راج کپور: جب پاکستانی فوجی انڈین فلم سٹار سے ملنے جلیبیاں لے کر سرحد پر آئے

ریحان فضل - بی بی سی، دہلی


معروف انڈین اداکار راج کپور کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ جو کچھ بھی کرتے تھے، اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔

راج کپور کا ماننا تھا کہ کسی بھی تخلیقی کام کے پیچھے ہر طرح کے منفی جذبات جیسے خوف، ذلت، شکست، کسی کا کھو جانا، تعلقات کا ٹوٹ جانا بہت اہم ہوتے ہیں، یہ سب عوامل زندگی کے بارے میں ہماری سوچ کو مضبوط کرتے ہیں اور ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشتے ہیں۔

راہل راویل انڈیا کے ایک مشہور فلم ڈائریکٹر ہیں۔ انھیں راج کپور کے ساتھ بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کئی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ حال ہی میں انھوں نے راج کپور پر ایک دلچسپ کتاب ’راج کپور: دی ماسٹر ایٹ ورک‘ لکھی ہے جس میں انھوں نے راج کپور کی زندگی کے ان پہلوؤں پر نگاہ ڈالی ہے جن پر اب تک بہت کم توجہ دی گئی تھی۔

راہل راویل بتاتے ہیں ’میں نے 12ویں جماعت کا بورڈ امتحان دیا تھا کہ ایک دن میرے بچپن کے دوست رشی کپور کا فون آیا کہ میرے ڈیڈی آج سے ’میرا نام جوکر‘ کے چند مناظر کی شوٹنگ شروع کر رہے ہیں۔ یہ شوٹنگ کھلے میدان میں ہونے والی ہے۔ اگر تم کچھ سیکسی روسی اداکاروں کو کم کپڑوں میں دیکھنا چاہتے ہو تو وہاں پہنچو۔‘

’میں فوراً وہاں پہنچ گیا، شروع میں وہ روسی لڑکیاں میری طرف متوجہ ہوئیں، لیکن جب میں نے راج چچا کو قریب سے کام کرتے دیکھا تو میں سب کچھ بھول گیا، میں انھیں کام کرتے دیکھ کر پوری طرح مسحور ہو گیا، انھیں دیکھ کر ایسا لگا جیسے کوئی موسیقار بغیر میوزک کے سمفنی کو ترتیب دے رہا ہو۔‘

راہل راویل راج کپور سے اتنے متاثر ہوئے کہ اگلے 15 دنوں تک وہ ’میرا نام جوکر‘ کی شوٹنگ دیکھنے جاتے رہے۔ انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے کینیڈا جانا تھا، لیکن اس میں ابھی سات مہینے باقی تھے۔ انھوں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا وہ اس فارغ وقت میں راج کپور کے ساتھ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔

اُن کے والد انھیں راج کپور کے پاس لے گئے۔ راج کپور انھیں اپنے ساتھ رکھنے پر راضی ہو گئے۔ اس دن سے راج کپور اُن کے سرپرست اور دوست بن گئے۔ کچھ دنوں کے بعد راہل راویل کو احساس ہوا کہ راج کپور نہ صرف غیر معمولی سوچ کے مالک ہیں بلکہ ان جیسی زندگی بسر کرنے والے لوگ اس دنیا میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

فلم ’بابی‘ کا ڈسٹری بیوٹر سرعام رسوا

رمن نامی ایک شخص راج کپور کی فلموں کے لیے جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو میں ڈسٹری بیوٹر ہوا کرتے تھے۔ جب ان کی وفات ہوئی تو اُن کے بیٹے بابو نے اُن کا کام سنبھال لیا۔

جب ’بابی‘ ہٹ ہو گئی اور بابو نے اس سے حاصل ہونے والے منافع کی رقم راج کپور کو نہیں پہنچائی تو وہ ناراض ہو گئے۔ ایک رات جب راج کپور اپنے گھر واپس آ رہے تھے تو انھوں نے اچانک اپنے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی موڑو اور رمن صاحب کے گھر چلو۔

راہل راویل بتاتے ہیں کہ ’راج صاحب اپنی گاڑی سے نیچے اُترے اور زور زور سے ’بابو، بابو‘ پکارنے لگے۔ بابو بھاگتا ہوا باہر نکلے، شور سُن کر اُن کے تمام پڑوسی بھی ڈرامہ دیکھنے کے لیے گھر سے نکل آئے، بابو نے اس وقت صرف ساؤتھ انڈین لنگی ’منڈو‘ پہنی ہوئی تھی، اُن کے جسم پر کچھ اور نہیں تھا۔

’راج کپور نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر شور مچاتے ہوئے کہا: میرا منافع کہاں ہے؟‘ بابو نے جواب دیا ’وہ میرے پاس محفوظ ہے۔‘ راج کپور نے چیخ کر کہا ’تمہارے پاس ہے، میرے پاس کیوں نہیں ہے، تمہیں اس کا کیا حق ہے؟‘ بابو نے جواب دیا ’ہم آپ کو کل دے دیں گے۔‘ راج کپور نے بابو کی لنگی اُتار لی اور اب بابو اپنے تمام پڑوسیوں کے سامنے ننگے کھڑے تھے۔ راج کپور نے کہا ’کل صبح پیسے لے کر آؤ اور اپنی لنگی واپس لے جاؤ۔‘

راج کپور بس سٹینڈ پر

ایک بار صبح سویرے تین بجے، راہل راویل کے پڑوسیوں نے انھیں جگا کر کہا کہ راج کپور باہر کچھ آوارہ کتوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ راویل انھیں ڈھونڈنے نکلے، لیکن راج کپور نہ مل سکے۔

اسی دوران ان کا ڈرائیور گاڑی لے کر ان کے گھر آیا۔ ڈرائیور نے کہا ’راج صاحب گاڑی سے اتر گئے، پہلے وہ کتوں سے کھیلتے رہے، پھر انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم گاڑی لے کر گھر جاؤ، میں پیدل ہی گھر جاؤں گا۔‘

راہل راویل نے ڈرائیور سے گاڑی لی اور راج کپور کو ڈھونڈنے نکل گئے۔

راہل راویل بتاتے ہیں کہ ’میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ میں نے راج کپور کو بس سٹینڈ پر کھڑے دیکھا۔ جب میں نے ان سے رُک کر پوچھا کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں، تو انھوں نے غصے سے جواب دیا ’بس سٹینڈ پر کوئی کیا کرتا ہے؟ بس کا انتظار نہیں کر سکتے؟‘ میں نے انھیں یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کی کہ بس صبح ساڑھے پانچ بجے سے پہلے نہیں چلتی، لیکن اس بات کا اُن پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

’راج کپور نے کہا کہ میں ساڑھے پانچ بجے تک انتظار کروں گا، لیکن بس سے جاؤں گا۔ انھوں نے غصے سے کہا ’اب مجھے اپنی شکل مت دکھاؤ، میں نے تمہیں برخاست کر دیا ہے۔ میں نے ان کی تسلی کے لیے گاڑی کو آگے بڑھا دیا۔ جب میں سڑک کا ایک چکر لگانے کے بعد واپس آیا تو وہ بس سٹینڈ پر نہیں تھے۔ یہ سوچ کر کہ شاید انھوں نے کوئی ٹیکسی لے لی ہو، میں سانتا کروز کی طرف بڑھنے لگا۔‘

’تھوڑی دیر بعد میں دیکھتا ہوں کہ راج کپور ایک ٹیکسی کی اگلی سیٹ پر ڈرائیور اور دوسرے شخص کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ ان کے کندھوں پر رکھے ہوئے تھے اور سر پر ایک گمچھا (ہلکا تولیہ) باندھا ہوا تھا۔ جب میں ٹیکسی کے پاس پہنچا تو میں نے راج کپور کو ایک گانا گاتے دیکھا ’سُن صاحبا سُن، پیار کی دھن۔‘

راج کپور کا سینما کا جنون

راہل راویل بتاتے ہیں کہ ’11 سال بعد انھوں نے یہ گانا اپنی فلم ’رام تیری گنگا میلی‘ میں استعمال کیا، گھر پہنچ کر راج کپور نے دونوں کو گلے لگایا اور ٹیکسی کا کرایہ ادا کیے بغیر گھر کے اندر چلے گئے۔ ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ کا بل کتنا ہوا تو اس نے ہنس کر جواب دیا ’ارے صاحب، راج کپور گاڑی میں بیٹھ گئے تو کرایہ کس چیز کا؟‘

’اگلے دن مجھے راج کپور کے سیکریٹری کا فون آیا کہ راج صاحب نے آپ کو گھر آنے کے لیے کہا ہے اور آپ کھانا بھی یہیں کھائیں، میں نے پچھلی رات کا ذکر نہیں کیا، لیکن راج کپور نے خود کہا ’مجھے یاد ہے کہ میں یہاں آیا تھا۔ تم میرے پیچھے گھر تک آئے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں بس سٹاپ پر کھڑا تھا اور ٹیکسی میں گھر واپس آیا تھا۔ مجھے بتائیں کہ آپ نے ٹیکسی ڈرائیور کو کتنے پیسے دیے؟ میں نے کہا ’اس نے پیسے نہیں لیے۔‘

راج کپور کا اگلا سوال تھا ’انھیں وہ گانا پسند آیا؟’ یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی سب سے بڑی مثال تھی، وہ رات کو نشے میں تھے لیکن پھر بھی سنیما کے لیے ان کا جنون ختم نہیں ہوا تھا۔‘

گلشن رائے سے زبانی جنگ

جب راج کپور نے فلم ’میرا نام جوکر‘ بنائی تھی تو گلشن رائے نے اسی دور میں ایک فلم بنائی جس کا نام ’جانی میرا نام‘ رکھا۔ اُن کی فلم کا نام ’میرا نام جوکر‘ سے بہت ملتا جلتا تھا اور یہ اس سے پہلے ریلیز ہوئی اور بہت کامیاب بھی رہی۔ اس کے مقابلے میں ’میرا نام جوکر‘ کچھ خاص پذیرائی نہیں مل سکی۔

ان دنوں فلموں کے ناموں پر بہت سے لطیفے مشہور ہوتے تھے۔ چار سال بعد جب راج کپور نے ’بابی‘ بنائی تو وہ کافی ہٹ ثابت ہوئی۔ جب راج کپور ایک پارٹی میں گلشن رائے سے ملے تو انھوں نے ان سے کہا کہ ’جب میں نے ’میرا نام جوکر‘ بنائی تو آپ نے ’جانی میرا نام‘ کیوں بنائی؟ اب جب میں نے ’بابی‘ بنائی ہے تو آپ کون سی فلم بنائيں گے، ٹابی؟‘

سرحد پر فوجیوں سے ملاقات

راج کپور ’بابی‘ کی شوٹنگ کے دوران کشمیر میں کچھ شاٹس لے رہے تھے۔ جب وہ ایک فوجی چوکی سے گزرے تو راستے میں رکاوٹ لگی تھی۔ وہاں تعینات انڈین سپاہیوں نے انھیں بتایا کہ اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ تو راج صاحب نے کہا کہ آپ اپنے کمانڈر کو بلا کر بتائیں کہ راج کپور آئے ہیں۔

کمانڈر نے نہ صرف آ کر راج کپور کا استقبال کیا بلکہ ان کے لیے دو جیپوں کا انتظام کیا تاکہ ان کی ٹیم کو پاک، انڈیا سرحد تک لے جایا جا سکے۔

راہل راویل بتاتے ہیں کہ ’جب ہم سرحد پر پہنچے تو تمام جوان ہمارا انتظار کر رہے تھے، کیونکہ انھیں پہلے ہی وائرلیس سے بتایا گیا تھا کہ راج کپور وہاں آ رہے ہیں، انھوں نے ہمارے لیے پکوڑے اور سموسوں کا انتظام کیا تھا۔ آدھے گھنٹے کے بعد جب ہم تیار ہو گئے۔ واپس جانے کے لیے تو انھوں نے ہمیں کہا ’سر، تھوڑی دیر انتظار کریں، ہم نے ریڈیو پر پاکستانی فوجیوں کو بتایا ہے کہ راج کپور صاحب یہاں تشریف لائے ہیں، وہ یہاں آپ سے ملنے آ رہے ہیں۔‘

’تھوڑی دیر بعد ہم نے دیکھا کہ پاکستانی فوجیوں سے بھری دو جیپیں وہاں پہنچ گئیں، وہ ہمارے لیے جلیبیاں اور مٹھائیاں لے کر آئے تھے۔ یہ دیکھ کر ہم بہت جذباتی ہو گئے کہ راج کپور پاکستانی فوجیوں میں بھی اتنے ہی مقبول تھے۔‘

گول گپے، ڈوسا اور فلٹر کافی کو پسند کرنے والے

راج کپور کھانے پینے کے بہت شوقین تھے۔ وہ شام کو ٹھیک چھ بجے چیمبور سٹیشن جاتے جہاں وہ گول گپے کے سٹال سے گول گپّے کھاتے اور ساتھ ہی ایک ساؤتھ انڈین ریستوران تھا جہاں وہ ڈوسا اور میندو وڑا کھاتے تھے۔ پھر وہ قریبی ریسٹورنٹ میں جا کر فلٹر کافی پیتے تھے۔

راہل راویل کہتے ہیں کہ ’راج کپور کا یہ معمول کبھی نہیں ٹوٹتا تھا۔ اگر انھیں کسی شخص سے ملنا ہوتا تو بھی وہ اپنا معمول سے نہیں ہٹتے تھے اور اس شخص کو بھی گول گپے کھانے کی دعوت دیتے تھے۔ ذرا غور کریں کہ آپ راج کپور سے ملنے آئے ہیں اور ان سے بات کرتے ہوئے سڑک کے کنارے ریڑھی والے سے گول گپے کھا رہے ہیں۔‘

پاو کے بیچ میں جلیبی رکھ کر سینڈوچ بناتے

آر کے سٹوڈیو، بمبئی (آج کا ممبئی) کا واحد سٹوڈیو تھا جو شام چھ بجے ’ہائی ٹی‘ پیش کرتا تھا۔ راج کپور اسے ٹفن کہتے تھے۔ اس میں ڈوسا، وڑا، سینڈوچ، رول، جلیبی اور کوئی نہ کوئی مٹھائی ہوتی تھی۔ آر کے سٹوڈیو کے کھانے کو ’شاہوں کا کھانا‘ کہا جا سکتا تھا۔

راہل رویل بتاتے ہیں کہ ’وہاں چکن، مٹن اور مچھلی کی ایک ایک ڈش ہوتی ہی تھی۔ اوپر سے کیکڑے، جھینگے، کلیجی اور کباب بھی ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کی دالیں، سبزیاں اور کم از کم تین قسم کی مٹھائیاں ہوتی تھیں۔ ہم سب ایک ساتھ بیٹھ کر ایک جیسا ہی کھانا کھاتے تھے۔‘

فائنل ایڈیٹنگ کے وقت راج صاحب مکمل طور پر سبزی خور ہو جاتے تھے اور شراب کو ہاتھ تک نہیں لگاتے تھے۔ راج کپور کو کھانے میں تجربات کرنے کا بھی بہت شوق تھا۔

یہ بھی پڑھیے

بڑا اداکار کون؟ دلیپ، راج یا امیتابھ۔۔۔

راج کپور کی وہ روسی ہیروئن اب کہاں ہے؟

مغل اعظم میں پرتھوی راج نے کتنے پیسے لیے تھے؟

راہول کہتے ہیں کہ ’میں نے انھیں پاو کے بیچ میں مکھن لگا کر اس میں جلیبی رکھ کر کھاتے دیکھا ہے۔ میں ان سے پوچھتا تھا کہ جناب آپ جلیبی سینڈوچ کیسے کھاتے ہیں۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکراتے اور میٹھے سینڈوچ کو ٹماٹر کی چٹنی میں ڈبو کر کھا جاتے۔‘

شراب کی 12 بوتلوں کی جانچ کی

راہل راویل کی ریٹا سے شادی ہوئی تو آگ کے گرد صبح کو پھیرے لیے گئے۔ ظاہر ہے اس وقت راج کپور بھی وہاں موجود تھے۔ پہلے تو انھیں غصہ اس بات پر آیا کہ سارا کھانا ویج (گوشت کے بغیر) ہے۔ بعد ازاں جب شادی کی دعوت دی گئی تو ان کی اہلیہ اور دیگر مہمان راج کپور کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔

راہل نے کہا کہ ’مجھے یاد ہے کہ راج کپور ہماری شادی میں ٹفن لے کر آئے تھے۔ میری بیوی نے مجھ سے پوچھا کہ راج انکل کیا کر رہے ہیں؟ انھوں نے کچن میں جا کر ہر کھانے کا ذائقہ چکھا اور اسے اپنے ٹفن میں بھرا۔ بعد میں اپنے گھر جا کر انھوں نے کھانا کھا لیا۔‘

’پھر مجھ سے پوچھا کہ میری وہسکی کہاں ہے؟ میں نے کہا ’آپ کے لیے بلیک لیبل کی 12 بوتلیں علیحدہ رکھوا دی ہیں۔ میں نے انھیں اس لیے نہیں کھولا کہ آپ انھیں کھول کر اندازہ لگا سکیں کہ ان میں سے اصل کون سی ہے؟‘ سب پر بلیک لیبل لگا ہوا ہے۔ وہ بار میں گئے اور میرے دوست سے کہا کہ تمام 12 بوتلوں سے شراب کا نمونہ مختلف گلاسوں میں بھریں، انھوں نے ہر گلاس سے ایک گھونٹ لیا اور پھر کہا کہ پانچویں بوتل کی شراب اصلی ہے۔ پھر انھوں نے اپنے کرتے کی جیب سے پلاسٹک کی بوتل نکالی اور اس بوتل میں سے آدھی شراب بھر دی اور اپنے ڈرائیور سے کہا کہ اسے گاڑی میں رکھ دو۔ پھر انھوں نے میرے دوست سے کہا کہ اس بوتل میں باقی شراب راہل کے لیے ہے۔ اس کا ایک قطرہ بھی کسی کو پیش نہ کیا جائے۔‘

چپکے سے سینڈوچ کی فلنگ کھانے کی عادت

راج کپور کو بھی گھوڑوں کی دوڑ دیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ اس لیے نہیں کہ وہ گھوڑوں پر شرط لگاتے تھے، بلکہ اس لیے کہ انھیں ریس کورس پر دستیاب سنیکس بہت پسند تھے۔

راہل راویل بتاتے ہیں ’جب ریس شروع ہونے والی تھی اور ہر کوئی شرط لگانے کے لیے وہاں جایا کرتا تھا، راج کپور وہاں رکھے سینڈوچ کو کھولتے اور اس کے اندر کی فلنگ کھاتے اور سینڈوچ کو اسی طرح رکھ دیتے، اور ایسا لگتا کہ اسے چھوا تک نہیں ہے۔ جب میں نے انھیں ایسا کرتے دیکھا تو مجھے یقین نہیں آیا۔ انھوں نے میری طرف دیکھا اور کہا، تم مجھے کیوں گھور رہے ہو؟ تمہیں نہیں معلوم کہ میں ان دنوں پرہیز کر رہا ہوں۔ راج کپور دکن ایکسپریس ٹرین میں پونے جانا پسند کرتے تھے۔ اگرچہ انھیں کار سے پونے جانے میں کم وقت لگتا، لیکن انھیں وہاں ٹرین سے جانا پسند تھا، کیونکہ انھیں ٹرین میں پیش کیا جانے والا کھانا بہت پسند تھا۔ یہی نہیں، جہاں بھی ٹرین رکتی، وہ پلیٹ فارم پر اترتے اور پھر وہاں دستیاب کھانا کھاتے۔‘

تاشقند میں راج کپور کی مقبولیت

راج کپور انڈیا سے زیادہ کمیونسٹ ممالک میں مقبول تھے اور اب بھی ہیں۔ سنہ 2007 میں جب رندھیر کپور، رشی کپور، نتن مکیش اور راہل راویل راج کپور پر ایک شو کرنے کے لیے تاشقند گئے تو وہاں راہل کو راج کپور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر متعارف کرایا گیا۔

جب وہ کچھ خریداری کے لیے مقامی بازار گئے تو راج کپور کے بیٹوں اور ساتھیوں کو دیکھنے کے لیے ایک بہت بڑا ہجوم جمع ہو گیا تھا۔

راہل رویل بتاتے ہیں ’ہجوم میں سے ایک بوڑھی خاتون میرے پاس آئی اور مجھ سے پوچھا، کیا آپ راج کپور کے اسسٹنٹ ہیں؟ ایک مترجم نے میرے لیے اس کے سوال کا ترجمہ کیا، جب میں نے اس کا جواب ہاں میں دیا، تو انھوں نے مجھ سے دوبارہ پوچھا، اس کا مطلب ہے کہ آپ کو راج کپور کو چھونے کا موقع ضرور ملا ہو گا؟‘

’مجھے یہ سوال قدرے عجیب لگا، لیکن جب میں نے اس کا بھی ہاں میں جواب دیا تو وہ خاتون میرا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی، اسے دیکھ کر میری آنکھیں بھی بھر آئیں، میں نے پہلے کبھی ایسا تجربہ نہیں کیا تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments