شہیدانِ صالح، پغمان اور ”لاندے“ کی ضیافت


یہ خادم مختصر چھٹی کے بعد کابل لوٹا تو اسے برف کی دبیز چادر تلے پایا۔ وطن عزیز کوئٹہ بے طرح یاد آیا جہاں اب برف باری شاذ ہو چکی ہے، اگرچہ اس سال قدرت کے مہربان ہونے کی خبر ہے۔ کابل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”کابل بے زر باشد، بے برف نباشد“ ۔ اس سال بد قسمتی سے بے زری اور برف دونوں کابل پر نازل ہوئے ہیں۔ اس خادم کا ادارہ اور دیگر لوگ بے زری کے اثرات کو کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں لیکن جب تک ملک پر عائد اقتصادی اور تجارتی پابندیاں نرم نہیں ہو پاتیں، ہماری سعی کا فائدہ محدود رہے گا۔ ان پابندیوں میں نرمی کو موجودہ حکم رانوں کی جانب سے چند اقدامات سے مشروط کیا گیا ہے جن میں سر فہرست خواتین پر لگائی گئی ناجائز قدغنوں کا خاتمہ ہے۔ فی الحال عالمی برادری اور حکم ران اپنی اپنی جگہ سخت موقف لیے ہوئے ہیں۔ یہ البتہ طے لگتا ہے کہ افغان عوام کی قسمت میں ابھی بہت سی سختی لکھی ہے۔

اس خادم کے دیرینہ یار وفادار اور صومالیہ و سوریہ کے رفیق، زبیر عزت ان دنوں چھٹی پر گھر یعنی کابل آئے ہوئے ہیں۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر ان کے ساتھ طے پایا کہ ہمارے کلبہ احزاں سے ذرا نکلا جائے اور اطراف کابل کی سیر دیکھی جائے۔ پہلا پڑاؤ شہر قدیم کے قلعہ بالا حصار کی پشت پر واقع قبرستان شہیدان صالح ٹھہرا۔ اس قبرستان کا مرکزی نقطہ دو طویل قبریں ہیں جو وہاں نصب کتبے کے مطابق دو انصاری صحابہ کرام حضرت تمیم و حضرت جبیر [ر ض] کی ہیں جو روایت کی رو سے پہلی صدی ہجری میں حضرت عثمان غنی [رض] کے دور خلافت میں بسلسلہ جہاد براستہ سیستان یہاں وارد ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر لشکر علاقہ فتح کرنے اور یہاں کے اس وقت کے حکم ران ایرج شاہ کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے بعد لوٹ گیا لیکن یہ دونوں صحابہ کرام بہ غرض تعلیم و تزکیہ یہیں رک گئے۔ ایرج شاہ گزرے تو یہاں جے پال نامی حکم ران کا تسلط ہو گیا اور اس دوران ایک شورش کے نتیجے میں دونوں صحابہ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ حسب دستور مقامی، قبرستان کے دورے کا آغاز ان صحابہ کرام کے مراقد پر فاتحہ خوانی سے کیا۔

یہ خادم تحت اللفظ شعر خوانی سے کچھ شوق رکھتا ہے۔ طبیعت کی ترنگ کے حساب سے کبھی اردو، کبھی فارسی، کبھی پشتو میں کچھ پڑھ دیتا ہے اور سوشل میڈیا پر احباب کبھی ازراہ خرد نوازی داد سے نوازتے ہیں تو کبھی لہجے یا ادائیگی کی فروگزاشتوں پر تادیب بھی فرما دیتے ہیں۔ خیر، بقول فراز صاحب۔ وہ سنگ ہو کہ پھول ودیعت ہے یار کی۔ اس حوالے سے کتابوں اور ویب سائٹس کی ورق گردانی کے دوران صوفی غلام نبی عشقری صاحب سے متعارف ہوا۔ کمال کے شاعر گزرے ہیں اور کلاسیکی تراکیب، معاصر مسائل، غم جاناں و غم دوراں کو کیا خوب سلک سخن میں پروتے ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو۔

شکست دل صدا دارد، ندارد
محبت مومیا دارد، ندارد
بپرسید ای حریفان از مسیحا
کہ درد ما دوا دارد، ندارد
الہی من ز دست و پا فتادم
رہ عشق انتہا دارد، ندارد
ز بازار نکورویان بپرسید
کہ جنس دل بہا دارد، ندارد
بہ غیر از دیدن روی نکویان
دل ما مدعا دارد، ندارد
نماز عاشقان ای مفتی عشق
نفرمودی قضا دارد، ندارد
ببین جانان اطاق عشقری را
کہ نقش بوریا دارد، ندارد

صوفی عشقری صاحب کا مدفن بھی اسی قبرستان میں ہے۔ ایک آدھ جگہ پوچھنے کے بعد صوفی صاحب کی آخری آرام گاہ کا سراغ ملا۔ وہاں پہنچے تو پتا چلا کہ حال ہی میں دنیا سے پردہ فرمانے والے، عشقری صاحب ہی کی راہ کے ایک اور سالک، حیدری وجودی صاحب بھی اسی احاطے میں دفن ہیں۔ باری باری دونوں قبور پر فاتحہ خوانی کے بعد یہ خادم اطراف کا جائزہ لے رہا تھا کہ دیوار کے ساتھ واقع ایک نسبتاً نئی قبر کے تعویذ پر نظر پڑی تو ایک جھماکے کے ساتھ جوانی کی سیاسی سرگرمیوں کا زمانہ یاد آ گیا۔ اسی اور نوے کی دہائی میں افغان قوم دوست حلقوں میں سب سے مقبول گلوکار عبداللہ مقری ہوا کرتے تھے۔ یہ خادم ان کے گزشتہ سال انتقال کے بارے میں جانتا تھا لیکن ان کی آخری آرام گاہ کو اچانک سامنے پا کر بے اختیار آنکھیں بھر آئیں۔

ہمارے خطے کی موسیقی، خصوصاً فارسی اور پشتو غناء سے شوق رکھنے والے احباب کے لیے افغان گلوکار احمد ظاہر کا نام یقیناً اجنبی نہ ہو گا۔ احمد ظاہر اور ان کے موسیقی میں استاد استاد نے نواز نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں افغانستان میں پہلی بار افغان لوک اور ہندستانی شاستریہ سنگیت کی دھنوں کو مغربی سازوں کے ساتھ پیش کرنے کا ڈول ڈالا جسے عوام الناس میں بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ احمد ظاہر ستر کی دہائی کے آخر میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے لیکن ان کی مقبولیت اب تک برقرار ہے۔ ان کے چاہنے والوں نے ان کی یاد میں ان کی قبر پر ایک اچھوتی طرز کا مزار ایستادہ کیا تھا جسے طالبان کے گزشتہ دور میں توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں اسے مرمت کر کے بحال کیا گیا۔

یہ خادم اپنے میزبانوں کے ہمراہ احمد ظاہر کی قبر پر پہنچا تو ذہن میں مرحوم کی گائی ہوئی، دیوان شمس تبریز میں شامل، مولانا رومی کی غزل گونج رہی تھی۔

بیایید، بیایید، بہ میدان خرابات
مترسید، مترسید ز عریان خرابات
شہنشاہ، شہنشاہ، یکے بزم نہادہ است
بگویید، بگویید، بہ رندان خرابات

شہیدان صالح سے نکلے تو کابل کے جنوب میں واقع پہاڑ کا رخ کیا جو کابل سے متصل ضلع پغمان میں واقع ہے۔ کابل گزشتہ دہائیوں میں بے تحاشا انتقال آبادی کے سبب بے ہنگم طرز پر پھیلا ہوا ایک اکثر و بیشتر کثیف شہر ہے۔ گرد و غبار اور سردیوں میں پتھر کے کوئلے کا استعمال عام ہونے کے سبب آسمان پر ہر وقت ایک ملگجی سی چادر چھائی رہتی ہے۔ جیسے جیسے مرکز شہر سے اونچائی کی سمت دور ہوتے گئے، فضا کی کثافت گھٹتی چلی گئی اور ہر سمت جمی ہوئی برف کی دبیز تہہ منظر کی رعنائی کو چار چاند لگاتی نظر آئی۔ راہ میں قرغہ نامی مقام پر ایک جھیل کے برابر گزر ہوا جس کی سطح منجمد تھی اور سیاح اس پر بے تکلف چہل قدمی فرما رہے تھے۔ پغمان کا قصبہ سردی اور چھٹی کے سبب ویران پڑا تھا۔ قصبے کے وسط میں ”طاق ظفر“ نامی ایک محراب ہے جو سن انیس سو انیس میں افغانستان کے استقلال کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی۔ وجہ تنصیب اور طرز تعمیر میں پیرس کی محراب فتح سے متاثر و مشابہ ہے، اگرچہ جسامت میں اس سے کہیں کم ہے۔ قریب ہی شاہی دور کا قائم کردہ سرکاری مہمان خانہ ”بالا باغ“ واقع ہے جسے گزشتہ حکومت نے سیاحوں کے لیے کھول دیا تھا۔ کوئی بھی شخص ٹکٹ خرید کر اندر جا سکتا ہے۔ عمارات پر تو خیر قفل پڑا تھا، ہم اس کے احاطے میں موجود چٹانوں اور ڈھلانوں پر پڑی برف کا لطف اٹھا کر واپس ہوئے۔

دن کا اختتام زبیر صاحب کے دولت کدے پر ایک پر تکلف دعوت پر ہوا جہاں اس خادم نے کئی برسوں بعد نہایت سلیقے سے سکھایا گیا گوشت ”لاندے“ نوش جان کیا۔
ختم شد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments