فراز اور ایاز : ایک ملاقات کا سلسلۂ یاد


( 15 جنوری مشہور شاعر احمد فراز کے جنم دن کی موقع پر خصوصی طور پہ ”ہم سب ویب“ کے لئے )

مجھے آج تک معلوم نہیں کہ شبلی فراز ( موجودہ پی ٹی آئی حکومت کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وفاقی وزیر ) مشہور شاعر احمد فراز صاحب کے وہ بیٹے ہیں جو انہوں مجھے بتایا تھا کہ یا ان کا دوسرا بیٹا جو فوج میں کرنل ( شاید سرمد فراز، ویسے میرے چھوٹے بھائی کا نام بھی سرمد ہے ) ہیں جنہیں شاعری و ادب سے کوئی تعلق یا دونوں کی کوئی دلچسپی نہیں، جب میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کی اولاد میں کوئی شاعر بھی ہیں؟ ملک کی مشہور شاعر محبت اور انقلاب احمد فراز صاحب سے مجھ اکیلے کو پروفیسر مونس شیخ ایاز شاعر ابن شاعر مخاطب کر کے رجسٹرار نور اللہ ملک نے کہا تو فوراً انھوں نے مسکراتے ہوئے اور اپنے دھیمے لہجے میں ہات ملاتے ہوئے کہا نام تو اچھا ہے، شاعرانہ ہے! یہ ملاقات شاہ عبداللطیف (بھٹائی) خیرپور سندھ، کے گیسٹ ہاؤس (پرانی وی سی آفس ) میں کرائی گئی جہاں وہ شہر سکھر کے ائرپورٹ سے لائے گئے تھے اور دوسرے دن یعنی 2 مارچ 2003 کے جنم دن پر بلائی گئی ایک ادبی کانفرنس میں خاص مہمان کے طور پہ مدعو تھے۔

نوجوانی اور زمانہ طالب علمی میں یہ دو سطریں تو خوامخواہ اداسی کی رومانس کے لئے اکثر پڑھتے تھے :
” اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں ”

اردو شعراء میں مجھے احمد فراز کی شاعری بہت پسند ہے اور اس کی خاص وجہ ان کی سلیس اردو میں فارسی کی آمیزش کم ہے میر کی طرح، حالانکہ فراز نے ایک ماسٹرز فارسی میں کیا ہوا تھا اور میر کی الگ سے فارسی شاعری ہے۔

”میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا
”تھا تو وہ دیوانہ سا فراز، مگر شاعر اچھا تھا“ ۔
” شاعری کرتی ہے اک دنیا فراز
پر تیری سادہ بیانی اور ہے ”

ویسے میرے والد کی اردو شاعری ( پہلا مجموعہ ”بوئے گل نالہ دل“ ، دوسرا ”نیل کنٹھ اور نیم کے پتے“ ) اور شاہ بھٹائی کے رسالے کا اردو ترجمہ بہت ہی عمدہ ٹھہرے ہیں، جس کہ وجہ بچپن میں میرے دادا شیخ غلام حسین ”فقیر“ کے بمبئی اور راجستھان سے لائے گئے اپنی وکالت کی پیشیاں کی دوران اردو کے مشہور رسائل اور ادب ’شمع‘ ، ’دلی‘ وغیرہ تھے۔ دادا کا ایک اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا اردو/ فارسی میں شاعری کا دیوان 58 ’کی مارشل لا دنوں میں شیخ ایاز کی دوسری کتابوں کے ساتھ اختیاری نے ضبط کر لیا تھا ”جو کبھی واپس نہ ہوا۔

ساز ہستی کی جیت ہیں ہم لوگ
اک محبت کا گیت ہیں ہم لوگ
میرے آکاش کی دھنی دیکھو
اپنی دھرتی کی میت ہیں ہم لوگ ”۔ (ایاز)

احمد فراز بلاشبہ شیخ ایاز کی طرح موجودہ دور کے ایک بے حد بڑے رومانوی اور انقلاب کی شاعر ہیں جن کی نظم و غزل کی چھاپ ہماری کچھ سندھی کے اچھے شاعروں پر بھی ہے، صوبہ سندھ جو پورے ملک میں شعوری ادب اور سیاست میں آگے سمجھا جاتا ہے جو انہوں نے ملک کے تمام صوبوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے دھرائی مگر انہوں نے بڑی سچائی سے کہا کی اتفاق سے وہ شیخ ایاز کو کبھی نہ پڑھ پائی اور نہ ان سے ملاقات ہو سکی، سواء کچھ مزاحمتی حوالوں کے اور ایاز کے ان دنوں قریبی مگر ناراض دوست غلام ربانی آگرو جو شاید ان کی جگہ پر اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین مقرر ہوئے تھے۔ اور باقی کچھ انہوں آہستہ آہستہ ڈرائی جن پیتے، سرور میں آتے، ”اور میرے مونس۔“ کہتے کہتے اس ملاقات میں مجھ سے باتیں کرتے رہے۔

مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ”پدرم سلطاں بود!“ کہ کر اپنے والد کا اثر استعمال نہیں کیا حالانکہ وہ اپنی آپ بیتی میں پوری اولاد میں سے علم و ادب سے چاہ رکھنے والے اور ان کے انگیزی زبان میں کچھ تراجم کرنے والے جو لاہور کی ویکلی viewpoint میں جنرل ضیاء مارشل لا دور میں شایع ہونے تھے، ایسے ذکر پر انہوں نے مارشل لا میں اپنی جلاوطنی کے دنوں کو یاد کیا اور اس کے بعد بھی کافی شہروں میں وہ اپنی ایام کاری میں مشاعروں کے سلسلے میں جاتے رہے،

اکثر شاعروں کی طرح ان کا بہی خاص انسیت والا لفظ ”شہر“ ہے جو انہوں نے شاید ہجوم کے تمثیل کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شیخ ایاز بھی بیرون ملک سفر کے خواہش مند تھے مگر انہیں اتنے زیادہ موقعے نہ مل سکے۔ آخر فراز صاحب نے محبت اور شہروں شہر گھومنے کوئی اپنی زندگی کی پوری حاصلات جانا۔

”میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے فراز جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں ”

دوسرے دن شیخ ایاز ادبی کانفرنس میں احمد فراز، شیخ ایاز کی بارے میں وہ ہی سارا کچھ بول دیا جو میں نے اوپر ان کے ساتھ چند گھنٹوں کی اکیلے ملاقات میں کیا ہے لیکن وہاں ہال میں بیٹھے ہوئے سامعین جو سندھ بھر سے آئے ہوئے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں پر مشتمل تھی، سے شیخ ایاز کے بارے زیادہ بول نہ سکنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ ضرور مانتے ہیں کہ وہ خود وہی لکھ رہے ہوں گے جو شیخ ایاز لکھ چکے ہے، اور شاگردوں کے ہجوم کے بے حد اصرار پر انہوں نے مارشل لا کی خلاف اپنی شہر آفاق نظمیں ”ای میرے وطن نووا“ ”میرے سارے لوگو!“ اور کچھ رومانوی شاعری سنا کر نوجوانوں کو جھوما کے رکھ دیا تھا۔

”کسی غاصب سے کسی ظالم کسی قاتل کے لئے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے سارے لوگو! ”

اسی روز شام کو ان کی اسلام آباد شہر کی واپسی کی فلائیٹ بک تھی تو جاتے ہوئے کہا کہ ”تو میرے مونس تم نے تو شیخ صاحب سے میری ملاقات کروائی اب کبھی میرے شہر آؤ تو بھئی ضرور ملنا۔ اور میرے لائق کوئی خدمت ہو؟ یا ( ہنستے ہوئے ) ملک (وی سی) کے لئے کچھ کہنا ہو تو مین حاضر ہوں بھائی!“ یہ کہ کر ، ایک اعزاز دے کر وہ ملنسار، انسان دوست آدمی رخصت ہوا جیسے کوئی پچھلے جنم سے واقف تھا۔

”تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا ”

دراصل ان دنوں ہماری شاہ عبداللطیف یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ملک عبدالرحیم تھے جو کسی زمانے میں احمد فراز کے ساتھ نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد میں کام کیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ ہماری یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ/سلیکشن بورڈ کے ممبر اور اس وقت UGC کی چیئرمین، سابق اعلی سول سرونٹ جناب کیپٹن (ر) عثمان علی عیسانی بھی ان کو اپنے ساتھ لائے تھے جو خود فراز کی شاعری کے بہت بڑے مداح اور دوست بھی تھے۔ سندھ کے مہان قوی جانے والے شیخ ایاز 27 دسمبر 1996 کو وفات پانے والے کے اعزاز میں شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سندھ ان کے علم و ادب اور فکر کی فروغ کے سلسلے میں ”شیخ ایاز چیئر“ قائم کی ہے جو ہر سال ایک ملکی، صوبائی سطح پر ادبی کانفرنس منعقد کرتی رہتی ہے۔

—–

دو چار روز بعد میں نے احمد فراز صاحب کو وائس چانسلر ملک صاحب کو poetic justice کروانے کے لئے لینڈ لائن پر فون کیا کہ یونیورسٹی میں ریزڈینس کے لئے سینیارٹی میں تو بالکل اہل تھا مگر غیر مکمل پالیسی سے متصادم تھا۔ ابھی میں نے ان کی خیر و عافیت معلوم کی تو انہوں کچھ پریشانی میں کہا کے ”بھئی مونس اور تو سب ٹھیک ہے مگر آج گھر خالی کرنے کا سرکار کا نوٹس ملا ہے۔ سوچ رہا ہوں کیا کروں۔“ یہ سننے ہی میں نے انہیں کوئی اور تکلیف دینے مناسب نہیں سمجھا اور سلام دعا کر کے اجازت لی۔

”محبت تو ان دنوں کی بات ہے فراز
جب لوگ سچے اور مکان کے تھے ”
۔

28 اگست 2008 میں سندھ کی نئی صوبائی حکومت نے مجھے اپنے شعبے برائے سیاحت اور ثقافت کی بطور ڈائریکٹر جنرل کلچر میری یونیورسٹی سے ڈیپوٹیشن پر کانٹریکٹ پر خدمات حاصل کر لی تھی۔ میں ڈیوٹی کے چارج لینے پرانی ڈائریکٹوریٹ کلچر 70 پاک سیکریٹیریٹ صدر کراچی پہنچا تو میری آفس سے پہلے والے ڈائریکٹر کے کمرے کے باہر ایک اضافی تختی پر انگیزی میں کچھ لکھے ہوئے پر آنکھیں جم کر رہ گئی here lived Ahmad Faraz یہاں احمد فراز رہتے تھے!

یہ وہ کمرہ تھا جہاں احمد فراز صاحب سالہا سال یہاں آ کر قیام کرتے تھے جہاں ان کے قریبی دوست، مداح اور اس شعبے کی طویل مدت صوبائی سیکرٹری رہنے والے حمید آخوند صاحب نے ان کا کراچی شہر میں مستقل قیام گاہ بنا دیا تھا۔ مجھے اس وقت اپنے تصوف کے خیال اور مشہور روحانی نفسیات کی ماہر کارل یونگ کیsynchronicity ”انت“ یا پراسرار پیچھا mystical persuasion محسوس ہوا جسے سندھی میں ”منتا“ (مانا ہوا سلسلہ ) بھی کہتے ہیں جو ایک محض مشاہداتی عمل ہے اور شاعری میں حیرانی کا سحر طاری کرتی ہے۔

25 اگست کو احمد فراز اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔
”اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کی نام رکھ دیے ”۔
—————

(تصویر میں دائیں سے ) کیپٹن ( ر) ع ع عیسانی، ڈاکٹر ای آر ملک، احمد فراز، ملک ندیم اور شیخ مونس ایاز، شیخ ایاز ادبی کانفرنس، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی، خیرپور سندھ۔ 2003 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments