کال گرل


پچھلے سال دسمبر کی ایک خوبصورت شام تھی اور ہم تین دوست کافی عرصے بعد ایک مہنگے ریسٹورنٹ میں رات کے کھانے پر جمع تھے۔ یہ امریکہ کا ایک خوبصورت شہر ہے اور دنیا کے امیر ترین لوگ جیسے کے بل گیٹس اور جیف بیزوز، یہیں رہائش پذیر ہیں۔ دسمبر میں نئے سال اور کرسمس کی وجہ سے پورا شہر روشنیوں سے سجا ہوا تھا۔

ریسٹورنٹ کا ماحول نہایت عاشقانہ تھا۔ مدہم روشنی اور موسیقی کی دھن ماحول کو اور خوشگوار بنا رہی تھی۔ ہمیں کونے میں شیشے والی بڑی دیوار کے ساتھ میز ملی جہاں سے باہر ڈاؤن ٹاؤن کا منظر دیکھا جا سکتا تھا۔

کھانا آرڈر کرنے کے بعد ہماری زندگی کے مختلف موضوعات پر بات چیت چل نکلی کہ اچانک میری نظر کھڑکی کے باہر ایک لڑکی پر پڑی جو اپنے گاہک سے کچھ بات کر رہی تھی۔ گہری سرخی، پاؤڈر، میک اپ، چھوٹا اور تنگ لباس۔ کندھے پر بیگ لٹکائے وہ اور مرد پھر ایک خاموش اور اندھیری گلی میں چلے گئے۔

وہ لڑکی ایک کال گرل تھی۔ منٹو نے اپنے افسانوں میں پیشہ کرنے والی خواتین کو طوائف، ویشیا اور رکھیل بھی لکھا ہے لیکن جو لفظ منٹو نے سب سے زیادہ استعمال کیا وہ رنڈی تھا۔ شاید اس لفظ میں کرب اور بے چارگی زیادہ ہے جس کو صرف منٹو جیسا حساس افسانہ نگار ہی سمجھ سکتا تھا۔ بیالیس سال کی عمر میں ایسے ہی کوئی نہیں مر جاتا۔

کھانا اب ہماری میز پر آ چکا تھا۔ اس لڑکی کو دیکھ کر میں نے اپنے دوستوں کو کہا کہ میری ذاتی رائے میں جسم فروشی کو قانونی درجہ مل جانا چاہیے تاکہ ان غریب اور بے سہارا لڑکیوں کو حکومت کی حفاظت مل جائے اور جو ظلم ان پر ہو رہا ہے، اس میں کمی واقع ہو جائے۔

میرے دوسرے دوست نے مجھے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے دی کہ پراسٹیٹیوشن کو کسی بھی صورت میں قانونی درجہ نہیں ملنا چاہیے کیونکہ یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔ اس نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی لڑکی کس مجبوری سے گزرتی ہو گی جب وہ اپنے جسم بیچنے کا فیصلہ کرتی ہے۔

میرا استدلال یہ تھا کہ جسم فروشی کو قانونی حیثیت ملنے سے ان عورتوں کو تحفظ فراہم ہو گا۔ وہ کسی بھی جنسی ہراسانی اور دیگر مسائل کو پولیس تک لے جا سکتی ہیں اور رپورٹ کر سکتی ہیں۔ ابھی تو حال یہ ہے کہ خود پولیس والے ان خواتین کو ہراساں کرتے ہیں اور بلیک میل کرتے ہیں۔

پھر اس پیشے کو قانونی کرنے سے ان خواتین کو صحت کی سہولت مل جائے گی اور یہ باقاعدگی سے اپنے ٹیسٹ اور علاج کروا سکتی ہیں۔ یورپ اور دنیا کے کئی ملکوں نے اس پیشے کو قانونی کر کے اور ان خواتین سے ٹیکس جمع کر کے ایک مکمل عزت دار شہری کی طرح، ان کو تحفظ اور صحت کی سہولیات فراہم کی ہیں۔

میرا تیسرا دوست ابھی تک خاموش تھا اور اس کی توجہ اپنے اسٹیک پر مرکوز تھی لیکن وہ ہماری گفتگو غور سے سن رہا تھا۔

میں نے اپنی بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس پیشہ کو قانونی کرنے سے انسانی اسمگلنگ بھی کم ہو سکتی ہے اگر حکومتیں سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کریں۔ قانونی کرنے سے یہ خواتین اپنے اپارٹمنٹ میں یہ سروس مہیا کر سکتیں ہیں جس سے ان کو ان اندھیری گلیوں کا رخ نہیں کرنا پڑے گا اور وہ اپنے آپ کو اپنے گھر میں زیادہ محفوظ سمجھیں گیں۔

میرا دوسرا دوست ان سب باتوں کے باوجود مطمئن نہیں ہوا۔ وہ سمجھتا تھا کہ کسی بھی عورت کو کسی بھی طور پر یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ عورت کا یہ کام کرنا ہمارے معاشرے کی اور حکومت کی ناکامی ہے۔

میرا تیسرا دوست ابھی تک اپنے اسٹیک کے ساتھ انصاف کر رہا تھا اور خاموش تھا۔

میں نے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم مثالی معاشرے میں نہیں رہ رہے ہیں۔ واقعی ایک عورت کو اس مقام تک نہیں آنا چاہیے لیکن اگر وقت اور مجبوری نے انہیں زندگی کے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے تو پھر لازم ہے کہ ان کے تحفظ کے لئے اقدامات کیے جائیں اور انہیں پوری عزت دی جائے۔

میرا تیسرا دوست جو اب تک خاموش تھا، اپنا سر اٹھا کر اس بحث کو تقریباً منطقی انجام تک پہنچا دیتا ہے اور کہتا ہے ”میرے خیال میں اس بحث میں کسی عورت کو بھی ہونا چاہیے“

اس جملے کے بعد مجھ میں کوئی اور استدلال کرنے کی آرزو دم توڑ گئی۔ اب کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں تھا۔ ہم مرد کب تک عورتوں کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرتے رہیں گے؟

کسی نے صحیح کہا ہے کہ عورت کو تمام عمر حکم دیتے دیتے اور اس کی سوچ کو مقید اور شخصیت کو مسخ کر کے ہم پھر اس سے یہ توقع کریں کہ وہ ہمارے بچوں کی شخصیت سازی کرے، ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments