گالی کا فلسفہ


دنیا بھر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ”گالی“ کی ہے، اس کے لئے کوئی تعلیم و تربیت نہیں بلکہ ایک خاص قسم کی کمینگی درکار ہوتی ہے۔ گاؤں دیہات یا شہر کے نواحی علاقوں میں بچہ پہلا لفظ ماں سیکھتا ہے اور دوسرا ماں کو گالی دینا، محلے کی گلیاں گالی کے معاملے میں پہلی تربیت گاہ ثابت ہوئی ہیں، آج کل شہروں میں اسکول وینز یہی کام کر رہے ہیں۔

کچھ بڑے اپنے بچوں کو لاڈ پیار میں گالی دینا سکھاتے لیکن جب بچہ بڑا ہو جاتا ہے تو اسی حرکت پر اس کی چپٹ لگاتے ہیں، ایسے لوگوں کو تھانے بلا کر بچوں سے کئی سو گالیاں سننے کی سزا دینی چاہیے۔

گالیاں ہر خطے اور زبان کی ایک جیسی ہوتی ہیں، زیادہ تر مرد دیتے اور لیتے ہیں لیکن ہوتی خواتین کے نام کی ہیں یہاں تک کہ مرد کے نام کی گالیاں بھی کہیں نہ کہیں جا کر خواتین کو ہی پڑتی ہیں۔

برا بھی صرف مرد کی گالی کا منایا جاتا ہے، کہتے ہیں خاتون سو گالیاں بک لے لیکن مرد ایک گالی دے کر بڑی سے بڑی مضبوط خاتون کی عزت اتار سکتا ہے، اس کو آپ مردوں کا نرا کمینہ پن گردان سکتے ہیں۔

کچھ گالیاں برکت کا باعث بھی ہوتی ہیں، والد، استاد اور باس کی گالی کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر لینے پر ترقی کے راستے کھلتے ہیں، بیوی کی گالی انتہائی محبت کی علامت ہوتی ہے، چھاڑیں باز لڑکی کی گالی کو نیم رضامندی اور لعنت کو ”بات پکی“ قرار دیتے ہیں۔

دوستوں کی ایک ایسی قسم بھی ہے جن کے درمیان لڑائی ہو جائے تو وہ نارمل زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں، گویا جب تک گالی جاری ہے اس وقت تک محبت سلامت ہے، ایسے ماحول میں گالی گڑ سے میٹھی ہوتی ہے جبکہ مہذب زبان کو ترش روی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

کچھ لوگ گھنٹوں کے دلائل بھی نہیں مانتے ایسے موقع پر ایک گالی معاملہ حل کر سکتی ہے، غریب بے بسی پر گالی دیتا ہے اور امیر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے گالی بکتا ہے، جاہل کی گالی صاف اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہے، پڑھا لکھا اسی بات کو الفاظ کا پیرہن پہنا کر منہ پر مارتا ہے لیکن اس میں کمال کی منافقت ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کی سمجھدانی میں جینیاتی خرابی بھی ہوتی ہے وہ گالی کو ہی دلیل سمجھ لیتے ہیں اور ہر جگہ اپنی اس تربیت کا چھڑکاؤ کرتے رہتے ہیں۔

اگر دنیا میں گالی میں معاونت جرم قرار پاتی اور پر ایک روپیہ فی گالی جرمانہ بھی ہوتا تو ”مارک زنگر برگر“ اور جیک ڈور سے جیسے سوشل پلیٹ فارم کے تمام مالکان قلاش ہو چکے ہوتے کیونکہ سب سے زیادہ گالیاں فیس بک اور ٹویٹر پر دی جاتی ہیں، صرف یہی نہیں سماجی رابطے کی تمام ویب سائٹس پر سماجی رابطہ کم اور گالیوں کا تبادلہ زیادہ ہو رہا ہوتا ہے۔

آج کل سیاست میں بھی اتنی گالیاں دی جانے لگی ہیں کہ گالیوں کے لئے مشہور روایتی طبقے یعنی قصاب، لوہار اور مراثی اس ماحول میں چلے جائیں تو انہیں بدہضمی ہو جائے۔ سرکاری دفاتر میں گالی سے کام نکلوانا ایک فن ہے، کوئی اناڑی ایسی حرکت کرے گا تو کام بھی نہیں ہو گا اور جرمانہ بھی لگ جائے گا، اس لئے خیال کیجیے پھر نہ کہیے گا کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments