صدارتی نظام کی بازگشت اور ہم


ویسے کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ہمارے ملک کا بابا آدم ہی نرالا ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ نیا شگوفہ چھوڑا جاتا ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ یہاں لوگوں کو اتنا مذہبی بنا دیا گیا ہے کہ وہ محرومیوں کو قسمت، ظلم کو آزمائش سمجھ کر وقت گزارتے ہیں۔ یہاں کا نظام ایسا ہے کہ ظلم کے خلاف یا اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ جابر اور ظالم کے ہاتھوں قتل کو موت کا دن متعین سمجھ کر چپ رہتے ہیں۔

گزشتہ دنوں سے ملک میں صدارتی نظام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ کبھی ایمرجنسی نافذ کرنے سے متعلق کوئی شگوفہ چھوڑا جاتا ہے۔ پاکستان میں صدارتی نظام کون سی نئی بات ہے، قیام پاکستان کے چند سال بعد جنرل ایوب خان نے ملک میں صدارتی نظام نافذ کیا او ر یہ سلسلہ چلتا رہا اور جنرل پرویز مشرف کا صدارتی نظام بھی سب کے سامنے ہے۔ فوجیوں کے صدارتی نظام کے نفاذ کے بعد عوام تو کیا بڑے بڑے نہیں بولتے اور پانچ دس سال آرام سے گزر جاتے ہیں۔

اب عمران خان کے صدارتی نظام میں کیا وزن ہو گا اور کیسے ہو گا؟ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ موجودہ حکمران جماعت چونکہ سہانے سپنے سجانے کے بعد انہیں سچ ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے لہٰذا اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے ایسی مہم چلا رہی ہے۔ جبکہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس بات کی واضح تردید کی اور انہوں نے ایمرجنسی یا صدارتی طرز حکومت کے بارے میں قیاس آرائیوں کو کچھ یوٹیوبرز اور وی لاگرز کی بدولت ملک میں رائج جعلی خبروں کے کلچر کا حصہ قراردیا۔

ہوا کا رخ کیا ہو گا یہ تو معلوم نہیں لیکن چونکہ ملک میں سیاسی نظام تبدیل ہونے کی ہوا چل رہی تھی تو اسی اثناء میں لاہور سے ایک مسیحی سماجی کارکن نے بھی ایک ریلی نکال ڈالی۔ رواداری تحریک کے چیئرمین سیمسن سلامت سے زیادہ مراسم نہیں، مختلف اوقات میں اکا دکا ملاقات ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جتنا دیکھا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کچھ ”مختلف“ کام کرتے ہیں۔

رواداری تحریک کی جانب سے جاری بیان کا لب لباب یہ ہے کہ اگرچہ ملک میں جمہوری طریقہ انتخاب رائج ہے لیکن ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے نمائندوں کو متناسب طریقہ انتخاب کے تحت چنا جاتا ہے۔ روا داری تحریک سمیت دیگر بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ چونکہ اس نظام کے تحت اقلیتی ممبران ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں کے تابع ہوتے ہیں اور عوام کو جواب دہ نہیں ہوتے لہٰذا یہ نظام تبدیل ہونا چاہیے اور اقلیتی ممبران کا چناؤ بھی برائے راست انتخابات کے ذریعے کیا جائے۔

سیمسن سلامت صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ ویسے تو سابقہ نظام کے تحت بھی جو ممبران ایوانوں میں گئے انہوں نے کیا کر لیا تھا جو ایوان میں بیٹھے موجودہ اقلیتی نمائندوں نے نہیں کیا۔ حضور! یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ اس ملک میں جمہوری نظام کے باوجود اسی کے سر پر ہما بیٹھتا ہے جس کے سر پر ”بڑوں“ کا ہاتھ ہوتا ہے اور 74 سالوں کے دوران جب جب بھی جمہوری طرز انتخاب سے کوئی سیاستدان وزیراعظم تو بہت بڑی بات ہے کوئی وزیر بھی بنتا ہے تو ”ان“ کے آشیر باد سے ہی بنا ہے۔

ایسے میں اقلیتی ممبران کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ کچی بستیوں، برساتی نالوں کے گرد آبادیوں میں جا کر ووٹ مانگتے پھریں۔ اتنے پاپڑ بیلنے سے بہتر ہے کہ وہ کسی بڑی سیاسی پارٹی کے بڑوں کے پاؤں پکڑ لیتے ہیں یا بعض پارٹی فنڈ کے نام پر کچھ رقم جمع کرواتے ہیں اور پانچ سال ایوان میں آنے جانے کے ششکے پورے کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی وہاں قانون سازی میں ان کا کوئی کردار تو نظر نہیں آتا۔ بس ایوان میں کبھی کبھار اپنے پارٹی قائد کے ساتھ جھکے ہوئے انداز میں ”بین الاقوامی امور پر گفتگو“ کرتے ہوئے دو چار فوٹو شوٹو بنوا کر سوشل میڈیا پر واہ واہ بٹور لیتے ہیں اور کمیونٹی میں تھوڑی بھلے بھلے ہوجاتی ہے۔

ایوان سے باہر بھی ان لوگوں نے چند لوگ واہ واہ کے لئے رکھے ہوتے ہیں جو ان کی دعوتیں کرتے ہیں اور چھوٹے موٹے خرچے برداشت کرلیتے ہیں۔ اس کے بدلے میں یہ لوگ یا تو پارٹی میں کوئی عہدہ دلوا دیتے ہیں یا تھانے کچری کے معاملات میں تھوڑی بہت معاونت کرتے ہیں اور اسی میں خوش ہو جاتے ہیں۔ بھلا انہیں عوامی نمائندگی کیا ضرورت ہے۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ بڑوں کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے کیونکہ وہ کبھی بھی نہیں چاہتے کہ اقلیتیں متحد ہوں۔ یوں سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے تلے یہ تقسیم بھی رہتے ہیں اور لیڈری کا شوق بھی پورا ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اس احتجاجی ریلی کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔ معلوم نہیں۔ اب

سوال یہ ہے کہ قصور کس کا ہے؟ کیونکہ اگر صرف مسیحیوں کو دیکھ لیا جائے تو سب کے سب لیڈر ہیں جبکہ قائد کوئی بھی نہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا نظریہ ہے اور یہی ان کے مقاصد ہیں کیونکہ تقسیم رہیں گے تو کام چلتا رہے گا۔ جناب! ہمیں ایک قوم بننے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اپنے اپنے مفادات اور اپنے اپنے نظریے کے قائل رہیں گے اور کسی کو تسلیم نہیں کریں گے ہمارے ساتھ یہی ہوتا رہے گا اور دوسروں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہیں گے اور یہ لوگ کچی بستیوں اور برساتی ندی نالوں کے گرد ہی رہیں گے۔ جبری تبدیلی مذہب، کم عمر کی شادیاں، صفائی کے کام نوکریوں کی تخصیص، توہین مذہب کے نام پر جبر ظلم، چرچز اور بستیوں پر حملے جاری رہیں گے۔ ایسے میں طریقہ انتخاب کچھ بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے۔ اس ملک میں صدارتی نظام نافذ یا جمہوری نظام کوئی فرق نہیں پڑتا۔ غریب کا حال یہی رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments