سرد خانے میں پڑی ہیں خوابوں کی سب میتیں


آج اسٹور پر کام بہت زیادہ تھا رات بھر جاگنے کے باعث نیند کے جھونکے تیز طوفانی ہواؤں کی مانند اس کی آنکھوں سے ٹکڑا رہے تھے۔ لیکن جب وہ گزشتہ رات کے جاگنے کی وجہ کے بارے میں سوچتی تو بے ساختہ ایک شرمگین مسکراہٹ اس کے لبوں کا طواف کرنے لگتی اور اسے نہ اپنا رات بھر جاگنا برا لگتا نہ اسٹور کا یہ تھکا دینے والا کام۔ کینیڈا جیسے سرد ملک میں اسے رہتے آٹھ سال ہو چکے تھے۔ جہاں اسنو کے ساتھ ساتھ اسے تنہائی کے اسٹورم کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا تھا۔ اکیلے رہتے ساری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے اس کے کندھے شل ہو چکے تھے۔ ایسے میں کوئی محبت بھری سرگوشی جب گلے کا ہار بن جائے تو سوچیں کہ کیا نشہ ہوتا ہو گا سو سال پرانی شراب کا سا ہے ناں۔

بس اسی نشے میں سرشار وہ رات بھر ایک خوبصورت زندگی کے خواب بنتی رہی۔ دو دو نوکریوں کے بعد ایک تھکا دینے والا دن گزار کر جب بستر پر پڑی تو نیند اس پر مہربان ہونے کی بجائے جیسے روٹھ روٹھ گئی اور خواب نیند سے آگے آگے بھاگنے لگے نیند تھک کر ہار مان کر پنکھ لگا کے اڑ گئی۔ بوجھل پلکیں اتنے خوابوں کا بوجھ تنہا اٹھائے بھی شاد تھیں۔ کسی نے مدتوں بعد در دل پہ دستک دی تھی اور کون؟ میں! جیسے تعارفی معاملات طے کیے بغیر ہی وہ اجنبی اس گھر کا بلا شرکت غیرے مکین بن گیا۔ صبح سورج برف کی دبیز تہہ تلے جیسے جما پڑا ہو۔ لیکن اسے تو سب بے حد روشن روشن لگ رہا تھا۔ صبح جیسے گنگنا رہی تھی اور اس کی دھڑکنیں حالت رقص میں تھیں۔

وہ اپنی بدلتی حالت پہ حیران تھی کہ کس طرح ایک انسان کی موجودگی سارے حالات، سب منظر بدل دینے پر قادر ہے۔ وہی ایک مخصوص لگی بندھی روٹین جو اسے شدید کوفت میں مبتلا کیے رکھتی تھی آج اکتاہٹ کی بجائے مزا دے رہی تھی۔ ہنستے مسکراتے ناشتہ بناتے کپڑوں کا انتخاب بھی آج بہت تگ و دو کے بعد ہوا ایک ایک جوڑا اپنے ساتھ لگا کر دیکھتے اسے احساس ہوا کہ اسے شوخ رنگوں کے کپڑوں کی کتنی ضرورت تھی۔ اس کام کو پہلی آنے والی چھٹی پر ڈالتے ہوئے وہ قدرے مناسب لباس پہن کر کام پر نکل چکی تھی۔ جانے کپڑوں کی تلاش میں کب سے رکھا ایک پرانا کڑوں کا سیٹ ہاتھ لگا تو بے اختیار دل مچل مچل گیا اسے پہنے کی خواہش نے بھرپور انگڑائی لی۔ لیکن فی الوقت وہ اسے نظر انداز کرتی گھر سے نکل گئی۔

اسٹور پر کام کرتے نگاہیں مسلسل اسی شخص کی متلاشی تھیں جو آج اسے آس دلا کر جانے کیوں نراش کیے جا رہا تھا۔ لنچ بریک ہونے میں کچھ ہی وقت باقی تھا اس کی امید دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی۔ کہ اچانک وہ مثل خوشگوار یاد کے آ گیا فیض کے ان اشعار کی طرح

”رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے

دل کی دھڑکنوں نے جیسے کوئی مدھر راگ چھیڑ دیا ہو۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف آیا شناسائی کے مراحل طے ہوئے اس کو بریک میں ملنے کا کہہ کر وہ اگلے کسٹمر کو ڈیل کرنے لگی۔ بریک میں وہ اس کے پاس آیا اور اس سے ویک اینڈ کا پروگرام پوچھا وہ ویک اینڈ کا شیڈول سوچتے ہوئی بولی کہ فراغت ہے۔ جگہ کا تعین کرتے ہوئے اس نے واپسی کا قصد کیا اور وہ لنچ کرنے کی بجائے ملاقات پر کیا پہنے گی کیا بات کرے گی یہی سوچتے سرشار رہی رات کی نیند کی قربانی تو وہ دے آئی تھی اور اب بھوک بھی سیری کا سا لطف دے رہی تھی۔

ویک اینڈ میں دو دن باقی تھے۔ رات کو گھر جا کر شیشے کی گرد جھاڑی جو دیکھنا اسے لگژری لگنے لگا تھا اس شیشے نے ایسے ایسے سچ بولے کہ اگلے دن وہ جاب کے بعد گھر جانے کی بجائے ایک پارلر میں موجود تھی۔ وہاں سے واپسی پر ایک اسٹور سے شوخ رنگوں کا ایک دلفریب لباس خریدا اور عشق کی مستی سے سرشار گھر واپس آئی۔ انتظار کے وہ دو دن کتنے طویل تھے ان کی طوالت تو انتظار کی کوفت میں مبتلا افراد ہی سمجھ سکتے ہیں۔ خیر خدا خدا کر کے مقررہ دن، مقررہ وقت آن پہنچا۔

کسی کے لیے اپنے وجود کو سجانا کیا ہوتا ہے یہ کسی ایسی عورت سے پوچھا جائے جس کی زلف کا کوئی اسیر ہوا ہو۔ اس ایک انسان کے لیے تو عورت کا بس نہیں چلتا کہ اپنا پور پور نکھار لے اس کے رنگ میں رنگ جائے۔ وہ بھی آج ایسا لگنا چاہتی تھی کہ مقابل اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھے۔ اور گرد جھڑے آئینے نے آج اسے بتایا کہ وہ اس کوشش میں کامیاب رہی ہے۔ مسکراتے ہوئے اپنا بیگ اٹھایا فون پر موسم کا حال چیک کیا تو پتا چلا کہ آج شدید برف باری کا امکان ہے اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے تیس سے پینتیس درجے تک گر جائے گا۔

جب اردگرد محبت کی آتش ہو تو سردی بھلا کیا بگاڑ لے گی۔ یہی سوچتے ہوئے وہ پہلے سے گرم کی ہوئی گاڑی میں بیٹھی اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی۔ مقررہ ریسٹورنٹ پر داخل ہونے سے پہلے ایک بار پھر کار کے شیشے میں اپنا آپ دیکھا۔ اور ہوٹل میں داخل ہو گئی جلد ہی گوہر مقصود پہ نگاہ پڑ گئی وہ ہاتھ ہلاتے ہوئے اسے اپنی ٹیبل کی طرف اشارہ کرنے لگا۔ وہ سبک قدم اٹھاتے اس طرف جانے لگی۔ رسمی حال احوال دریافت کرنے کے بعد کھانا آرڈر کیا گیا۔ پھر وہ مرحلہ آیا جس کا اسے کتنے برسوں سے انتظار تھا کہ کوئی وہ سہ حرفی جملہ اس کے کانوں میں انڈیل دے جس کی سرگوشی تاعمر اس کی سماعتوں میں رس گھولتی رہے۔ مخاطب نے گلہ کھنکھار کر گویا بات کا آغاز کیا۔

بتایا گیا کہ آپ کے بارے میں آپ کے ایک کولیگ سے پتا چلا تھا کہ آپ یہاں مستقل رہائشی ہیں اور اکیلی رہتی ہیں کسی اپنے کا ساتھ نہیں۔ یہ بھی علم ہوا تھا کہ آپ کسی سے گھلنا ملنا بھی پسند نہیں کرتیں آپ کا حلقہ احباب بھی بہت مختصر ہے۔ لیکن آپ کے ساتھ کام کرنے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ آپ اپنے ہم وطنوں کی بہت مدد کرتی ہیں۔ شروع میں تو آپ کی محتاط طبعیت نے مجھے یہ بات کہنے سے روکے رکھا لیکن بس آج یہ سب کہنے کی ہمت کر ہی لی۔

وہ جس کا دل اتنی لمبی تمہید سننے کا نہیں بلکہ اصل بات سننے کا تمنائی تھا۔ ہمک کر ہمہ تن گوش ہوا کہ بس اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی ہی چاہتی ہیں۔ اتنے میں آواز آئی کہ کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟ کیا دل جیسے سن کر بھی یقین نہ کرنا چاہ رہا ہو دوبارہ کہو ناں! ایک بار پھر دل نے لبوں سے التجا کی کہ کہ یہ جملہ کہہ دو مگر لب بھی جیسے آج دل کے مخالف ہوئے پڑے تھے شرم سے ہلتے ہی نہ تھے آخر اسی کے دل کو رحم آیا اور وہ دوبارہ بولا کہ کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟

وہ حیرت سے اسے تکتے ہوئے سوچنے لگی کہ یہ انسان عام لوگوں سے کتنا مختلف ہے پیار محبت میں الجھانے کی بجائے سیدھے سبھاؤ شادی کا پیغام دے رہا ہے۔ وہ ابھی اسی ملی جلی کیفیت کا شکار تھی کہ وہ بولا دراصل بات یہ ہے کہ میں جس طرح سے یہاں آیا تھا میرا ویزہ اب ختم ہو رہا ہے اور مجھے ہر حال میں اپنے ملک واپس جانا ہے لیکن اگر میں یہاں کسی مستقل رہائش رکھنے والی خاتون سے شادی کر لیتا ہوں تو میرے بھی مستقل رہنے کا بندوبست ہو سکتا ہے۔

میں کسی دوسری قومیت والی عورت کے ساتھ ایسا کرنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ بعد میں کافی مسائل پیدا کر دیتی ہیں۔ میں وطن میں ڈھیروں ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے جینے کی وجہ بھی چھوڑ کر آیا ہو۔ آپ کو دیکھ کر وہ شک کا شکار بھی نہیں ہو گی کیونکہ آپ جیسی میچور عورت میرے جیسے کم عقل شخص کو کیونکر پسند کر سکتی ہے۔ ویسے بھی آپ کو دیکھنے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ آپ اس پیار محبت شادی کمٹمنٹ کو نہیں مانتیں میں وعدہ کرتا ہو اپنی طرف سے کبھی آپ کو کسی مشکل میں گرفتار نہیں کروں گا۔

وہ بنا رکے بولے چلے جا رہا تھا یہ جانے بغیر کہ اس کے دل پر وہ الفاظ، کسی ایٹم بم کی طرح تباہی مچا رہے تھے اس کا دل جو ابھی کچھ دیر قبل گلاب کی مانند کھلا ہوا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ہیروشیما بن گیا تھا وہی ایٹمی تابکاری جس کے اثرات نسلوں تک چلنے تھے۔ وہی ویران کھنڈر بنا اس کا دل وہ تو شکر ہوا کہ اس نے آتے ہوئے اپنی تیاری کو کسی عزیز کی تقریب میں جانے کا نام دے دیا تو کچھ بھرم رہ گیا۔ اس سے پہلے کہ اس کا چہرہ اس کی اندرونی تباہ کاری کی چغلی کھاتا وہ موسم کے بگڑنے کا کہہ کر اور سوچ کر بتاؤں گی کہہ کر اجازت لے کر باہر نکل آئی اور پارکنگ میں جانے کی بجائے جہاں اس کی گاڑی کھڑی تھی بس اندھا دھند چلنا شروع ہو گئی سر پر نہ گرم ٹوپی نہ ہاتھوں میں دستانے سب گاڑی میں تھا۔

وہ تو عشق کی حرارت لیے گاڑی سے ہوٹل تک گئی تھی۔ اور اب ان چاہی ہونے کا ایسا آتش فشاں اس کے وجود میں پھٹا تھا جس کا لاوا اس کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا کیوں اسے ذرا سی کسی کی توجہ پر یہ لگا کہ اسے بھی چاہا جا سکتا ہے کیوں اسے ”مطلب اور طلب“ کا فرق سمجھ نہ آیا وہ کیسے بیوقوف بن گئی اپنی حماقت پر کف افسوس ملتی وہ چلی جا رہی تھی رات گہری ہو رہی تھی برف نے بھی خوب شدت اختیار کر لی تھی آنکھوں کی آگے تنی دکھ کی چادر سب کچھ دھندلا کیے جا رہی تھی۔

اچانک اسے لگا وہ کسی غلط طرف آ گئی جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی اسٹریٹ لائٹس بھی کہیں اکا دکا دکھائی دے رہی تھیں وہ چلتے چلتے بہت دور نکل آئی تھی اب واپسی کا ارادہ کیا تو برف نے جیسے راستہ روک لیا کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا فون بھی گاڑی میں تھا کسی کو مدد کے لیے بلاتی بھی تو کیسے اچانک ایک طرف اسے ایک بنچ دکھائی دیا جس کو برف نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا وہ تھک چکی تھی قدم چلنے سے انکاری تھے وہ اپنا آپ گھسیٹتی اس بنچ کی طرف لپکی دونوں ہاتھوں سے برف کو ہٹایا اور جگہ بنا کر اس پر بیٹھ گئی دھتکارے جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے اس قیامت کا اندازہ صرف انہی کو ہوتا ہے جن پر یہ قیامت گزرتی ہے۔

اسے ایک سرد جذبات والی عورت کہہ کر پریکٹیکل کہہ کر دھتکارنے والا یہ کہہ کر اس کے اندر مچلتے ارمانوں کو کیسے کچل دیا گیا۔ جسے وہ اپنی منزل سمجھ رہی تھی وہ تو کسی اور ہی راہ کا راہی نکلا۔ سوچتے سوچتے اسی میز پر سر ٹکا کر اس نے اپنے سارے جلتے مچلتے ارمانوں کو برف کے الاؤ میں دفن کر دیا۔ وہ آگ جو اس کے دل نے اس انجان شخص کو دیکھ کر روشن کی اس سے ہاتھ تاپنے کا موسم آئے بغیر ہی رخصت ہو چکا تھا۔ اس وقت یہ برف جیسے اس کی مسیحا ثابت ہوئی تھی اس کے سب الاؤ سب جذبات اور سارے خواب سب اسی برف میں اسی کی طرح سرد ہو گئے کبھی بھی نہ جاگنے کے لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments