مطربہ شیخ کا افسانوی مجموعہ: مناط


”مناط“ مطربہ شیخ کے افسانوں کی پہلی کتاب ہے جس میں اکیس مکمل افسانے اور ایک درجن مختصر افسانے شامل ہیں۔

کتاب کا سرورق بہت پر کشش ہے۔ ہلکے زرد رنگ کے پس منظر میں زینے کی علامت اور ایک عورت کا اس کے پہلے زینے پر براجمان ہونا جس کا ایک ہاتھ افق پر سورج کو چھو رہا ہے یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ سورج سے حرارت اور توانائی لے رہی ہے اور وہ دوسرے ہاتھ کو ماتھے پر رکھے غور و فکر میں محو ہے۔ مجھے لگا یہ تصویر بتا رہی ہے کہ افق پہ نگاہ رکھنے والی عورت اپنے ارد گرد کے زمینی مسائل سے کس طرح نبرد آزما ہے۔

عورت کی صدیوں کی جد و جہد کی داستان بیان کرتا ہوا سرورق لاجواب ہے۔ عطا الرحمن خاکی صاحب نے انتہائی خوبصورتی سے تجریدی آرٹ کے ذریعے مصنفہ کی کہانیوں کا خلاصہ بیان کر دیا ہے۔ جو کچھ ظاہر ہے اور جو مخفی ہے وہ پڑھنے والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ یہ قارئین کے تخیل پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اسے مکمل کرتے ہیں۔

کیا مطربہ ایک فیمینسٹ ہے۔ مجھے یہ معلوم نہیں مگر مطربہ شیخ نے اپنی کہانیوں میں بہت شائستگی سے ان تمام نا انصافیوں کو کہانیوں کا موضوع بنایا ہے جو زیادہ تر حقوق نسواں کے سلسلے میں در پیش ہیں۔

میری نظر میں مطربہ شیخ ایک ذہین فطین اور حسین کردار کا نام ہے، کتاب کا نام بھی اپنی نوعیت کا انوکھا نام ہے جو ان کی نمائندہ کہانی اور اس کے ایک کردار کے نام پر رکھا گیا ہے۔

یہ اور بات ہے کہ کہانی مناط میں کرداروں نے روایت کی چادر کو یکسر اتار پھینکا ہے ان کے انداز زندگی سے لگا یہ کسی اور زمین کی کہانی ہے۔ میں نے بہت بار سوچا کیا یہ ہمارے سماج کی کہانی ہے۔

ان کے افسانے کی ہیروئنیں روایتی روتی بسورتی مظلوم لڑکیاں نہیں بلکہ جراٰت رندانہ لیے ہوئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے وہ آج کی عورت کو نہ صرف معاشی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتی ہیں بلکہ وہ اسے جذباتی طور پر بھی خود مختار اور مستحکم روپ میں دیکھنے کی آرزومند ہیں۔

افسانہ نگار مطربہ شیخ کا لہجہ ادبی چاشنی سے تر ہے تو دوسری جانب جراٰت مندانہ حد تک بے باک بھی ہے۔ وہ جو کہنا چاہتی ہیں اشارے کنائے میں نہیں کہتیں کھل کے کہتی ہیں۔

ان کے افسانے پڑھ کر ایک خوشگوار تاثر ابھرتا ہے جو کہانی پڑھنے پر اصرار کیے جاتا ہے۔ کرداروں کے نام مجھے بہت دلچسپ لگے اور نگینوں کی طرح جڑے ہوئے۔

”میں گل لالہ ہوں، آن لائن ہوں، لیکن دستیاب نہیں ہوں“

یہ لفظی طمانچہ ہے بالکل ایسا ہی جیسے راہ چلتی خواتین اپنے گھورنے والوں یا چھیڑنے والوں کے منہ پہ مارنا چاہتی ہیں۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں کچھ تجربات جو خواتین کو محض اس لیے پیش آتے ہیں کہ وہ صنف نازک سے تعلق رکھتی ہیں یعنی کچھ سماجی بدصورت رویوں کا مسلسل سامنا انہیں محض اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ وہ صنف کرخت نہیں ہیں ان بدصورت رویوں کے جواب میں اس طرح کے مکمل جملے اترتے ہیں۔

مطربہ شیخ صاحبہ کی کہانیاں زیادہ تر درمیانے طبقے کے افراد کی کہانیاں ہیں، جنہیں ایک طرف معاشی دباؤ کا سامنا ہے تو دوسری طرف ذات کے داخلی مسائل کا ، تنہائی اور سماجی گھٹن سے پیدا ہونے والی کشمکش کے نتیجے میں کہانی بنتی پھیلتی اور پھولتی ہے۔ مناط کے بہت سے افسانوں میں کرونا وبا کے دور کی پریشانیوں کا ذکر ہے۔

چھ صفحات پہ مشتمل افسانہ الماری پڑھا تو پڑھتی چلی گئی۔ مصنفہ نے مہ پارہ کے کردار کی سوچ سے ان تمام لڑکیوں کی سوچ کو بیان کیا جو درمیانے طبقے کی ہر نوجوان لڑکی کی سوچ ہوتی ہے۔ کس طرح وہ مشترکہ خاندان میں نہیں رہنا چاہتیں ان تمام مسائل کی نشاندہی کی جو عام طور پر ایسے گھروں میں پائے جاتے ہیں۔

اگر میں یہ کہوں کہ مناط کے پہلے افسانے ابراہیم اور ردابہ میں کیا ہے تو بلا شک و شبہ ترکی کے خوبصورت شہر عرفہ کی بہار کا تعارف ہے۔ مجھے تاریخی روایات کی معلومات ملیں جھیل ابراہیم کو مطربہ کے سنگ دیکھا۔

” جھیل جس میں خوبصورت مچھلیاں تیرتی رہتی“ یہاں انہوں نے اس شہر کی تاریخ موسم اور کھابوں کا ذکر کیا۔
جب وہ لکھتی ہیں

ردابہ نے ان کے لیے پاکستانی سٹائل میں ماش کی دال بنائی، خوب بگھار لگایا تو لگا کہانی کو بھی بگھار لگ گیا۔

کڑوے سیب کے نام سے لکھی کہانی

ایک مختلف رنگ میں لکھی گئی کہانی ہے جو کسی پارٹنر یا شریک ذات کی غیر موجودگی سے جنم لینے والی نفسیاتی کیفیت اور ذہنی الجھاؤ کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے جنس کو اہم جسمانی تقاضے کے طور پر اہمیت دی ہے مگر اس کا انداز بہت سادہ اور فطری ہے۔

لڈو کی ٹوپی میں ممتا کا کرب اور ایک عورت کا دکھ ہے جس کا گناہ فقط پسند کی شادی ہے۔ یہ بھی رشتوں میں سفاک رویوں کی داستان ہے۔ مصنفہ نے اپنے مخصوص انداز سے کہانی کو چھوٹے چھوٹے واقعات اور گہرے ہمدردانہ احساسات سے بھر کے دلچسپ بنایا ہے

باکرہ میں ایک مرد نے اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے کس طرح عورت کو مورد الزام ٹھہرایا۔

پدر سری معاشرے کی تکلیف دہ حقیقت جہاں ایسے واقعات معمول سمجھے جاتے ہیں مگر اس کہانی کو خوبصورتی سے مثبت اختتام دیا۔

”راستے میں ایک دیوار پر لکھا نظر آیا، ہر قسم کی کمزوری کا شافی علاج کیا جاتا ہے، میں سوچنے لگا کہ ہم کس کس کمزوری کا علاج کریں گے“

مسترد ’افسانے میں افسانہ نگار نے بہت ہمدردانہ نکتہ نگاہ سے ایک مرد کے شخصی مسائل کا ذکر ہے۔ وہ مجرم بنا تو اس کے پیچھے کیا عوامل تھے۔

مختصر کہانیوں میں علامتی انداز سراہنے کے لائق ہے۔

ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ان کہانیوں کے کردار ہمارے بیچ رہتے ہوں جنہیں ہم بہت بار پہلے مل چکے ہوں۔ ان کا مشاہدہ عمیق، ذہن تازہ، سوچ جدید انداز معتدل اور صحتمندانہ ہے۔ نہ کونین کی گولی جیسا کڑوا نہ نیم کے پتوں کی طرح کسیلا کہ گلے سے نہ اترے۔ ادب کے صحن چمن میں چمپا چنبیلی کی مہک سا۔

دعا ہے کہ مطربہ کی مناط ان کے لیے کامیابی اور سرفرازی کا پہلا زینہ ثابت ہو۔

آج ہی ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے یہ خوبصورت مصرعے نظر سے گزرے۔ جنہیں میں مطربہ شیخ کے نام انتساب کرتی ہوں۔

ڈاکٹر ستیہ پال آنند فرماتے ہیں

غم ذات سے رنج دوراں تلک
عرصہ لامکاں ہے
جسے میرا فن اپنے اظہار میں ڈھالنا جانتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments