ڈاکٹر سدھو : میں آپ سے شرمندہ نہیں ہوں


پچھلے 14 سال سے میں ڈاکٹر چرن داس سدھو کی تلاش میں ہوں

وہی چرن داس سدھو کہ جو ”سدھو“ نہ ہو کر بھی سدھو تھے، اور ”منو“ کے اس ”جات چکر“ میں پھنس کر بھی صاف نکل گئے تھے کہ جس نے آج تک ہندوستان کو اپنی چٹیا کا اسیر کر رکھا ہے

ڈاکٹر چرن داس کہ جو ڈرامے لکھتے نہیں، گھڑتے تھے، جن کے ڈرامے میرے گھر میں چھپائے نہیں چھپتے تھے اور جن کی کتابیں بچوں کے درازوں اور تکیوں کے نیچے سے نکال نکال کر اور جلدیں کروا کروا کر میں تھک چکا تھا۔ سائنس پڑھنے والے بچے خوب سمجھتے تھے، میں جب تکیوں کے نتیجے سے ڈانٹتے ہوئے ”میری ادبی آپ بیتی“ نکالتا تو وہ مسکرا کر ایک دوسرے کی جانب دیکھتے۔ جیسے کہ رہے ہوں۔ بابا آج پھر بتائیں گے

”ڈاکٹر صاحب 2007 میں مجھے دلی میں ملے تھے، اپنی کتابوں کا سیٹ دیتے وقت وہ کتنی محبت سے بتا رہے تھے“ ’ ”جیون بھر کے کام کو اردو میں کر لیا، اب میں مطمئن ہوں، پڑھنا ضرور، آپ کی بولی میں‘ میرے ڈراموں کی طرح ہوشیارپور بستا ہے، زندگی رہی تو پاکستان آؤں گا، رحیم یار خان جانے کو بہت من کرتا ہے، وہاں میرے بھیا کی دیسی جوتوں کی دکان تھی“

لیکن میں نے کئی سال تک ان کتابوں کی طرف منہ نہ کیا، ، اس خیال سے کہ سائنس کی پڑھائی پر مجبور بچے کہیں گمراہ نہ ہو جائیں

یہ کتابیں باقی کتابوں سمیت پیک اور سیل بند ہو کر سٹور میں پڑی رہیں
کئی سال بعد جب دیکھا کہ اب بچوں کو ان کو کتابوں سے کوئی خطرہ نہیں تو پڑھنا شروع کر دیا۔

ڈراموں اور خودنوشت کا اردو ترجمہ دل کو نہ لگا۔ ہم کہ عربی فارسی کے بوجھ تلے دبی اردو کے عادی ’اور یہاں پنجابی آمیز اردو سے ”آلودھ“ ڈراموں کے نام۔ جیسا کہ

لیکھو کرے بے ڈھنگی، امبیوں کو ترسے گی، پنج کنویں والے، چنو بازی گرنی، انقلابی پتر، پہاڑن کا پتر، بابل میرا ڈولا اٹکا۔ اور خود نوشت سوانح عمری

”میری ادبی آپ بیتی، میں نے ڈرامے کیسے گھڑے“
مجھے لگا ڈاکٹر صاحب کی بھی ”قومی زبان“ کمزور ہے۔

پڑھنا البتہ نہ چھوڑا، اور جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا محسوس ہوا کہ نہ پڑھتا تو ہندوستانی پنجاب کے دلت سماج کے متعلق جملہ علم سنی سنائی باتوں تک محدود ہوتا۔

اب ڈاکٹر چرن داس کے متعلق دل میں ایک خلش سر اٹھانے لگی۔ میں نے اتنے سال ان کو جاننے میں لگا دیے۔ وہ میرے پاس آئے، اتنی محبت سے کتابیں دیں۔ ہوشیارپور اور رحیم یار خان کی باتیں کیں۔ میں نے نہ کتابیں پڑھیں اور نہ ان کے رشتوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔ گوگل کیا تو پتہ چلا ڈاکٹر صاحب 2013 میں وفات پا گئے تھے۔ ان کی بیٹیوں کو ڈھونڈا۔ وینا، پرملا، پکنجا، آشا اور سب سے لاڈلی نوپور۔ سوچتا رہا کہ جن کی خوشبو سے ان کی خودنوشت کے صفحے مہکتے ہیں۔ جانے اب کس حال میں ہوں گی؟

اور وہ گاؤں ”بھام“ اب کیسا ہو گا۔ کہ 1947 میں جس کے سکول میں مسلمان لڑکے اصغر کی حمایت میں انہوں اپنی سلیٹ توڑ کر تلوار بنا لی تھی۔ وہی اصغر کہ جو جالندھر مہاجر کیمپ میں ہیضے سے مر گیا تھا

وہی بھام جہاں زمیندار کے ہاتھوں دلت عورت کی تذلیل کے واقعے پر انہوں نے اپنے پہلے ڈرامے کی پیش کاری کی تھی، اور ماتھے سے خون کا منظر دکھانے کے لئے غلیل سے سرخ رنگ کی پوٹلی پر نشانہ لگوایا تھا

کاش ڈاکٹر سدھو زندہ ہوتے تو میں ان سے بابو منگو رام مگووالیہ کے بارے پوچھتا کہ جس نے 1946 کے الیکشن میں کہا تھا

”اچھوتوں کو دھرم ماننے سے انکار کر دینا چاہیے، منو سمرتی کا پرچار کرنے والی پوتھیوں کو آگ لگا دینا چاہیے“

ڈاکٹر سدھو چلے گئے، ان کی بیٹیوں کی کوئی خبر نہیں۔ اب ان سے جڑی عجیب تانی کے تند کے طور پر میرے پاس یا تو ان کی کتابیں ہیں یا پھر ان کے گاؤں بھام کی نواسی اور فریزر ویلی یونیورسٹی، کینیڈا کی پروفیسر ڈاکٹر پر بھجوت پرمار ہیں کہ جن سے بات کر کے میں اپنی خلش مٹانے کی کوشش کرتا ہوں

ہاں ایک تسلی ہے۔ میری بیٹیوں کو ڈاکٹر سدھو کے ڈراموں اور ان کے کرداروں کے نام یاد ہیں
اور وہ ان کے کرداروں کا دکھ بھی جانتی ہیں
ڈاکٹر سدھو۔ میں نے آپ کو جاننے میں دیر کی
مگر میں نے تانی کے ساتھ تند جوڑ لیا ہے
ڈاکٹر صاحب۔ میں آپ سے شرمندہ نہیں ہوں

طارق گجر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

طارق گجر

طارق گجر بنیادی طور پر پنجابی شاعر اور افسانہ نگار ہیں، تقسیم پنجاب ان کی تخلیقی شخصیت کا ہمیشہ سے محرک رہا ہے۔ وہ ان پنجابی لکھاریوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے 1947 کے بعد پنجابیوں کو درپیش شناختی بحران کے حوالے سے قابل قدر تخلیقی کام کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی شاعری کی کتاب ”رت رلے پانی“ قابل ذکر ہے۔ پچھلے چند سالوں سے انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے عینی شاہدین کے انٹرویوز کے ذریعے تقسیم پنجاب کے سلیبسی نقطہ نظر کے متوازی پنجاب کے عوام کا نقطہ نطر سامنے لانے کے سلسلے میں بھی کام کیا ہے۔ طارق گجر جمہوریت، مکالمے، صنفی برابری اور آزادیٔ رائے پر کامل یقین رکھتے ہیں اور پاکستانی میں بسنے والی اقوام کے درمیان مکالمے کے لیے کوشاں رہتے ہیں

tariq-mahmood-gujjar has 10 posts and counting.See all posts by tariq-mahmood-gujjar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments