سوشل میڈیا پر توہین رسالت کا الزام: خاتون کو سزائے موت

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


سائبر
پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ایف آئی اے کی ایک خصوصی عدالت نے توہین رسالت پر مبنی مواد کی تشہیر کرنے کے جرم میں انیقہ عتیق نامی شہری کو موت کی سزا سنائی ہے۔

ان کے خلاف یہ مقدمہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ راولپنڈی میں سنہ 2020 میں حسنات فاروق نامی شخص کی مدعیت میں درج کروایا گیا تھا۔

مقدمے میں توہین رسالت، توہین مذہب اور انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی متعلقہ دفعات درج تھیں۔

مجرمہ کو آئین کی دفعہ 295/سی کے تحت سزائے موت اور 50 ہزار روپے جرمانہ، 295 اے کے تحت 10 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ، 298 اے کے تحت تین سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ اور سائبر کرائم کے پیکا ایکٹ کے سیکشن 11 کے تحت سات سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرمہ کو مزید چھ ماہ قید بھگتنا ہو گی۔

واضح رہے کہ جب اس مقدمے میں مجرمہ پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی تو انھوں نے اس جرم کے ارتکاب سے انکار کیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ان تمام سزاؤں پر عمل درآمد ایک ہی وقت میں شروع ہو گا۔

ہتھکڑی

واقعے کی تفصیلات

اس مقدمے سے منسلک ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ مجرمہ انیقہ عتیق اسلام آباد کی رہائشی ہیں اور ان کا روالپنڈی کے رہائشی حسنات فاروق کے ساتھ تعلق تھا۔

انھوں نے بتایا کہ کسی معاملے پر ان دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا جس پر غصے میں آ کر مجرمہ نے توہین آمیز الفاظ لکھ کر حسنات فاروق کو واٹس ایپ کیے تھے۔

اہلکار کے مطابق حسنات فاروق نے جس کی مدعیت میں یہ مقدمہ درج کیا گیا ہے مجرمہ کو ایسے توہین آمیز الفاظ کو ڈیلیٹ کرنے اور اس پر معذرت کرنے کے بارے میں کہا جس پر ایف آئی اے کے اہلکار کے بقول مجرمہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا۔

ایف آئی اے کے اہلکار کا کہنا تھا کہ انیقہ عتیق ایک نجی ادارے میں کام کرتی تھیں اور جب انھوں نے مدعی مقدمہ کی درخواست پر عمل درآمد نہ کیا تو حسنات فاروق یہ معاملہ لے کر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ آئے۔

یہ بھی پڑھیے

’سچ کی کھوج یقینی بنائیں تاکہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے‘

’سوچتی تھی کہ کبھی جیل سے نکلوں گی بھی کہ نہیں‘

پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین ہیں کیا؟

مشال قتل کیس: ’توہین رسالت کا بہانہ بنایا گیا تھا‘

انھوں نے کہا کہ مذکورہ شخص کی درخواست پر مئی سنہ 2020 میں مقدمہ درج کر کے ملزمہ کو حراست میں لیا گیا اور ان کے زیر استعمال موبائل کا فرانزک بھی کروایا گیا جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ توہین آمیز پیغامات ملزمہ کے موبائل سے ہی بھیجے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ اس مقدمے کی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ توہین آمیز پیغامات بھیجنے میں ملزمہ خود ہی ملوث ہیں اور انھیں ایسا کرنے پر کسی کے اکسانے سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

اہلکار کے مطابق مجرمہ اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں اور فیصلہ سنانے کے لیے انھیں سخت سکیورٹی میں عدالت لایا گیا تھا اور فیصلے سنانے کے بعد مجرمہ کو سخت سکیورٹی کے حصار میں واپس اڈیالہ جیل لے جایا گیا۔

عدالت

توہین مذہب کے قوانین کیا ہیں اور یہ کب سے رائج ہیں؟

توہینِ مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ برصغیر میں برطانوی راج کے زمانے میں سنہ 1860 میں بنائے گئے تھے اور پھر سنہ 1927 میں ان میں اضافہ کیا گیا تھا۔

سنہ 1980 اور 1986 کے درمیان جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے دور میں متعدد شقیں ڈالی گئیں۔ جنرل ضیا ان قوانین کو اسلام سے مزید مطابقت دینا چاہتے تھے اور احمدیہ برادری (جسے 1973 میں غیر مسلم قرار دیا جا چکا تھا) کو ملک کی مسلمان اکثریت سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے۔

برطانوی راج نے جو قوانین بنائے ان میں کسی مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا، کسی قبرستان میں بغیر اجازت کے داخل ہونا، کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین کرنا، یا سوچ سمجھ کر کسی کی عبادت گاہ یا عبادت کی کسی چیز کی توہین کرنا جرم قرار پائے تھے۔ ان قوانین میں زیادہ سے زیادہ سزا دس سال قید اور جرمانہ تھی۔

1980 کی دہائی میں توہینِ مذہب کے قوانین میں اضافہ کیا گیا۔ 1980 میں اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیانات کو بھی جرم قرار دے دیا گیا تھا جس میں تین سال قید کی سزا مقرر کی گئی۔

1982 میں ایک اور شق شامل کی گئی جس میں جان بوجھ کر قرآن کی بےحرمتی کی سزا پھانسی رکھ دی گئی۔ 1986 میں پیغمبرِ اسلام کی توہین کی سزا بھی موت یا عمر قید رکھ دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments