاصل کی گئی تھی جس میں ظاہر جعفر مقتولہ نور مقدم کو زبردستی کھینچ کر گھر کے اندر لے کر جا رہا ہے۔

جوں ہی تفتیشی افسر کا بیان ختم ہوا تو شریک ملزم کے وکیل عثمان ریاض روسٹم پر آئے اور انھوں نے کہا کہ آج کی تمام عدالتی کارروائی غیر قانونی ہے جس پر جج عطا ربانی نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طرح کے بیانات دے کر عدالتی امور میں رکاوٹیں پید کر رہے ہیں۔

شریک ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا جا رہا جبکہ اس بارے میں دیگر ملزمان کے وکلا نے بھی اعتراض اٹھایا تھا لیکن اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔

ایک اور ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق ظاہر جعفر چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس پر متعقلہ عدالت کے جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اڈیالہ جیل کے حکام کو خط لکھا ہے کہ وہ ملزم کا چیک اپ کروا کر عدالت کو رپورٹ دیں۔

ظاہر جعفر

نور مقدم کے قتل کے کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر ہیں

ملزمان کے وکلا کے استفسار پر اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو کرسی پر بٹھا کر کمرہ عدالت میں لایا گیا جسے دیکھ کر متعدد ملزمان کے وکلا نے کہا کہ ایسا محسوس ہوا ہے کہ ملزم کی ذہنی حالت خراب ہو چکی ہے تاہم جج نے اس پر کوئی درعمل نہیں دیا اور اسی پر ہی اکتفا کیا کہ متعقلہ حکام کو ملزم کا چیک اپ کروانے کا حکم دے رکھا ہے۔

اس مقدمے کا مرکزی ملزم کچھ دیر کمرہ عدالت میں موجود رہا اور پھر عدالتی حکم پر اسے دوبارہ بخشی خانہ لے جایا گیا۔

خفا نہ ہوں لیکن سوال کرنا میرا کام ہے

اس مقدمے کے سرکاری وکیل سکندر ذوالقرنین نے مدعی مقدمہ پر ویڈیو لنک کے ذریعے جرح کی۔ سرکاری وکیل کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مدعی مقدمہ شوکت مقدم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی بیٹی نور مقدم کے بارے میں جاننے کے لیے ظاہر جعفر کے گھر گئے اور انھیں یہ امید تھی کہ مرکزی ملزم کے والد اور والدہ گھر پر موجود ہوں گی لیکن وہ وہاں پر نہیں تھے۔

سرکاری وکیل کے سوال کے جواب میں مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے بتایا کہ ان کے تین بچے تھے جن میں سے سب سے بڑی بیٹی کی عمر35 برس، بیٹے کی عمر 33 برس اور نور مقدم کی عمر27 برس تھی جبکہ ان کی اہلیہ کا نام کوثر ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نور مقدم کیس: ’پھانسی دے دیں یا معافی، میں جیل میں نہیں رہ سکتا‘

نور مقدم کیس: وہ قتل جس نے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا

’عدالت کا حکم تھا کہ یہ فوٹیج کہیں نشر نہ ہو، تو کیسے یہ ویڈیوز نشر کی گئیں‘

ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی جائے: نور مقدم کے والد کی عدالت سے استدعا

انھوں نے کہا کہ ان کے بیٹے محمد علی نے اپنی بہن کے قتل سے متعلق ہونے والی تفتیش میں کبھی بھی شمولیت نہیں کی۔ سرکاری وکیل نے مدعی مقدمہ سے سوال کے دوران یہ بھی کہا کہ اس حادثے پر انھیں افسوس ہے لیکن سوال کرنا ان کی مجبوری ہے۔

شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ نور مقدم نے انھیں اطلاع دی تھی کہ وہ دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے یہ بات اپنی ماں کو بھی بتائی تھی لیکن اس مقدمے میں اس بات کا ذکر نہیں ہے۔

شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو ظاہر جعفر کے گھر جانے سے نہیں روکا۔ اس جواب پر ریاستی وکیل نے مدعی مقدمہ سے جرح کے دوران سوال کرنے سے پہلے کہا کہ وہ اس سوال سے خفا نہ ہوں اور سوال یہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سفارتکار رہے ہیں اور کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لڑکے اور لڑکی کا اس طرح کا تعلق رکھا جا سکتا ہے۔

شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ ملزم اور مقتولہ دونوں طالبعلم تھے اور یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ سرکاری وکیل کے اس سوال پر مدعی مقدمہ کے وکیل نے بھی اعتراض اٹھایا اور جج نے بھی کہا کہ وہ اس سوال کو ڈراپ کر دیں تاہم اس سوال کو ڈراپ کرنے کے بارے میں عدالت کی طرف سے کوئی حمتی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ جب مدعی مقدمہ اس بارے میں سوال کا جواب دے رہے ہیں تو پھر دوسروں کو کیوں اعتراض ہے۔ سرکاری وکیل نے سوال کیا کہ کیا ان کی بیٹی اور ملزم ظاہر جعفر کلاس فیلو تھے جس پر شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی اور ملزم کلاس فیلو نہیں تھے اور نہ ہی ان کے علم میں ہے کہ ظاہر جعفر کو لندن سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔

سرکاری وکیل کی مدعی مقدمہ پر جرح مکمل ہونے کے بعد اس مقدمے کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments