ستنام سنگھ : یہ پنچایت ضرور بلانا


طارق صاحب۔ میں آپکی نظم گانا چاہتا ہوں۔ آپ کیا معاوضہ لیں گے
”ستنام سنگھ، تم گاؤں والوں کو اکٹھا کر کے کہنا“ عبدالغفور قریشی ”سے معافی مانگ لیں“

یہ گفتگو پنجاب کے معروف گائیک ”ستنام سنگھ پنجابی“ سے ہو رہی تھی۔ عبدالغفور قریشی 1925 میں اسی کے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے

”“ پنجابی ادب کی کہانی ”“ والے عبد العفور قریشی کی یہ کتاب بی اے، ایم اے، پی سی ایس، سی ایس ایس کے نصاب میں پڑھی جاتی ہے مگر وہ پاکستانی پنجاب میں اسی طرح گمنام ہیں جس طرح آریاؤں کے ہاتھوں اپنے ہی گھر میں پردیسی ہونے والے دراوڑی قبائل اور ان کی زبان۔

عبدالغفور قریشی ریاست پٹیالہ کے گاؤں ”چوندھ“ میں پیدا ہوئے تو ان کے غریب والد بیٹے کو پڑھانے کے شوق میں مبتلا ہو گئے۔ گاؤں میں سکھ پنجابی اکثریت میں تھے، میٹرک کے بعد والد نے بیٹے کو ”گیانی“ کے کورس میں داخلہ دلوا دیا۔ ”قریشی فیملی“ بھائی مردانا کی گرونانک کے ساتھ ”ربابی سنگت“ سے آشنا تھی کہ نانک جب الوہی عشق میں بھیگے اشلوک بولتے جاتے تھے تو مردانا رباب کی تان سے ان میں رس بھرتا جاتا تھا۔

”گیانی“ کے کورس میں داخلے پر البتہ گاؤں کے سکھ بزرگوں میں بے چینی پھیلی۔ ”ایک مسلمان لڑکا، گروگرنتھ صاحب کے مقدس اشلوک کیسے پڑھ سکتا ہے، یہ تو پنتھ کی توہین ہے“

گاؤں میں پنچایت بلائی گی اور نوعمر عبد الغفور قریشی اپنے والد کے ہمراہ ملزموں کی حیثیت سے پیش ہوئے، بھکر کے گاؤں 60۔ 61 ایم میں اپنے ہاتھوں سے لگائے برگد کے نیچے بیٹھے قریشی صاحب بھیگی آنکھوں کے ساتھ بتایا کرتے تھے کہ جب میں ابا کا ہاتھ پکڑے گاؤں کی پنچایت میں جا رہا تھا تو میرے باپ کے پاؤں میں جوتی نہیں تھی۔

دونوں باپ بیٹا سہمے ہوئے پنچایت میں کھڑے تھے، دھرم رکھشک نانک کے تالاب کو جوہڑ ثابت کرنے پہ مصر تھے، تب ایک انقلابی بزرگ اٹھا اور بولا

”اگر تم نے نانک کے کلام کی وسعت کو نہیں سمجھا تو یہ تمہارا اپنا قصور ہے، اس بچے کو پڑھنے دو، مسلمان“ بھائی مردانا ”نانک کے ساتھ رباب بجا سکتا ہے تو یہ نوجوان گرنتھ صاحب بھی پڑھ سکتا ہے، اپنے اپنے گھروں کو جاؤ۔ بچہ پڑھے گا بھی اور آگے پڑھائے گا بھی“

قریشی صاحب نے کورس مکمل کیا، رائل انڈین ائر فورس میں بھرتی ہوئے، تھل میں زمین ملی اور ”دانش کدہ“ نام کے اس گھر میں وفات پائی کہ جس میں موجود گرمکھی، ہندی اور اردو ادب کے انمول ذخیرے کو ان کے اکلوتے بیٹے نے ردی کے بھاؤ بیچ دیا۔ دور بیاہی بیٹیاں باپ کا سہارا بننے کے لیے گھر آباد کرنے آتی رہیں اور ائر فورس میں بھرتی بیٹھا زمین اور مکان بیچنے کے منصوبے بناتا رہا۔

قریشی صاحب دو بار انڈیا گئے، معلوم نہیں اپنے گاؤں چوندھ جا سکے یا نہیں ’پنڈی وال پروفیسر موہن سنگھ سے ان کا یارانہ تھا۔ ”کویتا دا اوتار“ کے نام سے ان کی نظموں کا انتخاب شاہ مکھی رسم الخط میں مرتب کیا، اشاعت کا مرحلہ آیا تو 1965 کی جنگ چھڑ گئی، موہن سنگھ کی خواہش تھی کہ میری ایک کتاب اس گھر میں ضرور رکھی جائے کہ جہاں انہوں نے زندگی کے خوبصورت دن گزارے تھے۔ جنگ ختم ہوئی تو قریشی صاحب کتابیں لے کر راولپنڈی کے اس گھر میں گئے، گھر والوں کو بتایا کہ اس گھر میں کبھی مشہور شاعر پروفیسر موہن سنگھ رہا کرتے تھے، ان کی خواہش ہے کہ ایک کتاب یہاں بھی رکھی جائے۔

گھر والوں نے یہ کہتے ہوئے کتاب لینے سے انکار کر دیا کہ ہم ایک سکھ کی کتاب اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتے۔ یہ بتاتے ہوئے قریشی صاحب اداس ہو جاتے، بوڑھ کے درخت کو دیکھتے اور ”اچھا بھئی“ کہ کر خاموش ہو جاتے

”کوتا دا اوتار“ ڈبوں میں بند پڑی رہی، اسے دیمک لگ گئی، عشروں بعد اس کی دیمک جھاڑ کر جب میں نے اس کی پہلی نظم پڑھنا شروع کی تو ابتدا یوں تھی

”رب اک گھنجھلدار بجھارت
رب اک گورکھ دھندا
کھولھن لگیاں پیچ ایس دے
کافر ہو جائے بندھ
کافر ہونوں ڈر کے جیویں
کھوجوں مول نی کھنجیں
لائی لگ مومن دے کولوں
کھوجی کافر چنگا ”

(رب ایک گنجلک پہیلی ہے، اس کو پانے کا کھیل ایک گورکھ دھندے کی طرح ہے، اس گھانٹھ کے بپیچ کھولتے کھولتے انسان کفر تک پہنچ جاتا ہے، مگر تم کافر ہونے کے ڈر سے تلاش ترک نہ کر دینا کیونکہ سنی سنائی پر ایمان لانے والے مؤمن کی نسبت ایک متلاشی کافر بہتر ہوتا ہے )

قریشی صاحب چلے گئے، ان کی بہت سی آڈیو ریکارڈنگ کی تھیں مگر زمانہ برد ہوئیں، ”کویتا دا اوتار“ پر لکھا مضمون ان کی زندگی میں ہی ہربھجن سنگھ ہندل کے سہ ماہی ”چراغ“ میں چھپ گیا تھا، فوت ہوئے تو ماہانہ پنچم کے لئے مضمون ”ایک اور برگد نہیں رہا“ لکھا مگر دل میں کسک رہی کہ ان سے انصاف نہیں ہوا۔

برصغیر میں ”زمین زادوں“ کے ساتھ بے انصافی کی کہانی یوں بھی بہت طویل اور پیچیدہ ہے
ستنام سنگھ نے معاوضہ پوچھا تو خیال آیا

کہ اگر گاؤں والے ایک نئی طرز کی پنچایت بلا کر قریشی صاحب کے باپ کو ننگے پاؤں پنچایت میں بلانے پر معافی مانگ لیں تو شاید کچھ مداوا ہو سکے

ستنام سنگھ۔ یہ پنچایت ضرور بلانا

طارق گجر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

طارق گجر

طارق گجر بنیادی طور پر پنجابی شاعر اور افسانہ نگار ہیں، تقسیم پنجاب ان کی تخلیقی شخصیت کا ہمیشہ سے محرک رہا ہے۔ وہ ان پنجابی لکھاریوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے 1947 کے بعد پنجابیوں کو درپیش شناختی بحران کے حوالے سے قابل قدر تخلیقی کام کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی شاعری کی کتاب ”رت رلے پانی“ قابل ذکر ہے۔ پچھلے چند سالوں سے انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے عینی شاہدین کے انٹرویوز کے ذریعے تقسیم پنجاب کے سلیبسی نقطہ نظر کے متوازی پنجاب کے عوام کا نقطہ نطر سامنے لانے کے سلسلے میں بھی کام کیا ہے۔ طارق گجر جمہوریت، مکالمے، صنفی برابری اور آزادیٔ رائے پر کامل یقین رکھتے ہیں اور پاکستانی میں بسنے والی اقوام کے درمیان مکالمے کے لیے کوشاں رہتے ہیں

tariq-mahmood-gujjar has 10 posts and counting.See all posts by tariq-mahmood-gujjar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments