ایک خط ، ایک نظم اور احمد سلیم
یہ جنوری کے ہی دن تھے جب میں ان سے ملنے ایم اے جناح روڈ پر واقع ان کے دفتر گیا۔ ان دنوں وہ اس رسالے کے ایڈیٹر تھے جو ایک خاص کمیونٹی کا نمائندہ تھا اور روایتی طور پر اسی کمیونٹی کے حوالے سے مواد چھاپنے کا پابند تھا۔ مگر اس روایت کو بھی انھوں نے نہایت خوش اسلوبی، مہارت اور دیانتداری سے تبدیل کیا۔
روایت پسندی کے ماحول میں رہتے ہوئے، یہ روایت شکنی انھوں نے کیسے کی، یہ بات آگے چل کر ہوگی، پہلے، پہلی بات، جو ماہ جنوری سے متعلق ہے جس کے حوالے سے وہ واقعہ منسوب ہے جس کا احوال سنانے کے لئے یہ تمہید باندھی گئی ہے۔
رسالے کے دفتر میں آئندہ چھپنے والے اور گزشتہ شائع شدہ مواد کے علاوہ اور کیا گفتگو ہو سکتی ہے سو وہ ہی یہاں موضوع تھا۔ کبھی کبھار گفتگو میں اس وقت رکاوٹ حائل ہوتی جب عملے کا کوئی ملازم کسی ضرورت کے تحت کمرے میں داخل ہوتا یا وہ خود، کسی سیکشن کو ہدایت دینے کمرے سے باہر جاتے۔ اسی تسلسل اور تعطل کے ساتھ ہماری گفتگو جاری تھی جب ایک ٹی وی آرٹسٹ اچانک ایک وسیع و عریض گلدستہ لے کر سرپرائز دینے ان کے کمرے میں داخل ہوئیں۔ خوشبووں سے معطر اس رنگا رنگ علامت کے بعد ، یہ قیاس کرنا مشکل نہ تھا کہ یہ کسی اہم دن سے تعلق کا اظہار ہے۔
یوں اسی دن یہ انکشاف ہوا کہ 26 جنوری ان کا یوم پیدائش ہے۔ اب یہ سوال کہ وہ گلدستہ، یہ محترمہ لے کر کیوں آئی ہیں، یہ ان کی موجودگی میں پوچھنا نامناسب تھا اس لئے ان کے جانے کا انتظار ضروری تھا۔
تہنیتی جذبات کے اظہار اور مختصر گپ شپ کے بعد جب وہ محترمہ روانہ ہوئیں تو میرا بلاوجہ کا تجسس، سوال کی صورت میں ظاہر ہونے سے نہ رکا، حالانکہ ایک ایسی شخصیت جو بیک وقت ادیب، شاعر، صحافی، ڈرامہ نگار، محقق اور مترجم سبھی کچھ ہو اس کا فنکاروں اور تخلیق کاروں سے اگر میل جول نہ ہو، تعجب تو تب ہونا چاہیے!
سو اب اس معصومانہ سوال کی وضاحت میں انھوں نے جو بتایا، وہ ان کی شخصیت کو مزید گہرائی سے جاننے کا بہانہ بنا۔ انھوں نے بتایا کہ ان محترمہ نے ایک موقع پر ، اپنے کسی ذاتی معاملے سے مایوس ہو کر زندگی ختم کرنے کے لئے انتہائی فیصلے کا انتخاب کیا تھا اور زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا، ہسپتال داخل ہوئیں۔ تب میں ایک دن ان سے ملنے ہسپتال گیا جہاں میں نے انھیں زندگی میں موجود روشن امکانات پر اپنی ایک نظم سنائی جو اسی واقعے سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھی۔ شاید، اور دو سریے عوامل کے، یہ نظم بھی ان کے لئے زندگی کی طرف لوٹنے کا سبب بنی اور تعلق کا یہ اظہار بھی، تبھی سے جڑ پکڑے ہوئے ہے۔
پارس کا لفظ سننے میں تو آتا ہے مگر اس کے مظاہر ہمارے معاشرے میں کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ان میں یہ خوبی اپنی پوری معنویت کے ساتھ موجود رہی اور شاید اس کی وجہ وہ کشادہ دلی اور وسیع النظری ہے جس کے تحت انھوں نے عمومی رویے کے بر خلاف علم جتانے اور پھر اسے اوروں سے چھپانے کی بہ جائے، اپنے ساتھ چلنے والوں میں اسے لٹانے اور آگے بڑھانے کا انسان دوست راستہ اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بتانا واقعتاً مشکل ہو گا کہ اس رفاقت سے کتنے مہمیز ہوئے۔
ان کے حوالے سے اس رسالے کی ادارت کا ایک متاثرکن پہلو بھی، نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی تھی، جو اس شد و مد سے ہمارے اطراف میں شاذونادر دیکھنے میں آتی ہوگی۔ جو کوئی اس سمت پیش قدمی کرتا، اور اس میں کسی بھی سطح کی گنجائش دکھائی دیتی، اس کی ہمت افزائی کا سامان یہاں موجود ہوتا۔ کوئی صاحبہ، سندھ کے کسی چھوٹے شہر سے شاعری کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے، کچھ نہ کچھ اشاعت کے لئے بھیجتی رہیں اور یہ اسے نکھار اور سنوار کر ، تواتر سے شائع کرتے رہے کہ کہیں حوصلہ شکنی، مستقبل کے ایک شاعر کو مایوس نہ کردے۔ اس کے حیرت انگیز نتائج، بہت جلد، بعد کی تحریروں میں ظاہر ہونے لگے۔ یہ یقین ہے کہ اس بل واسطہ تربیت کے توسط سے آج ان کا شمار کہنہ مشق لکھاریوں میں ہوتا ہو گا۔
اسی رسالے کے متن اور لے آؤٹ کے حوالے سے انھوں نے جو انقلابی اقدامات کیے وہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا جرات مندانہ طرز عمل کہا جاسکتا ہے۔ وہ رسالہ جو مخصوص کمیونیٹی کے محدود موضوعات پر مبنی خشک مضامین سے آگے نہیں بڑھتا تھا، اسے انھوں نے اپنی محنت اور جفاکشی سے ایسے دلچسپ اور فکر انگیز مواد سے سجا دیا کہ دیکھنے اور پڑھنے والے اس حیرت میں ہوتے کہ رسالہ کوئی اور ہے یا ٹائیٹل غلط چھپ گیا ہے۔ انتظامیہ کے لئے یہ دلیل کافی تھی کہ اس خوشگوار تبدیلی کے باعث لوگ رسالہ پڑھیں گے تو مخصوص پیغام بھی خود بہ خود مشتہر ہو گا۔
ادب، صحافت اور تحقیق جب یکجا ہو جائے تو اپنا رنگ کیوں نہ دکھائے، سو یہ جادو، ان کی تحریروں میں ہر سو، سر چڑھ کے بولتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی شخصیت کا کمال ہی درحقیقت ان کا ہم جہت ہونا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ ایک تنہا شخص اتنے سارے میدانوں کے اتنے سارے موضوعات کو اتنی چابکدستی سے، اتنے تسلسل کے ساتھ، اتنے برسوں سے، اتنی خوش اسلوبی سے نبھا سکے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ دانشور ہوں یا سیاستدان، مصور ہوں یا ایکٹیوسٹ، ادیب ہوں یا فنکار، وہ ان کے نام سے واقف نہ
ہوں، تو پھر اسے ان کی کمزور معلومات عامہ کے سوا، اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
کمال احمد رضوی صاحب کا ایک ٹی وی انٹرویو تھا۔ یہ محسوس کیا گیا کہ اس شخصیت کے لئے موزوں ترین سوالات اگر کوئی بنا سکتا ہے تو وہ ان کے سوا کوئی نہیں۔ اس حوالے سے جب ان سے سوالات بنانے کی گزارش کی گئی تو وہ اپنی مصروفیت کے سبب اس کے لئے دستیاب نہ تھے تاہم انھوں نے خندہ پیشانی سے یہ پیشکش کی کہ ریکارڈ میں موجود میرے کیے گئے پرانے انٹرویوز سے مدد لے لی جائے۔ ان تمام انٹرویوز کی عرق ریزی کر کے سوالات تیار کیے گئے۔ جب کمال احمد رضوی صاحب سے، ریکارڈنگ سے قبل ان سوالات پر تبادلہ خیال ہوا تو ان کی خوشی اور اطمینان دیدنی تھا۔ اپنے مخصوص لہجے میں کہنے لگے یہ کون شخص ہے جو مجھے اتنا جانتا ہے۔
یونیورسٹی میں دوران طالب علمی ان سے کینٹین، آرٹس لابی یا سبزہ زار پر ہونے والی عام گفتگو اس وقت خاص ہو جاتی، جب اچانک کسی دن یہ انکشاف ہوتا کہ اس دن کی گپ شپ اور روز مرہ کے مکالموں کو انھوں نے اپنی تخلیقی مہارت سے ایک زبردست فیچر کی شکل دے دی ہے۔ ایسے ایک نہیں، ان گنت فیچرز اس دوران وقتاً فوقتاً طلبہ اور طالبات کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کرتے رہے۔
اس بات کا تعلق بھی یونیورسٹی ہی سے ہے کہ ہمارے، عزیز از جان دوست اکرم ڈوگر جنہیں اچھی کتابوں اور اچھے لوگوں کی ہمیشہ تلاش رہتی تھی، ایک روز پاکستان پوسٹ کا ایک لفافہ لاہور بھیجنے کی غرض سے اٹھا لائے۔ ان دنوں رابطے کا موثر ترین ذریعہ صرف خط و کتابت ہی تھا۔ ڈاکخانے کی نذر کرنے کے بعد ، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ خط ایک لکھاری کی تلاش میں جا رہا ہے جس کا پتہ کافی تلاش و بسیار کے بعد ہاتھ لگا ہے۔ دعا کرو منزل پر پہنچے اور رابطہ ہو جائے۔ پاکستان کی تمام ثقافتوں کے لئے جی بھر کے کام کرنے والے اس لکھاری کی تعریف میں انھوں نے آسمان اور زمین کے قلابے بھی ملائے۔ اکرم ڈوگر کی حقیقت پسندی اور بے لاگ شخصیت کو دیکھتے ہوئے، پھر بھلا کیسے، اس تلاش میں ہمارے ایک سے جذبات نہ ہوتے۔
اس زمانے میں لا آف ایٹریکشن کی، آج کل کی طرح اتنی دھوم نہ تھی مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ اتنا ہی کارگر تب بھی تھا، جب ہی تو کچھ ہی عرصے بعد معلوم ہوا کہ احمد سلیم نہ صرف یہ کہ کراچی منتقل ہو گئے ہیں بلکہ ان کا کراچی یونیورسٹی سے ہی فلسفے میں ایم اے کرنے کا ارادہ ہے ( جو بعد ازاں گولڈ میڈل پر منتج ہوا۔ )
- تھری چیئرز فار وحید مراد : ہپ ہپ ہرے! - 25/11/2023
- رضوانہ ، ثومیہ اور ایک فرانسیسی عورت! - 09/08/2023
- اپنا انداز جنوں سب سے جدا رکھتا ہوں میں ( حصہ سوم ) - 10/02/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).