صدارتی نظام نہیں بلدیاتی نظام کی بات کریں


یہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ 22 کروڑ انسانوں کا مسکن ہے۔ اس کا ایک نظام ہے، یہ مرقوم و متفقہ آئین کے تحت چلتا ہے۔ خرابیاں بھی بہت ہیں مگر ان کا حل بھی اسی نظام میں موجود ہے، اسی آئین کے اندر درج ہے۔ یہ خاور مانیکا کا گھر نہیں ہے جس میں آپ نے ڈاکا ڈالا، عدت پوری کیے بنا دوسرے کی بیوی اپنی زوجہ بنا لی، اللہ اللہ خیر سلہ۔ یہ ملک نہ کسی انا پرست سیاسی بونے کی جاگیر ہے نہ کسی جنرل کا فارم ہاؤس۔ اس ریاست کو بہرحال ایسے ہی چلنا ہے جیسے ریاستیں چلا کرتی ہیں، جیسے آئین اس کی سمت بتاتا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ یہ جو نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ حکومتی نا اہلی اور عوامی مسائل سے توجہ ہٹاؤ مہم سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ صدارتی نظام ملکی تاریخ کے ناکام ترین اور نا اہل ترین وزیر اعظم کے کن کہنے سے فیکون بن کر نافذ ہونے والی چیز نہیں ہے۔ آپ نظام کو بدلنا چاہیں تو ضرور بدلیں لیکن اپنی بونگیوں سے نہیں، اپنی بدترین ناکامیوں کو دوسروں پہ ڈال کے نہیں، ”عوام ہی چور ہیں“ کہہ کے نہیں اور اب نظام گلا سڑا ہے کہہ کر نہیں بلکہ اپنی پرفارمنس سے یا آئین کے ذریعے سے۔

ضیاء الحق جیسے آمر مطلق نے یہ تو کہا کہ آئین کاغذ کا ٹکڑا ہے، میں جب چاہوں اسے پھاڑ کے پھینک دوں لیکن وہ اس آئین کو پھینک نہیں سکا۔ مشرف نے سترہویں ترمیم کے ذریعے چیف ایگزیکٹیو کے اختیارات خود لے تو لئے مگر اسی آئین کے اندر سے ہی۔ اب ایک سلیکٹڈ ڈمی وزیر اعظم کون ہوتا ہے جو نرگسیت کے مرض میں ریاست کے نظام کو تبدیل کر سکے۔

عمران خان اپنی سرشت میں سیاست دان نہیں مگر یہ کوئی مسئلہ بھی نہیں، کیونکہ یہ اس کی پہلی اور آخری پاری ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہاں ایک ایسی نسل تیار ہو چکی ہے جو نہ تاریخی شعور رکھتی ہے، نہ اس کا مزاج سیاسی ہے اور نہ ہی ریاست پاکستان اور پاکستانی معاشرے کی سماجی سیاسی حرکیات کو سمجھتی ہے۔ ٹیوٹر، فیس بک پہ حکومت چلانے والوں کو کون سمجھائے کہ پاکستان ایک نیشن اسٹیٹ تو ہے لیکن یک قومی ریاست نہیں ہے۔ ایران فارسی قوم کا ملک ہے، فرانس فرانسیسیوں کے رہنے کی جگہ ہے، امریکہ میں بھی لوگوں کی کثیر اکثریت ایک ہی قوم کی ہے۔ مگر پاکستان، ہندوستان جیسے ممالک کثیر القومی، کثیر النسلی، کثیر اللسانی اور کثیر الگروہی ملک ہیں۔ ایسے ملکوں کے لیے پارلیمانی نظام حکومت موزوں ہے اور یہ تاریخ سے ثابت ہے۔

اگر عمران خان یا کوئی بھی اس ملک کے نظام کو بدلنا چاہتا ہے تو اس کا حل پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنا نہیں ہے۔ عوام کی تقدیر بدلنے کا ایک ہی حل ہے جو نہ پارلیمانی نظام میں ہے اور نہ صدارتی سسٹم میں، بلکہ اس کا حل بلدیاتی نظام میں ہے۔ ملک کے آئین میں ایک مضبوط اور متحرک بلدیاتی نظام ڈال کر عام پاکستانی کو امپاور کیا جا سکتا ہے، ملک میں گورننس کا نظام بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مسائل کا حل وسائل کی تقسیم میں ہے نہ کہ صدارتی یا پارلیمانی سسٹم میں۔

پارلیمانی نظام اس وقت رائج ہے، عوام کی حالت سامنے ہے۔ ایوب و ضیا و یحییٰ و مشرف کے 30 سال میں ملک نے صدارتی نظام کو بھگتا ہے۔ یہ بھی ناکام رہا ہے۔ پاکستان ٹوٹا ہی صدارتی نظام میں تھا۔ سو پارلیمانی یا صدارتی نظام نہ عام آدمی کے مسئلے کا حل ہے، نہ عام آدمی کو اس بحث میں پڑنا چاہیے۔ اس وقت ملک کو بہترین بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے۔ ایسا لوکل گورنمنٹ سسٹم جس کی ضمانت آئین دیتا ہو۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments