طلاق اور خلع کی عدت میں فرق


آٹھ جنوری کو روزنامہ ڈان میں ایک خبر شائع ہوئی۔ اخبار نے اس ہیڈ لائن کو پرکشش بنانے کے لیے صحافتی اداؤں کے عین مطابق ایسا رنگ بھرا کہ یوں لگا ہائی کورٹ نے نکاح و طلاق کے اسلامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے زنا کو حلال قرار دے دیا ہے۔ ہیڈ لائن تھی،

”عدت کے بغیر دوسرا نکاح باطل یا زنا نہیں،
لاہور ہائی کورٹ نے عدت مکمل کیے بغیر شادی کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ ”

اس ’کھمب کی ڈار‘ بناتے ہوئے مفتی منیب الرحمٰن نے چھ صفحات پر مشتمل فتویٰ جاری کر دیا۔ کچھ دن بعد محترم انصار عباسی نے بھی ایک کالم میں ’عدت کے اندر نکاح‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے پر مزید تنقید کی۔ رپورٹ کے مطابق ایک شخص میر بخش نے مظفر گڑھ کے جج کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا، جس کے تحت اس کی سابقہ بیوی اور اس کے نئے شوہر کے خلاف فوجداری مقدمہ کے اندراج کی درخواست خارج کردی گئی تھی۔ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ عدت کے دوران شادی کر کے زنا کے مرتکب ہوئے ہیں۔

مفتی منیب الرحمٰن نے اس موضوع پر تفصیلاً لکھا۔ لیکن بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے ملک کے معروضی حالات اور دور حاضر میں عورتوں کو پیش آنے والے مسائل کا احاطہ کیے بغیر فتویٰ جاری کر دیا ہے۔

پاکستان میں طلاق اور خلع کے مسائل فقہی اور ملکی قوانین کے درمیان الجھے ہوئے ہیں۔ نتیجتاً عورتیں عدالتوں میں ذلیل و خوار ہو رہی ہیں اور معاشرہ بھی ان کو ہی برا بھلا کہتا ہے۔ اب جس عورت نے یہ شادی کی ہے اس فتوے کی روشنی میں معاشرہ اس کی شادی کو ناجائز قرار دیتے ہوئے ساری عمر زنا کا الزام لگاتا رہے گا۔

ہمارے ملک میں عام طور پر طلاق یا خلع سے بہت پہلے عورت کو ماں باپ کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ دونوں اطراف سے صلح اور واپسی کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔ ناکامی کی صورت میں بات طلاق کی طرف جاتی ہے یا عورت خلع کے لیے عدالت کی طرف رجوع کرتی ہے۔ بعض مرتبہ زبانی کلامی طلاق ہو بھی چکی ہوتی ہے جب عورت کی دوسری شادی کی بات بنتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ کاغذی کارروائی تو مکمل ہی نہیں کی گئی۔

طلاق کی صورت میں ’عمل درآمد سرٹیفکیٹ‘ متعلقہ یونین کونسل کی طرف سے ملتا ہے جو کہ کم از کم تین ماہ کے بعد جاری ہوتا ہے۔ اور عدت قانونی طور پر اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ خلع کی صورت میں بھی کئی ماہ یا سالوں تک عدالت میں کیس جاری رہتا ہے۔ فیصلے کے بعد بھی سرٹیفکیٹ یونین کونسل سے ہی جاری ہونا ہوتا ہے جو کہ تین ماہ سے پہلے جاری نہیں ہو سکتا۔ غور کریں ایک مطلقہ یا مختلعہ عورت کو کتنی عدتیں پوری کرنے کے بعد دوسری شادی کی اجازت ملتی ہے۔

ایک اور اہم بات جو مفتی صاحب اور دوسرے احباب بھول رہے ہیں وہ خلع کے بعد عدت کی مدت ہے۔ رسائل و مسائل میں سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ایک سوال پوچھا گیا۔

آپ کی تصنیف ”تفہیم القرآن“ جلد اول، سورہ بقرہ، صفحہ 176 میں لکھا ہوا ہے کہ ”خلع کی صورت میں عدت صرف ایک حیض ہے۔ دراصل یہ عدت ہے ہی نہیں بلکہ یہ حکم محض استبرائے رحم کے لیے دیا گیا ہے“ ۔ الخ

سیدی نے جواب دیا،

”مختلعہ کی عدت کے مسئلے میں اختلاف موجود ہے۔ فقہا کی ایک کثیر جماعت اسے مطلقہ کی عدت کی مانند قرار دیتی ہے اور ایک معتدبہ جماعت اسے ایک حیض تک محدود رکھتی ہے۔ اس دوسرے مسلک کی تائید میں متعدد احادیث ملتی ہیں۔

ابوداؤد اور ترمذی نے ابن عباسؓ کی روایت نقل کی ہے کہ زوجۂ ثابت بن قیس کو حضورﷺ نے حکم دیا کہ
تعتد بحیضۃٍ۔
نیز ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے ربیع بنت معوذ کی ایک اور روایت اسی مضمون میں نقل کی ہے۔
حیض کا پتا صرف عورت کو ہوتا ہے اور اس عدت کا مقصد صرف یہ جاننا ہے کہ عورت حاملہ تو نہیں؟
اس عورت پر الزام لگانے والوں نے کیا یہ تحقیق کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کو ماہواری کب آئی؟

اس کیس میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دعوی دار شخص سابقہ خاوند ہے۔ وہ مرد جس کے خلاف اس عورت نے کئی ماہ یا شاید سالوں تک عدالتوں میں دھکے کھائے ہیں۔ جب عورت اس کے ساتھ رہنے کو تیار ہی نہیں تو اس نے خود طلاق کیوں نہیں دے دی؟ خلع کے بعد بھی وہ اس کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں۔ یہ قرآنی احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ وہ اس کی دوسری شادی کو لے کر پہلے مقامی عدالت میں گیا وہاں سے اس کے خلاف فیصلہ آیا تو ہائیکورٹ میں چلا گیا۔ اس عورت کا قصور کیا تھا؟ وہ کیوں اس کو عدالتوں میں گھسیٹ رہا ہے؟ اس ظلم کی طرف کسی کی نظر نہیں کیوں نہیں گئی؟ مناسب تو نہیں لگتا لیکن کہنا پڑتا ہے کہ مفتی منیب الرحمٰن نے شاید سورۃ بقرہ کی آیت مبارکہ نمبر 231 پر غور نہیں کیا

”اور جب عورتوں کو طلاق دے دو پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں حسن سلوک سے روک لو یا انہیں دستور کے مطابق چھوڑ دو ، اور انہیں تکلیف دینے کے لیے نہ روکو تاکہ تم سختی کرو، اور جو ایسا کرے گا تو وہ اپنے اوپر ظلم کرے گا، اور اللہ کی آیتوں کا تمسخر نہ اڑاؤ،“

پیر کرم شاہ رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔

”گھریلو زندگی کی اہمیت کے پیش نظر ان قوانین کے غلط استعمال کرنے والوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ اگر تم نے ان قواعد کی تعمیل میں تاویل سے کام لینا شروع کیا تو یاد رکھو تمہارا یہ جرم نظر انداز نہیں کیا جائے گا کیونکہ تم آیات خداوندی کا مذاق اڑا رہے ہو۔ اور یہ بڑا سنگین جرم ہے۔ اس کی سزا تمہیں بھگتنی پڑے گی۔“

کیا عدت مکمل نہ کرنے پر بدنام کرنا تاویلیں ڈھونڈنا نہیں ہے؟ کیا کسی عورت کی شادی پر زنا کا الزام لگا دینا قبیح جرم نہیں؟ کیا عدالتوں میں کیس پر کیس کیا جانا جرم نہیں؟ کب تک جاہلیت کے اطوار پر عمل کرتے ہوئے عورتوں کے نکاح کے راستے میں رکاوٹیں ڈال کر آیات خداوندی کا مذاق اڑایا جاتا رہے گا؟

ان باتوں پر مفتی صاحب اور عباسی صاحب نے کوئی فتویٰ کیوں نہیں دیا؟

آئیے ایسے مردوں کے بارے میں پیر وارث شاہ کے چند اشعار پڑھیں۔
لوک کرن وچار جوان بیٹی، اوہنوں فکر شریکاں دیاں بولیاں دا۔
چھیل نڈھڑی ویکھ کے مگر لگا، ہلیا ہویا سیالاں دیاں گولیاں دا۔
(فتوے دینے والوں کی خدمت میں۔ )
منتر مار کے کھنبھ دا کرے ککڑ، بیر نم دیاں کرے نمولیاں دا۔
وارث شاہ سبھ عیب دا رب محرم، ایویں سانگ ہے پگڑیاں پولیاں دا۔
(لوک، لوگ۔ وچار، فکر۔ اوہنوں، ان کو ۔ بولیاں، طعنے

چھیل نڈھڑی، خوبصورت لڑکی۔ ہلیا، عادی مجرم جس کی غلطیوں کو لوگ مصلحتاً معاف کر دیں۔ گولیاں، کمزور معصوم لڑکیاں۔ کھنبھ، پر ۔ ککڑ، مرغ۔ نمولیاں، نم کے سوکھے کڑوے پتے۔ سانگ، بہروپ اپنانا۔ پگڑیاں پولیاں، خالی پگڑیاں، جھوٹیاں عزتاں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments