روداد سفر – اسلام اور غیر مسلموں کی اخلاقیات کے بارے میں سوالات


جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریبان کا تار تار چلے

ہمارے والد صاحب ہماری تعلیم کے لیے بہت فکر مند تھے اور اس وقت کے سب سے اچھے سکول ایف جی پبلک ہائی سکول انگلش میڈیم میں داخل کروایا اور ساتھ ٹیوشن کے لیے بھی استاد رکھا تھا۔ مجھے یاد ہے میں شاید نویں یا دسویں کلاس میں تھا، ہمارے سکول کی ایک بزرگ ٹیچر مس تاج تھیں جن کی عمر اس وقت بھی شاید پچاس ساٹھ کے قریب تھی اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ وہ ہمیں اسلامیات پڑھاتی تھی۔ ایک دن کسی اور پیریڈ کی ٹیچر نہیں آئیں تو مس تاج نے مجھے کھڑا کیا اور ایک کتاب جس کا سر ورق نہیں تھا مجھے دی اور کچھ صفحات کے بارے میں کہا کہ اونچا پڑھ کر سب کو لکھواؤں۔

میں نے پڑھنا شروع کیا اور باقی طلباء اور طالبات نے لکھنا۔ وہ کسی جنید بغدادی کی کرامت کا بیان تھا کہ وہ شاید ہر وقت عبادت ہی کرتے رہتے تھے اور ساتھ میں کسی نیک رابعہ بصری کا بیان بھی تھا کہ وہ ہر وقت روزے رکھتی اور نمازیں ہی پڑھتی تھیں اور زندگی بھر شادی بھی نہیں کی۔ اب معلوم نہیں کہ انہوں نے کسی سے شادی نہیں کی کہ کسی نے ان سے شادی نہیں کی۔ میرا کچھ مطالعہ اس وقت نعیم صدیقی کی کتاب محسن انسانیت کا تھا اس میں مجھے تو رسول اللہ ﷺ کی ایسی ہر وقت نمازیں پڑھنے اور ہر روز روزے رکھنے کی کوئی بات نہیں ملی تھی اس لیے مجھے یہ سب واقعات بہت عجیب سے لگے۔

میرے ذہن میں سوال آیا کہ پھر پڑھائی سکول جس پر ہم وقت ضائع کر رہے ہیں چھوڑ کر عبادت عبادت ہی کرنی چاہیے۔ لیکن اگر والد صاحب نے بھی دکان چھوڑ کر عبادت عبادت شروع کر دی تو ہم کھائیں گے کہاں سے۔ مس تاج بہت سخت طبیعت کی تھیں ہم نے کبھی شاید ہی انہیں مسکراتے دیکھا ہو۔ اس لیے مجھے ان سے سوال کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

انہی دنوں سکول میں کسی اور سکول سے پرنسپل پوسٹ ہو کر آئے بخاری صاحب بہت جلالی طبیعت کے تھے اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک دن اسمبلی میں وہ تقریر کرنے کھڑے ہوئے اور بیان کیا کہ قرآن میں ہر زبان کے لفظ موجود ہیں اور مثال دی کہ قرآن میں انگریزی زبان کے الفاظ بھی ہیں اور پھر مثال کے لیے یہ آیت پڑھی ”فصل لربک وانحر“ اور فرمایا کہ آیت (ون حر) میں ”ون“ انگریزی زبان کا لفظ ہے۔

ساروں کے منہ کھلے رہ گئے کہ ان کے سامنے کون بولے۔ میرے ذہن میں سوال آیا کہ خدا کو اپنی کتاب میں یہاں انگریزی کا ”ون“ ڈالنے کی ضرورت کیا تھی کیا ”ایک“ کے لیے عربی کے پاس لفظ نہی ہے۔ پھر جنہوں نے سب سے پہلے پڑھنا تھا انہوں نے انگریزی کے ون کا کیا کرنا۔

ہمارے ایک دور پرے کے رشتے دار تھے میر صاحب ( نام لکھنا مناسب نہیں ) لوگ انہیں کمیونسٹ ذہن کے کہتے تھے یا کمیونزم سے متاثر کہتے تھے یا طنزیہ ”دانشور“ کہتے تھے۔ وہ ایک دن دکان پر آئے اور اسلام پر سوالات اٹھا دیے اور کہا کہ یہ تو تیس سال بھی نہیں چل سکا کہ جنگ جمل اور صفین میں اس کو ماننے والے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے اور یہ اقتدار کے لیے لڑ رہے تھے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں ان کے سامنے کوئی عقلی دلیل نہیں رکھ سکا۔

خلافت و ملوکیت ( مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کتاب ) کی تلاش شروع کی اور اسے پڑھنا شروع کیا روایات ملتی گئی کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔ خلافت تیس سال رہے گی پھر ملوکیت۔ اہل بیت پر ظلم ہوا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ جو نبی کے اپنے تربیت یافتہ تھے ان سے ایسا کام ہوا تو بعد میں ہم تک والوں سے گلہ کیا۔ پھر کیا یہ نظام صرف تیس سال کے لیے تھا اس کے بعد پھر وہی پرانی ڈگر۔ پھر یہ کیسا مضبوط نظام تھا کہ اس میں ایک خلیفہ کو دارالحکومت میں قتل کر دیا گیا جبکہ ان کے دروازے پر حضرت علی رضی اللہ پہرہ دے رہے تھے۔

پھر تو مولانا مودودی رحمہ اللہ نے حضرت علی کی طرف داری کی تو حضرت امیر معاویہ کے ایمان کو کہاں فٹ کریں۔ پھر صحابہ جو موجود تھے انہوں نے کیوں اسے تسلیم کر لیا اگر حضرت امیر معاویہ میں بہت شدید خامیاں تھیں۔ کیا یہ واقعی کوئی دینی مسئلہ تھا جس کے لیے ایک فریق کے حق پر ہونے کے لیے روایات پیش کی جا رہی تھیں؟ نظام پر میری سوئی اس لیے اٹک گئی کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کی ساری دعوت ہی اس خلافت راشدہ کے نظام کے لیے تھی اور یہ میر صاحب اسی نظام کے متعلق کہہ رہے تھے کہ وہ تو صرف تیس سال ہی چلا اس کے بعد تو راستہ اس کے پاس بھی کوئی نہیں تھا اور ملوکیت ہی اختیار کرنی پڑی۔

تعلیم سے جان چھڑانے کے بعد والد صاحب نے اپنے ساتھ دکان پر بیٹھا دیا اور جماعت اسلامی نے فارم فل کروا کر رکن بنا دیا۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ کی تقریبآ ساری کتب ہی میری پڑھی ہوئی تھیں۔ ایک بار میرے ایک کالج کے کلاس فیلو شیخ صاحب جو امریکہ میں سیٹل تھے پاکستان آئے تو انہیں ملنے کے لیے گیا۔ شیخ صاحب کی باتوں سے معلوم ہوا کہ وہ غلام احمد پرویز صاحب کی فکر سے بہت متاثر ہیں۔ اور ان دنوں منکر حدیث کا فتویٰ مارکیٹ میں بہت مشہور تھا۔

انہوں نے ( شیخ صاحب ) روایات پر سوالات اٹھانے شروع کیے۔ میں نے واپس گھر آ کر مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کتاب ”سنت کی آئینی حیثیت“ دوبارہ پڑھی اور پھر انہیں تحفتاً پیش کی۔ لیکن اس میں خود ایک بات میرے ذہن میں اٹک گئی کہ نماز کے متعلق اتنی روایات موجود ہیں پھر نماز ایک جیسی کیوں نہیں۔ پھر رفع الیدین کی روایات بھی کافی تعداد میں موجود ہیں تو میں جو بغیر رفع الیدین کے نماز پڑھتا ہوں تو اس کی دلیل کہاں سے لاؤں۔ پھر کچھ اور روایات بھی موجود تھیں جن کا دفاع مولانا مودودی رحمہ اللہ نے کیا تھا جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ کی شادی کی چھ سال والی روایت۔ جیسے حضرت عائشہ صدیقہ کا سوال کے جواب میں غسل عملی طور پر کر کے دکھانا، جسے انہوں نے فٹ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ مجھے ہضم نہیں ہوئیں۔

ہمارے علاقے میں شیعہ مسلک کے لوگ بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں بلکہ ہمارے گھر کے پاس دو امام بارگاہیں ہیں جن کے جلوس دیکھنے ہم بچپن سے جاتے تھے روایات تو ان کے پاس بھی موجود ہیں پھر وہ ہم کیوں تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ساری روایات کی جانچ پڑتال محدثین نے کی ہے اور قوی روایات ہی لی ہیں تو پھر ان شیعہ حضرات کی روایات کو ہم کیوں نہیں قبول کرتے۔

2002 سے پہلے تک ٹیکسلا جو تاریخی شہر اور ورلڈ ہیریٹج ہے یہاں بہت سیاح آتے تھے۔ ہمارے ایک دوست نے ٹیکسلا میوزیم کے پاس ایک ہوٹل کرائے پر لیا تھا جس میں کھانے پینے کے ساتھ قیام کا بندوبست بھی تھا۔ شام کو اکثر مختلف ممالک کے سیاح آ جاتے تھے جو کھانا بھی کھاتے اور رات قیام کر کے آگے کی طرف نکل جاتے تھے۔ میرا معمول تھا کہ میں مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کتاب دینیات کا انگریزی ترجمہ اپنے پاس رکھتا تھا اور جو سیاح آتے ان کی دعوت کرتا گپ شپ لگاتا اور ایک کتاب تحفتاً دے دیتا۔

ایک جاپانی لڑکی سے ملاقات ہوئی جو شمالی علاقہ جات سے واپس آ رہی تھی اور مردوں کے سفر کے دوران پیش آنے والے رویے پر افسوس کر رہی تھیں۔ میں نے اس سے بات چیت شروع کی اور بات یہ کی کہ آج یہ سب لوگ اچھے اور برے اعمال کر رہے ہیں کسی کا اسے صلہ مل جائے گا اور کچھ رہ جائیں گے اور جو صلہ ملے گا وہ بھی کیا اس کے عمل کے مطابق ہو گا؟ اس نے سوچا اور کہا یہ تو ہے لیکن پھر اس کا کیا حل ہو گا۔ میں نے کہا کوئی دن ہونا چاہیے جہاں حساب بند ہو جائیں اور ہر ایک کے عمل کو کوئی غیر جانب دار تول کر بدلہ دے دے۔ یہ بات سن کر اس نے مجھ سے کہا اسے پھر بیان کرو میں نے اس بات کو پھر بیان کیا۔ اور اسے سوچوں میں چھوڑ کر اور مولانا مودودی رحمہ اللہ کی دینیات کتاب دے کر اجازت لی۔

اس سے میں نے اس کے مذہب کے متعلق بھی سوال کیا اور اس نے بتایا کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتی۔ لیکن یہ سوال پھر میرے ذہن میں آیا کہ اگر وہ کسی مذہب کو نہیں مانتی تو اچھے اور برے اعمال اور حساب کتاب لینے والی غیر جانبدار ہستی کے بارے میں اس نے سوال کیوں نہیں کیا کہ وہ ہستی کیا ہو گی کہاں سے آئے گی کیسے حساب کرے گی، کیا معیار ہو گا جس پر ان اچھے برے کو تولا جائے گا جانچا جائے گا۔ اور اچھے اور برے اعمال ہیں کیا؟ اور اچھے کس معیار پر اچھے اور برے کس معیار پر برے ہیں؟ یعنی وہ معیار کیسے طہ ہو گا۔

پھر گھر آ کر میں خود اپنے ذہن میں اس دن (قیامت ) کی ضرورت کے متعلق دلائل جمع کرتا رہا کہ وہ کیوں برپا ہو۔

ایک فرانسیسی جوڑے سے ملاقات ہوئی جس نے آگے ایران کی طرف جانا تھا۔ یہ بہت خوش اخلاق جوڑا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایران کے بارے انہیں جو معلومات ملی ہیں وہاں کا اسلام کچھ اور ہے اور بہت سخت متشدد ہے۔ میں نے کہا وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس نے کہا اس مسلک کے لوگ تو تمہارے یہاں بھی ہیں تو کیا ان کے اصول کچھ الگ ہیں۔ پھر اس کا سوال تھا ان کا اسلام الگ ہے کیا؟ اس بات کا جواب میرے پاس بھی نہیں تھا۔ مذہب کے بارے میں ان سے معلوم ہوا کہ وہ بھی کسی مذہب کو نہیں مانتے۔

ان سے کچھ اخلاقیات پر باتیں ہوئیں جنہیں انہوں نے سراہا اور کہا یہ تو ہم سب قبول کرتے اور میں نے ان اخلاقیات کو دین سے جوڑ دیا۔ انہیں بھی میں نے دینیات کا انگریزی ترجمہ دیا اور نیک خواہشات کا اظہار کر کے گھر آ گیا۔ میں اپنے ذہن میں یہ سوال لے کر آ یا کہ یہ تو کسی مذہب کو نہیں مانتے تو اخلاقیات کے باب میں یہ اسلام کی باتیں کیوں قبول کر رہے ہیں۔

بہت بعد کا واقعہ ہے کہ پاکستان میں ہمارے گھر کے باہر سے محرم الحرام میں بچوں کا ایک جلوس نکل کر گیا۔ میری بیوی اور بچیاں چھت پر کھڑے اسے دیکھتی رہیں۔ رات کو میں جب واپس آیا تو انہوں نے یہ بتایا کہ وہ علی علی پکار رہے تھا اور ان کی سمجھ میں یہ آیا کہ وہ علی کو پوجنے والے تھے۔ اور میری بیوی نے سپیشل اس کی ویڈیو بھی بنائی تھی۔ سوال اس نے کوئی نہیں کیا لیکن ایسی بات مجھے معلوم ہے ذہن پر نقش ضرور چھوڑ کر جاتی ہے اور سوال ضرور بناتی ہے۔ میرے ذہن میں بھی سوال اٹھا کہ اگر یہ بھی اسلام ہے تو میں اس کو اپنی بیوی بچیوں کے سامنے کیسے بیان کروں گا۔

ایک بار دو تائیوانی لڑکیاں اسی ہوٹل میں آ کر رات رکیں۔ ان سے بات چیت ہوئی وہ شادی کے لیے پاکستان آئی تھیں چائنا کے راستے گلگت سے لاہور گئی تھی وہاں کوئی ان کے جاننے والے تھے جن سے انہوں نے شادی کرنی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں ان کے گھروں کے رسم و رواج بہت عجیب ہیں اور یہ نیک بہت بنتے ہیں بدھ بھکشوؤں کی طرح تسبیح ہاتھ میں ہوتی ہے لیکن ایک دوسرے کے خلاف باتیں بناتے ہیں اور خود کو اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اور دوسری نے تو بہت بڑا انکشاف شدید نفرت والے لہجے میں کر دیا کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں جیسے یہ اس کے نزدیک بہت بڑا جرم ہو۔ میں نے ان سے بھی ان کے مذہب کے متعلق پوچھا تو ان کا جواب بھی وہی تھا کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتی۔ وہ تو چلی گئیں میرے لیے سوال چھوڑ گئی کہ یہ کسی مذہب کو نہیں مانتی تو جھوٹ سے شدید نفرت کا اظہار کس بنیاد پر کر رہی ہیں۔ جو کہ ہمارے مذہب اسلام میں سخت گناہ ہے۔ اگر یہ تاؤ ازم یا کنفیوشس کے ماننے والے معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں اور کنفیوشس کی تعلیمات میں یہ ناپسندیدہ ہے تو کنفیوشس یا تاؤ ازم کس بنیاد پر اس جھوٹ سے نفرت کی تعلیمات دے رہے ہیں۔

یہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کتاب میں کہیں پڑھا تو تھا کہ شاید کنفیوشس اور بدھا بھی پیغمبر گزرے ہوں لیکن قرآن تو صرف عرب کے اردگرد ہی رسولوں کی روداد سناتا ہے۔ صابیوں کا ذکر بھی کرتا ہے لقمان حکیم کا بھی ذکر کرتا ہے لیکن چائنیز جو اتنی بڑی قوم ہیں ان کا ذکر کہیں نہیں نہ ہی کسی عبادت گاہ کے کوئی ایسے آثار کہیں ہیں۔ وہ تو بس فلسفے کی باتیں ہیں۔ لیکن وہ باتیں بھی جن کو ہمارا مذہب اعلی اخلاقیات کہتا ہے وہ کنفیوشس اور تاؤ ازم والے کہاں سے لے کر آئے۔

میرا چھوٹا بھائی جنوبی کوریا میں بہت عرصے سے ہے۔ وہ ایک الیکٹرو پلیٹنگ کی فیکٹری میں کام کرتے تھے مالکن کا ایک چھوٹا سا بیٹا تھا جو چھٹی والے دن فیکٹری آ جاتا تھا۔ اور میرے بھائی کے ساتھ بھی کھیلتا تھا۔ ایک دن کھیل کھیل میں میرے بھائی نے اسے کسی بات پر یہ مذاق میں کہہ دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ اس بچے نے اچانک رونا شروع کر دیا اور اپنی ماں کے پاس چلا گیا اور بتایا کہ اس نے مجھے گالی دی ہے۔ ماں نے پوچھا کیا گالی دی ہے بچے نے کہا اس نے مجھے جھوٹا کہا ہے۔

یعنی جھوٹا کہنا بہت بڑی گالی ہے۔ بھائی نے مجھے یہ واقعہ سنایا تو میرے ذہن میں یہ پھر سوال آ گیا کہ یہ تاؤ ازم کنفیوشس یا ارواح کی پرستش کرنے والے کے پاس جھوٹ ایک برائی ہے کی کیا بنیاد ہے یا دوسرے الفاظ میں اخلاقیات کے کیا اصول ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔ جو ہمارے پاس وحی کے ذریعے پہنچے۔ کیا وہ اخلاقی اقدار انسانیت کا ورثہ ہیں یا صرف وحی کے ذریعے آئے۔

اسی عرصے میں ایک انڈیا کے سٹوڈنٹس کے گروپ سے ٹیکسلا میوزیم کے پاس دوست کے ریسٹورنٹ میں ملاقات ہوئی جو بدھا تہذیب کو دیکھنے آئے تھے لیکن ان کے ساتھ خفیہ اداروں کے اہلکار بھی تھے اس لیے صرف علیک سلیک ہی ہو سکی۔ بہرحال وہ موٹر وے پروجیکٹ سے بہت متاثر تھے۔

اسی دوران میرے بیرون ملک جانے کا بندوبست ہو گیا وہ ایسے کہ ہمارے ایک جاننے والے تائیوان میں تھے اور ان کے ساتھ جانا تھا۔ انہوں نے حامی بھری اور ہم نے رخت سفر باندھ لیا۔ انہوں نے کہا کہ فلپائن تک فلائٹ لے کر آنی ہے۔ اور ہم نے بھی پاسپورٹ تیار کیا دو بیگ تیار کیے جن میں تمام موجود کپڑے جوتے بوٹ پالش کا سامان سمیٹ لیا اور اسلام آباد ائر پورٹ پر آ گئے۔ اس وقت ڈالر صرف ایک ہزار پاسپورٹ پر ملتے تھے لیکن وہ بھی امریکن ایکسپریس سے امریکن ایکسپریس کے چیک کی شکل میں اور پاسپورٹ پر انٹری ڈالی جاتی تھی کہ اس پاسپورٹ کو ہزار ڈالر کے چیک ایشو کیے گئے ہیں۔ اس وقت تک فلپائن کا ویزہ نہیں تھا بلکہ آن ارائیول ویزہ تین ماہ کا ائرپورٹ پر دیا جاتا تھا۔

میں فقط وہ بتا رہا ہوں جو مجھے اپنی اوائل عمری میں پیش آیا۔ جس سادگی سے پیش آیا تھا اسے طرح پیش کر دیا۔ تحریر سے کسی شخصیت کی توہین و تنقیص ہرگز مراد نہیں ہے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments