تقسیم کرو اور حکومت کرو


انگریز نہایت ہی ہوشیار اور تجربہ کار تھا اس نے اس مسئلہ پر سوچ بچار کی کہ اس طویل و عریض ہندوستان پر کیسا قابو پایا جاسکتا ہے۔ اور یہ نتیجہ نکالا کہ ہندوستان کے رہنے والے اس کے خلاف متحد نہ ہو جائیں کیونکہ اگر یہ متحد ہو جائیں تو بقول ایک ہندو سیاسی مزاح نگار اگر ہندوستان کے باشندوں نے مل کر پیشاب بھی کیا تو ان مٹھی بھر انگریز کو بہا لے جائیں گے۔ جب انگریز نے دیکھا کہ مسلمان صدیوں سے ہندوستان کے حکمران تھے لیکن آج بھی تعداد کے حساب سے مسلمان کم ہیں اور غیر مسلم زیادہ۔

اگر چہ انگریز پہلے ہی غیر مسلموں کی مدد کر رہا تھا۔ کیونکہ ان سے مسلمانوں کی پٹائی کروا رہا تھا اور اس مسلم اور غیر مسلم نا اتفاقی سے فائدہ اٹھا رہا تھا۔ لیکن جب دوسری طرف دیکھا کہ ہندوؤں کی زیادہ اور مسلمانوں کی تعداد کم ہے مسلمانوں کے سروں سے پرانے بادشاہت کا سودا نکالنے کے لیے تمام توجہ ہندو قوم پر دی ان کو دفاتر میں بھرتی کیا اور تجارت میں ان کو آگے بڑھایا گیا ٹھیکے اور سرکاری سر پرستی سب ہندوؤں کو دی جب ہندوؤں نے اپنے اپ کو مضبوط کیا تو انگریز نے سوچا کہے ایسا نہ ہو کہ ہندو یکجا ہو کر مقابلے کے لئے کھڑے نہ ہو جائے۔

انگریز نے پھر اپنا توجہ مسلمانوں پر مرکوز کی ابتداء بنگال سے ہوئی 1905 میں صوبہ بنگال کو دولخت کر دیا۔ اور مسلمانوں کے اکثریتی حصے یعنی مشرقی بنگال کو الگ کر دیا۔ اس مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے کوشش شروع کی جب ہندوؤں میں شعور آ گیا اور اس نے انگریزوں سے آہستہ آہستہ مطالبے شروع کیے۔ اور مسلمانوں نے 1858 کی جنگ سے سبق حاصل کرچکا تھا۔ اور ان کی کوشش تھی کہ مسلمان ہندوؤں اور دوسرے فرقوں سے مل کر انگریز سے کیسے جان چھڑوا لے۔

انگریز تماشا کر رہا تھا۔ اور جب انگریز چلا گیا تو اس نے یہ کام کیا تھا کہ مسلمان اور ہندوؤں میں اتنی  نفرت پیدا کی کہ آج تک موجود ہے

جب انگریز چلا گیا تو بقول مولانا بجلی گھر ملا انگریز نے جانے سے پہلے اتنے بندے بنائے ہیں کہ اب انگریز کو یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں وہی کام جو انگریز کر رہا تھا اب یہاں اس کے شاگرد کر رہے ہیں۔

پختون کو کئی جگہ تقسیم کیا ہے بعض کو فاٹا میں بعض کو صوبہ بلوچستان میں اور بعض کو خیبرپختونخوا میں۔ اور سارے پنجاب ایک صوبے میں اور سندھ کو ایک صوبے میں۔

وہی پالیسی جو انگریز کا تھا۔ آج پختونوں کے خلاف بھی ہے۔ اگر دیکھا جائے پنجاب میں ایک بڑی سیاسی پارٹی مسلم لیگ نون ہے اور سندھ میں پی پی پی ہے۔ جو ایک دوسرے کو باری باری حکومت منتقل کرتے ہیں۔ ہاں سندھ اور پنجاب میں اور پارٹیاں بھی ہیں لیکن ان کا بڑے پارٹی پر کوئی اثر نہیں ہے۔ جو اسٹبلشمنٹ کے وقت پر آتی ہیں۔

اب آ جائے خیبرپختونخوا کی طرف پختونوں کے نام پر سیاست کرنے والے کتنے پارٹیاں ہیں؟ اے این پی، پشتون خواہ عوامی ملی پارٹی، قومی وطن پاٹی، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ، قبائل تحفظ موومنٹ، پاکستان تحفظ موومنٹ، اور ایک تحریک پی ٹی ایم ہے جس سے آہستہ آہستہ سیاست کی بو آ رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر اس کے ساتھ پختونوں کا غم ہے اور منشور ایک ہے تو اتنے زیادہ پارٹیاں کیوں ہیں؟ ایک کیوں نہیں کہ جب یہ لیڈر آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے تو پختونوں کو خاک اکٹھا کریں گے؟

خیبر پختونخوا میں اسلام کے نام پر سیاست کرنے والے تین بڑی پارٹیاں ہیں۔ ہاں باقی صوبے میں بھی اس کا کارکنان ہیں لیکن لیڈر تو کے پی کے میں ہیں۔ جمعیت علماء اسلام ف، اور س، اور جماعت اسلامی، سارے کا ایک منشور ایک اسلامی نظریہ ہے تو سب اتفاق سے یہ مشن آگے کیوں نہیں بڑھاتے۔

ہم عوام کو اتنا بیوقوف کیوں بنایا گیا ہے اور ہمارے آنکھوں پو جاہلیت کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اور اہم بات تو یہ ہے کہ ہر ایک پارٹی دوسرے کے خلاف استعمال ہو رہی ہے کبھی مسلم لیگ نون کو بعض کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں کبھی پی پی پی۔ اور ہر ایک کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں اور آپس میں بٹیر کی طرح لڑواتے ہیں جب ان سے خود کام پورا کرے تو پھر سلام کی جگہ پر غداری کا فتوی لگاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments