مواد اور چیلنج


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے سیکڑوں دانشوروں، تاجروں، اساتذہ اور طلبا اور ماہرین سمیت اہم اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد قومی سلامتی کی پالیسی بنائی ہے۔ تاہم بدقسمتی سے حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ حکومتی اراکین پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پالیسی کو ”خفیہ“ قرار دیا گیا ہے۔ ہمیں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ”انسانی سکیورٹی“ کوتوانا کرکے ”روایتی سکیورٹی“ کو مضبوط کیا جائے گا۔ ان دونوں کے لیے مختص کردہ وسائل کاحجم بڑھایا جائے گا۔ لیکن بے فکر رہیں۔ ہم سات دہائیوں سے جاری قومی سلامتی پالیسی کو جانتے ہیں۔ اور ہم بلاتامل پوچھتے رہیں گے کہ نئی پالیسی طے شدہ دانائی سے کیوں اور کیسے گریز کرے؟

قیام پاکستان عالمی تاریخ کی سب سے بڑی اجتماعی ہجرت، بے مثال فرقہ وارانہ تشدد اور کشمیر پر جنگ کی سلگتی ہوئی یادیں لیے ہوئے ہے۔ درحقیقت ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں نے بلاتاخیر ببانگ دھل کہنا شروع کردیا تھا کہ پاکستان کی نئی ریاست جلد ہی ہندوستان میں دوبارہ جذب ہو جائے گی۔ اس طرح عدم تحفظ نئی قوم اور ریاست کے جینیاتی سانچے میں شامل ہوگیا۔ ملک کے پہلے بجٹ کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ فوری طور پر فوجی دفاع اور سلامتی کے لیے مختص کر دیا گیا۔ وراثت میں ملی نوآبادیاتی سول ملٹری بیوروکریسی مقامی سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں سے زیادہ ترقی یافتہ، منظم اور مربوط تھی۔ اس نے ریاست اور معاشرے کے اہم عہدوں پر قبضہ جما لیا۔ اس کی طاقت کا ارتکازغلام محمد، خواجہ ناظم الدین کی صورت گورنر جنرل اور اسکندر مرزا اور ایوب خان کی صورت صدور کے مناصب میں تھا۔ یہ اشرافیہ امریکہ کے ساتھ سینٹو، سیٹو اور بغداد پیکٹ جیسے دفاعی معاہدوں میں شریک ہوئی۔ اگرچہ بظاہر یہ معاہدے اشتراکیت کے خلاف تھے لیکن درحقیقت ان کے ذریعے بھارت کے خلاف فوجی دفاع مضبوط بنانا مقصود تھا۔ اس طرح پاکستان کا قومی سلامتی کا بیانیہ وجود میں آیا۔ اس کے تین ستون تھے: پہلا بھارت کی طرف سے بداعتمادی اور دشمنی۔ کشمیر کو تقسیم ہند کا ادھورا باب قرار دیا گیا۔ دوسرا جنرل ایوب کے دور اقتدار میں بنیادی جمہوریت کے نام پر اختیارات کو اپنے ہاتھ میں رکھنا۔ اور تیسرافوجی اور معاشی امداد کے لیے امریکہ پر انحصار۔

اختیارات کی مرکزیت پر مبنی قومی سلامتی کا ریاستی نظام 1971 میں فوجی شکست کے بعد پاکستان کے دولخت ہونے پر منہدم ہوگیا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے تحت سویلین بندوبست اور 1973 کا جمہوری آئین وجود میں آیا۔ لیکن 1977ء میں سلطنت نے پھر پلٹ کر وار کیا اور ملک پر مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1980کی دہائی میں غیر جماعتی صدارتی نظام مسلط کیا اورملک کو واپس امریکی کیمپ میں دھکیل دیا۔

1988ء میں جنرل ضیاء الحق کے غیر متوقع طور پر منظر عام سے ہٹنے کے ساتھ اس نظام کو ایک جھٹکا لگا لیکن صدر غلام اسحاق خان اورجنرل اسلم بیگ نے ایک ہائبرڈ آئینی نظام کی صورت کھیل کے پتے اپنے ہاتھ میں رکھے۔ طاقت ور فوج کا نامزد کردہ یا حمایت یافتہ صدر منتخب شدہ وزیر اعظم کو برطرف اور پارلیمنٹ کو تحلیل کرسکتا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں ایسا تین مرتبہ دیکھنے میں آیا۔ بے نظیر بھٹو نے راجیو گاندھی کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر چلتا کر دیا گیا۔ 1990 کی دہائی میں وقتاً فوقتاً برطرفیوں اور دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے جمہوری عمل کو روندا جاتا رہا۔

بالآخر 1999 میں حتمی وار کیا گیا جب نواز شریف نے بھارت کے ساتھ ”امن“ قائم کرنے کے لیے بس ڈپلومیسی کا سہارا لیا تو جنرل مشرف نے کارگل میں مہم جوئی کرکے اُن کا تختہ الٹ کر اور جلاوطن کردیا گیا۔ مشرف نے آٹھ سال تک آمر کی طرح حکومت کی۔ افغانستان میں امریکہ کی جنگ کا سہولت کار بنتے ہوئے فوجی اور اقتصادی امداد کی مد میں اربوں ڈالر وصول کیے۔ ایک غیرمتوقع عوامی مزاحمت کی تحریک جو جج افتخار چوہدری نے شروع کی تھی، نے مشرف کا اقتدار ختم کردیا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر سویلین کے ہاتھ میں حق حکمرانی آگیا۔ لیکن اس سے پہلے بے نظیر بھٹو کواپنی جان دینی پڑی تھی۔

آصف زرداری کے دور کو ممبئی اور میموگیٹ نے بلیک میل کیا۔ ان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو برطرف کیا گیا۔ نواز دور کسی کی ایما پر دیے گئے دھرنوں، انڈیا میں جہادیوں کو بھجوانے اوردشمن کے ساتھ روابط رکھنے کے الزامات کی نذر ہوگیا۔ ان کے خلاف کام کرنے والی تحقیقاتی ٹیم اعلیٰ افسران کو جواب دہ تھی۔

قومی سلامتی کے اس نمونے کو 2018 میں عمران خان کو اقتدار پر بٹھانے اور آصف زرداری اور نواز شریف کو قید و بند کا نشانہ بنانے کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا گیا۔ لیکن امریکی حمایت اور امداد سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ عمران خان کے طرز حکمرانی، کارکردگی دکھانے میں ناکامی نے اقتصادی بحالی اور ہائبرڈ نظام کا جواز ختم کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے منصوبہ سازوں کا دامن داغ دار ہوگیا۔ دریں اثنا پرانے دشمن بھارت کے ساتھ روایتی فوجی توازن تیزی سے بگڑ چکا۔ ہائبرڈ سسٹم کی قانونی حیثیت اور فزیبلٹی دونوں کے چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے نیشنل سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بنیادی امور پر واپس آنے اور اپنی قومی سلامتی پالیسی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔

امریکی امداد اور حمایت کھونے کے بعد ایک نئی قومی سلامتی کی پالیسی وضع کرنی ہوگی۔ سیاسی نظام کی نمائندہ اور معتبر قانونی حیثیت کو بحال کرنا  اور کشمیر پر بھارت کے ساتھ دائمی تنازع سے قدم پیچھے ہٹانا ناگزیر ہے۔ ٹریلین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہو گا؟ انتہائی امیر اور مراعت یافتہ طبقوں سے غریبوں کو دولت کی بڑے پیمانے پر منتقلی اور نمائندہ سولین نظام حکومت کی طرف واپسی ضروری ہے۔ صرف یہی چیز بڑھتی ہوئی معاشی اور سیاسی بے اطمینانی اور مذہبی عسکریت پسندی کو روکے گی جو ریاست کو زیر و زبر کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ امن کے لیے طویل المدت پالیسی اور عسکریت پسندی سے حتمی واپسی ہی مطلوبہ نتائج دے گی۔ لیکن پرانی قومی سلامتی پالیسی کو راتوں رات تبدیل کرنا سات دہائیوں سے اس سے مستفید ہونے والے اداروں، گروہوں اور طبقوں کے اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے زبردست ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نئی قومی سلامتی کی پالیسی انتہائی رازداری میں رکھی گئی ہے۔ اس پر سرکاری بیانیہ لفاظی اوروسیع تر مفہوم کا الجھاؤ رکھتا ہے۔ اس نے پالیسی کے مواد اور درپیش چیلنج کو مبہم کر دیا ہے۔

بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments