تھریا غار کی قدیم نقش نگاری


پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کسی بھی سمت سے داخل ہونے والا کوئی بھی شخص اس کے مقناطیسی قدرتی دلکش نظاروں سے مسحور ہو کر اس کی سحر انگیزی کی گرفت میں آ جاتا ہے، کیوں کہ یہ پورا صوبہ بلوچستان منفرد قدرتی کشش کی وجہ سے گھومنے کی حسین سیر گاہ کی طرح لگتا ہے۔ اس کا وسیع ساحلی علاقہ، حیرت انگیز پہاڑی وادیاں، آبشاریں، ناقابل شکست بلند پہاڑی سلسلے اور پہاڑیاں، شاندار چشمے اور آب و ہوا انسان کو ہمیشہ کے لیے وہاں رہنے کا احساس دلاتی ہیں۔

دنیا میں قدیم تہذیبیں وہاں پائی گئی ہیں جہاں پانی موجود تھا۔ دریاؤں، سمندروں کے کنارے، پہاڑوں کی وادیوں میں بہتے بہتے قدرتی پانی کے قریب قدیم تہذیبوں نے جنم لیا۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں زندگی اور تہذیب کی قدیم باقیات وہاں پائی گئی ہیں جہاں پہاڑوں کی وادیوں میں پانی ہے۔ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہونے کی وجہ سے، وادیوں اور پہاڑوں میں قدیم زمانے سے انسان آباد تھا۔ اس وجہ سے بلوچستان قدیم ترین آثار قدیمہ کے مقامات میں بہت شاہکار ہے۔

یہاں غاروں میں نقش نگاری کی کچھ باقیات بھی ملی ہیں۔ وادیوں کے نزدیک پہاڑوں کی چٹانوں پر غاروں میں نقش نگاری کے کئی مقامات شمالی بلوچستان میں رجسٹر کیے گئے ہیں لیکن جنوبی بلوچستان میں غاریں، ان میں نقش نگاری کے مقامات ابھی تک تلاش نہیں کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر تحصیل وڈھ، ضلع خضدار کی وادیٔ پلیماس میں قلی (گاؤں ) چتوکا بھٹ (ٹیلہ) کے قریب پب پہاڑ میں ٹھریا غار، اس میں موجود نقش نگاری پہلے رکارڈ پر نہیں تھی۔ یہ غار نقش نگاری میں نے ہی پہلی بار دریافت کی تھی۔ ایسے غار اور بھی ہو سکتے ہیں۔

تھریا کا غار وڈھ شہر سے مشرق کی طرف 15 کلومیٹر کے فاصلے پر پب پہاڑ میں واقع ہے، جہاں پانی کے قدرتی چشمے بھی ہیں تو پہاڑی ندی نالے بھی ہیں جو بارشوں میں پہاڑوں سے پیلیماس وادی کی طرف بہتے ہیں۔ برساتی پانی کا یہ سلسلہ ٹک اور وڈھ کے علاقے میں برساتی ندی نالوں کی طرف بہتا ہے۔ ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کی وادیٔ پلیماس اور اس کے گرد نواح میں تقریباً چھ سے زائد تاریخی اور آثار قدیمہ کے مقامات۔ ہیں جو وڈھ شہر اور وادی پیلیماس کی قدامت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان مقامات کی قدامت کا تعلق غالباً بلوچستان کی دریافت شدہ نال تہذیب سے ہو سکتا ہے جو خضدار شہر کے مغرب میں نال شہر کے قریب نال پہاڑی ندی کے کنارے پر واقع ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس علاقے کی تہذیبی باقیات کو خزانے کے تلاش کرنے والوں نے تباہ کر دیا ہے۔

تھریا غار ایک پہاڑی نالے اور ایک قدیم راستے کے ساتھ واقع ہے۔ جو پب پہاڑی سلسلے کو عبور کرنے کے بعد تحصیل جوہی، ضلع دادو سندھ کے قریب کیرتھر پہاڑی سلسلے کی طرف جاتا ہے۔ غار کی نقش نگاری کو پانچ الگ الگ پینلز میں پہاڑی دیوار پر دکھایا گیا ہے۔ ایک پینل میں، ایک رقص کرنے والے گروپ کو دائرے میں ناچتے دکھایا گیا ہے جو سندھ کا لوک رقص ’ہمرچو‘ لگتا ہے۔ رقص کے دوران، مرد اپنے ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں، اور ان کی کمر اور ہاتھ ایک چلتی ہوئی تصویر یا حرکت پذیری کی طرح نظر آتے ہیں۔ دوسرے پینل میں مرد ایک قطار میں ناچ رہے ہیں۔ تیسرے پینل میں غالباً تین آدمی رقص کر رہے ہیں اور ان کے ہاتھ بلند ہیں۔

چوتھے پینل میں ہرن جیسے جانور کو نقش کیا گیا ہے۔ پانچویں پینل میں، دو کوہان والے بیلوں کو سجایا گیا ہے، جب کہ کوہان والے بیلوں کے ساتھ ایک آدمی بھی دکھایا گیا ہے جیسے ہل چلا رہا ہو۔ رقص کا پس منظر فصل کی کٹائی کی رسم یا پھر کوئی اور خوشی کا موقعہ ہو سکتا ہے۔ کچھ تصویروں کا رنگ مٹا دیا گیا ہے۔ کوہان والے بیلوں کے سینگ اتنے ہی بڑے ہیں جتنے سندھ کے صحرائے تھر میں پائے جانے والے بیلوں کے سینگ ہیں۔

اس غار کا نام مقامی لوگوں نے تھریا رکھا ہے، شاید اسی تعلق کی وجہ سے کہ بیل سندھ کے صحرائے تھر میں پائے جانے والے بیلوں جیسے ہیں۔ سندھی زبان کی طرح براہوی زبان میں بھی تھریا سے مراد ”تھر“ ہے۔ قیاس قرین ہے کہ اس جگہ کا پہلے نام مختلف ہو گا مگر بعد میں اسے مقامی لوگوں نے تھریا کہا جو کوہان والے بیلوں کی تصویر کشی کی وجہ سے غار کا نام تھریا مشہور ہوا۔

پتھروں پر نقش نگاری زیادہ تر سرخ اور سیاہ رنگوں میں ہے، جو غالباً علاقے کے رنگین پتھروں سے نکالی گئے ہوں گے ۔ رنگت کو نقش نگاروں نے پسے ہوئے رنگین پتھروں میں پانی ملا کر بنایا ہو گا۔ مختلف رنگوں کے ایسے نرم پتھر اب بھی غار کے قریب سے ملتے ہیں۔ مصوری کا فن اور تصویروں میں رنگوں کا استعمال کاریگروں کی مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس غار کے قریب قدیم برہمی الفابیت کے حروف کے نقوش بھی پہاڑوں پر ملے ہین۔

جہاں تک ان غار میں نقش نگاری کی تاریخ کا تعلق ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ عکس پیلیولتھک دور میں پینٹ کیے گئے ہوں گے ۔ یہ اس حقیقت کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں دریافت ہونے والی اس طرح کی غار نقش نگاری زیادہ تر 40,000 قبل مسیح سے 25,000 قبل مسیح اور اس کے بعد کی ہیں۔ تاہم، غار کی نقش نگاری کے ساتھ ساتھ غار کے دور یا اس کی درست دور کے تعین کے لیے ماہر آثار قدیمہ کے ماہرین کی توجہ کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments