پیش ہے صدارتی نظام سے بھی بہتر نظام


آج کل پھر مہم چلی ہوئی ہے کہ صدارتی نظام نافذ کیا جائے۔ شاید یہ سوچا جا رہا ہے کہ اس قوم میں چند سو اہل افراد ہی موجود نہیں جنہیں نمائندہ بنا کر پارلیمان میں بھیجا جائے جہاں وہ اپنی صفوں میں سے کسی ایک کو وزیر اعظم بنا لیں۔ نرگس کو بے تحاشا رلا کر بس ایک ہی دیدہ ور مل سکتا ہے جسے صدر بنا دیں تو وہ قوم کو چاند کے پار پہنچا دے گا۔ غالباً صدارتی نظام کے حامیوں کا خیال ہے کہ جمہوریت میں صدر کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ وہ جو جی چاہے کرے، کوئی نااہل ممبر پارلیمان اس کے کام میں رخنہ اندازی نہیں کر پائے گا۔

شاید ان کے ذہن میں صدر ایردوان، ولادیمیر پوٹن، السیسی اور جمہوریہ وادیا کے صدر حافظ الہ دین وغیرہ کی شبیہ ہے کہ جیسے وہ اپنا ملک چلا رہے ہیں ویسے ہی ہمارا سلیکٹڈ صدر بھی چلائے گا۔

معاملہ یہ ہے کہ زمانہ بہت خراب ہے۔ عموماً صدر اتنے طاقتور نہیں ہوتے جتنے مندرجہ بالا حضرات ہیں۔ جمہوریت طاقتور ہو تو صدر کے لیے بھی ہزار مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ ایسی صدارت کا کیا فائدہ جس میں ایک سلیکٹڈ صدر کو اجازت نہ ہو کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین یا اپنی کابینہ کے اراکین کی گفتگو بھی ریکارڈ نہ کر سکے۔ یا پھر اپنے دفتر میں کسی حسینہ سے پیار بھرے دو بول بولنے کی اجازت بھی اسے میسر نہ ہو۔ یا مالی معاملات میں کھل کھیلنے کی کوشش کرے تو اپنا مواخذہ کروا بیٹھے۔ یا اسے معزول کر کے پنجرے میں بند کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔ یہ سب کچھ دنیا کے طاقتور ترین صدور نکسن، کلنٹن اور ٹرمپ وغیرہ کے ساتھ ہوا تھا اور پنجرے میں حسنی مبارک بند ہوا تھا جو ان سب امریکی صدور سے بھی زیادہ طاقت رکھتا تھا۔

بھاڑ میں جائے ایسا صدارتی نظام۔ یہ ہمارے کس کام کا۔ ہمیں تو ایسا صدر چاہیے جو دن کو رات کہے تو ملک بھر میں رات ہو جائے۔ مہنگائی کو سستائی کہے تو سب کہیں کہ ملک بہت سستا ہے۔ چاہے دنیا بھر کی کن سوئیاں لیتا پھرے کوئی اسے نہ پوچھے۔ جسے چاہے جیل میں ڈالے جسے چاہے بخش دے۔ ملکی معاشرے کی روایات کو توڑتے وقت زیادہ سوچے نہیں بس کر گزرے۔ علما، فوج، عدلیہ، پارلیمان، اور عوام سب اس کے تابع فرمان ہوں۔

غور کریں تو یہ سب فضائل ہمیں صدارتی نظام میں نہیں ملیں گے۔ مگر مایوس مت ہوں۔ ایسا نہیں کہ دنیا میں ایسا نظام موجود نہیں۔ یہ سب کچھ کرنا ہے تو بہتر ہے کہ شہزادے کا نظام لے آئیں۔ ہمارے شہزادے کو بھی وہی نظام سوٹ کرے گا۔

شہزادے نے کیسے تمام کرپٹ لوگوں کو نچوڑ نچوڑ کر ان کی جیبوں سے اربوں ڈالر نکالے ہیں۔ خواہ کوئی کیسا ہی قریبی عزیز کیوں نہ تھا، جب اسے سیون سٹار ہوٹل کی لابی میں مہینے بھر گدوں پر سلایا تو وہ بلا جبر و اکراہ اپنی کرپشن تسلیم کر کے اربوں ڈالر دینے کو راضی ہو گیا۔ جسے وہ چاہتا ہے اسے سزا ملتی ہے۔ جو وہ حکم دیتا ہے علما کا فتویٰ اس کے مطابق ہوتا ہے۔ میڈیا وہی دکھاتا ہے جو شہزادہ چاہتا ہے۔

بس ایک فرق ضرور ہو گا اس شہزادے اور ہمارے شہزادے کی پالیسی میں۔ وہ اپنے ملک کو مذہبی تنگ نظری سے نکال کر لبرل بنا رہا ہے اور ہمارا شہزادہ ملک کو مزید مذہبی کرنا چاہتا ہے۔ وہاں بچوں کو جدید تعلیم دی جا رہی ہے اور یہاں بچوں تک کو ٹوپی پہنانے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ وہاں بچوں کو جدید مغربی علوم دیے جا رہے ہیں تو یہاں مذہبی تعلیم پر مزید زور دیا جا رہا ہے۔ وہاں ٹورازم اتھارٹی بن رہی ہے تو یہاں رحمت اللعالمین اتھارٹی۔ وہاں مغربی تعلیم دینے والی یونیورسٹیوں کے کیمپس بن رہے ہیں تو یہاں مغربی تعلیم دینے والی یونیورسٹیوں میں روحانیت کے شعبے قائم کیے جا رہے ہیں۔

اب شہزادے کے نظام میں تو شہزادے کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ملک کو جدید بنانا چاہتا ہے یا قدیم۔ اس پر حیرت کیسی؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments