ایلک راس کی کتاب “مستقبل کی صنعتیں” کا ایک جائزہ


 

ایلک راس ؔ (Alec Ross ) امریکہ میں سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن کا سینئر ایڈوائزر برائے جدت طرازی کام کر رہا تھا، مدت ملازمت کے اس دور میں اس نے مختلف انواع کے اکتالیس ممالک کا سفر کیا اور دنیا کے ہر ہر کونے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہونے والی تازہ ترین پیشرفت کا جائزہ لیا۔ ایلکس نے افریقہ کے ان حصوں میں جہاں کوئی بنک نہ تھے وہاں بینکاری کے لوازمات کو پروان چڑھتے دیکھا، نیوزی لینڈ میں زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے استعمال ہونے والی لیزر ٹیکنالوجی کو دیکھا، یوکرین میں یونیورسٹی کے طلبا کو اشاراتی زبان کو گفتگو کی زبان میں بدلتے دیکھا اور اسی طرح جنوبی کوریا کی ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ (R&D) لیبز میں پروان چڑھتے اگلی نسل کے روبوٹوں کو دیکھا اور ان مشاہدات کی بنیاد پر اس نے جائزہ لیا کہ مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے۔

ایلکس عالمگیریت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عالمگیریت کی پچھلی لہر نے جیتنے اور ہارنے والے پیدا کیے تھے جیتنے والوں کا ایک گروہ سرمایہ کاروں، کاروبار کے مالکوں اور ان اعلی تربیت یافتہ محنت کاروں پر مشتمل تھا جو تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکیٹوں اور نئی ایجادات کے گرد جمع ہو گئے تھے، جیتنے والوں کا ایک اور طبقہ ایک ارب سے زائد ان لوگوں پر مشتمل تھا جو ترقی پذیر ممالک میں غربت سے متوسط طبقے میں شامل ہو گئے تھے کیونکہ جب ایک مرتبہ ان کے ممالک نے آنکھ کھولی اور عالمگیر معیشت کا حصہ بنے تو ان کے مزدوروں کی نسبتاً کم اجرت ان کے لیے ایک نفع بخش چیز بن گئی۔

خسارے کا شکار وہ لوگ تھے جو زیادہ اجرت والے مزدوروں کی مارکیٹوں میں رہتے تھے جیسا کہ امریکہ اور یورپ جن کی مہارتیں تکنیکی تبدیلی اور عالمگیر بننے والی مارکیٹوں کا ساتھ نہ دے سکیں۔ وہ لوگ جن کے ساتھ ایلکس مغربی ورجینیا میں دیہاتی موسیقی کی محفلوں میں شامل لوگوں کو جو بہت زیادہ شراب پیتے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے گند کو صاف کرنے کی ذمہ داری نبھاتے تھے یا جو ان جیسے تھے بڑی حد تک خسارے میں تھے کیونکہ چند سال پہلے تک جو کام وہ کوئلے کی کانوں میں حاصل کر سکتے تھے اس کی جگہ مشینیں لے چکی تھیں اور جو کام وہ 1940 کی دہائی سے 1880 کی دہائی تک کسی فیکٹری میں حاصل کر سکتے تھے وہ کام اب میکسیکو یا ہندوستان منتقل ہو چکا تھا۔ ان لوگوں کے لیے آدھی رات کا پہرے دار بننا اتنی بڑی نعمت نہ تھی جتنی کہ ایلکس کے لیے کیونکہ یہ اس کے لیے بچ جانے والا واحد انتخاب تھا۔

1990 کی دہائی کے آغاز میں جب ایلکس کالج سٹوڈنٹ تھا، اس دوران عالمگیریت کا عمل مزید تیز ہو گیا جس نے ان بہت سی سیاسی اور معاشی نظاموں کا خاتمہ کر دیا جو کل کی معیشتوں کی تعمیر کر رہے تھے۔ سوویت یونین اور اس کی ذیلی ریاستیں ناکام ہو گئیں۔ ہندوستان نے اپنی معیشت کو آزاد کرنے کی اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا اور آخر کار ایک ارب سے زائد لوگوں کو عالمی معاشی میدان میں لے آیا۔ چین نے اپنی معاشی نمونے سے رجعت اختیار کی جس سے اس نے اپنی دوغلی سرمایہ کاری کی ایک نئی شکل تخلیق کی اور نصف ارب لوگوں کو غربت سے باہر لے آیا۔ اسی دوران یورپی یونین وجود میں آئی۔ شمالی امریکی آزاد تجارت کا معاہدہ نافٹا عمل میں آیا جس نے ریاستہائے متحدہ کینیڈا اور میکسیکو کو ایک ایسے تجارتی خطے کی شکل میں متحد کر دیا جو دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی خطہ بن گیا۔ نسلی تفریق کا خاتمہ ہوا اور نیلسن مینڈیلا جنوبی افریقہ کا صدر منتخب ہوا۔

ایلکس کا کہنا ہے کہ جب وہ کالج کا طالب علم تھا دنیا ابھی نئی نئی کمپیوٹر سے مربوط ہو رہی تھی۔ عوام کے لیے عالمگیر ویب کا آغاز ہو چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی ویب براوزر اور گوگل سرچ انجن بھی وجود میں آ گئے تھے۔ ایمازون نے اسی وقت ایک ادارے کی شکل اختیار کی۔

ایلکس کا کہنا ہے کہ اگر اس کے گاؤں کے لوگوں کا موازنہ ان لوگوں کے والدین کی زندگیوں سے کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انہیں کام کا کم تر تحفظ حاصل ہے۔ ان کا موازنہ اگر اس چیز سے کیا جائے کہ وہ اتنی رقم میں کیا کچھ خرید سکتے ہیں جو وہ کئی دہائیاں پہلے نہیں خرید سکتے تھے باوجود اس کے کہ اب زیادہ اور بہتر ذرائع مواصلات اور تفریح ہیں، ان کی غذا زیادہ صحت بخش ہے، وہ محفوظ کاروں میں سفر کرتے ہیں اور ان طبی ترقیوں سے مستفیض ہو رہے ہیں جن سے وہ زیادہ طویل عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں تو یہ نظر آئے گا کہ وہ اب بہتر زندگی گزار رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ڈھیروں تبدیلیوں سے گزرے ہیں جو مثبت بھی نہیں اور منفی بھی نہیں اور یہ تمام تر تبدیلی اس کے مقابلے میں گہنا جائے گی جو جدت طرازی کی دوسری لہر میں سامنے آنے والی ہے کیونکہ یہ کرہ ارض کے تمام 196 ممالک کو متاثر کرے گی۔ اب میٹا ورس کی نئی دنیا کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔

یہ کتاب ٹیکنالوجی کی دنیا میں پیش آنے والی پیش رفتوں کا جائزہ لیتی ہے لیکن یہ محض جدت طرازی کے فوائد کا خراج نہیں ہے۔ ایلکس کا کہنا ہے کہ دولت کی پیداوار اور ترقیاں لوگوں کو مساوی طور پر حاصل نہیں ہوں گی۔ بہت سے لوگ فائدہ حاصل کریں گے، کچھ لوگ بہت زیادہ فائدہ حاصل کریں گے لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سے لوگ بے گھر ہونے کے خطرے سے دوچار ہو جائیں گے۔ کمپیوٹر کی رہنمائی میں ہونے والی سابقہ عالمگیریت اور جدت طرازی کی لہر کے برعکس جس نے کم معاوضوں والی محنت کشوں کی مارکیٹوں میں بے شمار لوگوں کو غربت سے باہر نکالا، جدت طرازی کی نئی لہر دنیا بھر کے متوسط طبقوں کو چیلنج کرے گی اور بہت سے لوگوں کو واپس غربت میں دھکیل دے گی۔

راس نے اپنے معاشی تجزیہ نگاری کے تجربے کو کہانی سنانے کے انداز کے ایک بیانیے کی صورت یکجا کر کے ایک واضح اور باخبر نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا اور بتایا کہ کس طرح وسیع عالمی رجحانات ہمارے رہنے سہنے کے طریقوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ دنیا کے ٹیکنالوجی ٹائکون سے لے کر دفاعی ماہرین تک کے لیڈروں کی بصیرت کو شامل کرتے ہوئے، اس نے یہ کتاب لکھی اور اس میں ان خوفناک اور پیچیدہ موضوعات کو چنا جنہیں متعلقہ لوگ اہم جانتے ہیں۔ اس نے صاف اور سادہ زبان میں ان موضوعات کا جوہر اس کتاب کی صورت ہمیں پیش کر دیا۔

اگرچہ ”مستقبل کی صنعتیں“ ایلک راسؔ نے 2016 ء میں لکھی تھی لیکن ہمارے ہاں اس کا ترجمہ ابھی ہوا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ آنے والے دس سالوں میں کون سی واضح تبدیلیاں آ رہی ہیں اور وہ ترقی کے بہترین مواقع کو اجاگر کرتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ کچھ ممالک کیوں ترقی کرتے ہیں یا پھر کچھ ممالک ان ترقیوں کے لیے کیوں اپنی رال ٹپکاتے ہیں۔

وہ مندرجہ ذیل مخصوص شعبوں کا جائزہ لیتا ہے جو آنے والے دس سالوں میں ہمارے معاشی مستقبل کو تشکیل دینے میں سب سے زیادہ ممد و معاون ہوں گے :

روبوٹکس؛ ٹیکنالوجی کی وہ شاخ جو روایتی طور پر انسانوں کے ذریعہ کیے گئے کاموں کو انجام دینے کے لئے مشینوں کے استعمال یعنی روبوٹ کے ڈیزائن، تعمیر، آپریشن اور اطلاق سے متعلق ہے،

سائبر سکیوریٹی؛ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے ڈاٹا چوری کرنے کے عمل کو ڈیجٹل آٹیک سے بچانے کے پروگرامز،
جینومکس ؛ جینیات کی وہ شاخ جو جانداروں کا ان کے جینز کے لحاظ سے مطالعہ کرتی ہے، کی کمرشلائزیشن،

بگ ڈیٹا ؛ بگ ڈییٹا یا بڑے اعداد و شمار سے مراد بڑے پیمانے پر پیچیدہ ساختہ اور غیر ساختہ وہ ڈیٹا سیٹ جو مختلف آلات سے تیزی سے تیار اور منتقل ہوتے ہیں، اور مستقبل میں پیسہ اور منڈیوں پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے آنے والے اثرات۔ جیسے بٹ کوائن اور بلاک چین۔

ایلکس محولہ بالہ بیان کیے گئے ہر ایک دائرے میں پیدا ہونے والے مشکل ترین سوالات کو حل کرتا ہے اور ان کے جوابات پیش کرتا ہے۔

مثلاً ہم کام کی بدلتی ہوئی نوعیت کے مطابق کیسے ڈھلیں گے؟
کیا سائبر وار اگلی ہتھیاروں کی دوڑ کے امکان کو ہوا دے رہی ہے؟

دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتیں اپنے اختراعی ہاٹ سپاٹ ( سرگرمیوں کے لیے اہم جگہ ) بنانے اور سلیکون ویلی سے میچ کرنے کے لیے کیا امید کر سکتی ہیں؟

آج کے والدین اپنے بچوں کو کل کے لیے تیار کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں یا انہیں کیا کرنا چاہیے؟

اور خاص طور پر یہ سمجھنے کے لیے کہ کہ دنیا کس طرح کام کرتی ہے یہ ایک اہم کتاب ہے۔ ابھی اور کل۔ کیا ہونے جا رہا ہے اس لیے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً کاروباری افراد اور نئی نسل کے لوگوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔

اسے پروفیسر مقبول الہی نے ترجمہ کیا ہے اور فکشن ہاؤس نے اسے خوب صورت انداز میں چھاپا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments